مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
ماں باپ اپنے بچوں کی فطرت اور ان کی ضروریات سے سب سے زیادہ واقف ہوتے ہیں اور شیر خوار بچوں کے اشاروں کو سمجھنے میں بھی انھیں مشکل نہیں ہوتی ، یہ تو خیر انسان ہیں ، جانور اور حیوانات ، جو گویائی سے بھی محروم ہیں اور جن کو اشارہ کی بھی زبان نہیں آتی ، ان کے مالکان اور پروش کرنے والے بھی ان کی عادات و ضروریات سے بخوبی واقف ہوتے ہیں اور اسی لحاظ سے ان کے رہنے سہنے اور کھانے پینے کا انتظام کرتے ہیں ، ظاہر ہے کہ کائنات کا خالق و مالک اس بستی میں بسنے والی تمام مخلوقات اور کائنات کا حاصل ’’ حضرت انسان ‘‘ کی ضروریات ، جذبات ، مصالح و مفاسد اور عادات و اطوار سے اس سے زیادہ واقف ہوگا ؛ اس لئے خود خالق کائنات انسان کے لئے جتنے بہتر اُصولِ زندگی اور جتنا مناسب قانونِ حیات وضع کر سکتا ہے ، یقینا کوئی اور طاقت نہیں کر سکتی ، نظامِ زندگی کو مرتب کرنے کے لئے علم کی ضرورت ہے اور خدا سے بڑھ کر کوئی علیم نہیں، اور اس کے لئے قوتِ فیصلہ اور دانائی مطلوب ہے اور اس سے بڑھ کر کوئی حکیم نہیں ، اسی لئے قرآن مجید نے فرمایا کہ فیصلہ کرنے کا اختیار صرف اسی کو ہے : ’’ اَلا لَہٗ الْحُکْمُ‘‘ ۔( انعام: ۶۲)
اللہ تعالیٰ نے جس طرح دنیا میں انسان کے کھانے پینے ، لباس و پوشاک اور دوسری ضروریات کا نظم کیا ہے ، اسی طرح اس نے انسان کو اپنے نظامِ زندگی کے بارے میں بھی اندھیرے میں نہیں رکھا ؛ کیوںکہ ایک شخص یا چند اشخاص کا ایک گروہ پوری انسانیت کے جذبات ، ضروریات اور فطری تقاضوں سے آگاہ نہیں ہوسکتا، اور اس سے اس بات کی بھی اُمید نہیں کی جاسکتی کہ مختلف انسانی طبقات میں مفادات کا جو ٹکراؤ ہے اور جس سے بحیثیت ِانسان خود اس کے مفادات بھی متعلق ہیں، وہ ان کے درمیان عدل اور انصاف سے کام لے سکے گا، اسی لئے خدا کے ’’ رب ‘‘ اور ’’ رحمن و رحیم ‘‘ ہونے کا تقاضا تھا کہ وہ انسان کو زندگی گذارنے اورجینے اور مرنے کا طریقہ بھی بتائے ۔
اسی طریقہ کی رہنمائی کے لئے ہر دور میں اللہ کے نبی اور رسول آتے رہے ، حضرت آدم علیہ السلام جہاں پہلے انسان تھے ، وہیں انسانوں کے بیچ خدا کے پہلے پیغمبر بھی تھے ، یہ سلسلہ آخری پیغمبر جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر مکمل ہوگیا ، اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسان کے لئے جو قانون بھیجا جاتارہا ، اسی کو ’’ شریعت ‘‘ کہتے ہیں ، انسان کا ابتدائی دور چوں کہ علمی اور تمدنی ناپختگی کا تھا ؛ اس لئے اللہ تعالیٰ اسی زمانے کے احوال کے لحاظ سے احکام دیتے رہے ، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اس عہد میں تشریف لائے ، جب انسان اپنے تہذیبی ، تمدنی اور علمی کمال و پختگی کے مرحلہ میں قدم رکھ چکا تھا ؛ اس لئے آپ کو وہ احکام دیئے گئے ، جو قیامت تک باقی رہیں گے ، جیسے ایک انسان کے جوان ہونے تک جسم میں بڑھوتری جاری رہتی ہے اور سال ڈیڑھ سال پر اس کے کپڑے تنگ ہونے لگتے ہیں ؛ لیکن جب آدمی پوری طرح جوان ہو جائے تو اب جسم کی افزائش تھم جاتی ہے اور اس وقت وہ جو بھی کپڑے سلوائے ، آئندہ چھوٹے نہیں پڑتے ، اسی طرح شریعت ِمحمدی اس وقت دُنیا میں آئی ، جب انسان کی صلاحیت اپنے آخری مرحلہ پر آگئی ، اسی لئے یہ شریعت ہمیشہ کے لئے ہے اور کبھی انسان اس میں تنگ دامانی کا احساس نہیں کرے گا ، قرآن کی زبان میں اسی کا نام ’’ اکمالِ دین‘‘ اور ’’ اتمام نعمت ‘‘ ہے۔ ( المائدۃ: ۳)
یہی خدا کا بھیجا ہوا نظامِ حیات ہے ، جو ’’ شریعت ِالہامی ‘‘ یا ’’ اسلامی قانون ‘‘ کہلاتا ہے ، یہ قانون فلاسفۂ یونان کے افکار کی طرح محض ’’ نظریہ‘‘ نہیں ، جس کا خواب دیکھا جاتا ہے اور اس کی تعبیر کبھی دیکھنے میں نہ آئے، اور نہ یہ اشتراکی نظامِ زندگی کی طرح کوئی ایسا قانون ہے کہ ستر سال کی معمولی سی مدت اسے بے نام و نشان کر دے ؛ بلکہ یہ ایک ایسا متوازن ، معتدل اور فطرتِ انسانی سے ہم آہنگ نظام ہے ، جس نے کم و بیش ایک ہزار سال ایشیاء ، افریقہ اوریورپ کے بڑے حصہ پر حکمرانی کی ہے ، مختلف تہذیبوں اور سماجی اکائیوں کا سامنا کیا ہے اور نہایت ہی خوبی کے ساتھ ہر عہد کے مسائل کو حل کیا ہے، دنیا میں جب بھی اس قانون کی آزمائش کی گئی ، اس کی افادیت ، قانونِ فطرت سے مطابقت اور امن و سلامتی پیدا کرنے کی صلاحیت کا اعتراف کیا گیا ہے ، بدقسمتی سے خلافت ِعثمانیہ ، ترکی کے سقوط (۱۹۲۴ ) کے بعد سے اسلام کی حکمرانی کا دائرہ مساجد اور زیادہ سے زیادہ سماجی زندگی کے کچھ مسائل تک محدود کر دیا گیا ؛ لیکن آج بھی دُنیا کے جن بعض ملکوں میں اسلامی قانون کے اطلاق کو کسی حد تک وسعت دی گئی ہے ، وہاں لوگ اس کی افادیت کا احساس کر رہے ہیں اور امن و سلامتی کی ٹھنڈی چھاؤں اسلام کی برکت سے ان کو حاصل ہے۔
کہا جاتا ہے کہ دنیا کتنے ہی معاشی، سماجی اور سیاسی تغیرات سے گزر چکی ہے، جو انسان بیل گاڑیوں پر سفر کرتا تھا، اب ہوا کے دوش پر اُڑتا ہے اور سمندر کی تہوں میں غواصی کرتا ہے، ایسے فرسودہ عہد کے قوانین اس ترقی یافتہ اور متمدن عہد کے لئے کیوں کر کفایت کر سکتے ہیں؟ لیکن یہ خیال محض غلط فہمی پر مبنی ہے، دراصل انسان سے دو چزیں متعلق ہیں، ایک: اس کی فطرت، دوسرے: وہ وسائل وذرائع، جو اس کے چاروں طرف بکھرے ہوئے ہیں، غور کیا جائے تو جو کچھ تبدیلیاں نظر آتی ہیں، ان سب کا تعلق اسباب وسائل کی دنیا سے ہے، انسان کی فطرت اور اس کے اندرون میں کوئی تبدیلی نہیں، پکوان کے طریقے ضرور بدل گئے ہیں، کھانے پینے کا ڈھنگ ضرور بدلا ہے؛ لیکن بھوک وپیاس جیسے پہلے ہوتی تھی، ویسے اب بھی ہے، انسان نے تلوار اور تیر کی جگہ ایٹم بم اور میزائل بنا لیا ہے؛ لیکن اس کے پس پردہ جو جذبۂ انتقام ومدافعت پہلے کار فرما تھا، اب بھی ہے، یہی حال زندگی کے تمام شعبوں میں ہے۔
اسلامی قانون کا اصل موضوع انسانی فطرت ہے ، نہ کہ اسباب و وسائل ، وہ انسان کی فطری خواہشات اور جذبات کو کنٹرول کرتا ہے اور اس کی رہنمائی کرتا ہے ، وہ کہتا ہے کہ طاقت کا استعمال ظلم کو دور کرنے کے لئے کرو ، نہ کہ خود ظلم کرنے کے لئے ، وہ کہتا ہے کہ دولت غریبوں کے گھر چراغ روشن کرنے پر صرف کرو ، نہ کہ اپنی بڑائی کے اظہار کے لئے ، وہ چاہتا ہے کہ انسان اپنی ذہنی اور فکری قوت انسان کی فلاح و بہود کے لئے خرچ کرے ، نہ کہ انسان کے لئے ہلاکت خیز وسائل کی ایجاد میں ، وہ چاہتا ہے کہ ذرائع ابلاغ کا استعمال سچی حقیقتوں کے اظہار اور سچائی کی مدد کے لئے ہو ، نہ کہ جھوٹے پروپیگنڈے اور سچائی کو دبانے کے لئے ؛ اس لئے جوں جوں وسائل و اسباب کی دُنیا میں ترقی ہوتی جائے گی ، اسلامی قانون کی اہمیت اور ضرورت بھی اسی نسبت سے بڑھتی جائے گی ، یہی وجہ کہ آج دنیا کا کوئی قانون نہیں ، جس نے اسلام سے خوشہ چینی نہ کی ہو ، خاص کر سماجی قانون میں تو اسلامی قانون سے اتنا فائدہ اُٹھایا گیا ہے کہ اس کا شمار نہیں، اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جہاں کہیں اور جس قدر اسلامی شریعت سے اعراض اور گریز کا راستہ اختیار کیا گیا ، وہاں اسی قدر لوگ مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں ۔
اس لئے اسلامی شریعت کا نفاذ ایک رحمت ہے ، نہ کہ زحمت ، اس سے نہ کسی کو خطرہ ہے اور نہ اس پر دُنیا کو اندیشہ میں مبتلا ہونے کی ضرورت ، اسلام سراپا رحمت اورامن و سلامتی ہے ، مسلمانوں کے لئے بھی، مسلم ممالک کی غیر مسلم اقلیتوں کے لئے بھی اوران کے پڑوسیوں کے لئے بھی ، خدا کرے کہ کچھ مسلم ممالک اس بات کے لئے تیار ہوں کہ وہ اپنی زمین پر صرف خدا کی رضا کے لئے قانونِ شریعت کو اس کی تمام وسعتوں کے ساتھ ، مصلحت اور حکمت کی رعایت کرتے ہوئے نافذ کریں ، اگر واقعی انھوں نے ایسا کیا تو یہ ایک ایسا تجربہ ہوگا ، جس سے دنیا سبق لے گی اور بہت سی زبانیں جو محض عناد اور حسد سے کھلتی ہیں ، گنگ ہوجائیں گی !
(یہ مضمون نگار کے اپنے خیالات ہیں)