تحریر: پروفیسر محمد سعود عالم قاسمی
ڈین فیکلٹی آف تھیالوجی،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی
سرسیداحمد خاں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے بانی کی حیثیت سے علمی دنیا میں معروف ہیں۔ انھوں نے صرف ایک تعلیمی ادارہ ہی نہیں قائم کیا بلکہ قومی نشاۃ ثانیہ کے لیے ہمہ جہت تحریک چلائی۔ اس میں تہذیبی وتمدنی پیش رفت ، سماجی اصلاح، سیاسی شعور کی بیداری، تفہیم بین المذاہب، انسانی وحدت، عالمی ادب کی ترجمانی، معیاری لٹریچر کی تیاری، سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی، آزادانہ تحقیق اور وسیع المشربی ، سبھی کچھ کا احاطہ تھا۔ خاص طور پر انھوں نے مسلمانوں کو جفاکشی، خوداعتمادی اور دور اندیشی کی راہ دکھائی جو زمانہ کی ضرورت تھی۔
سرسید نے اپنی زندگی میں ان اہداف کے لیے جدوجہد کی اور اپنے رفقاء اور کارکنوں کو اس مہم پر لگایا اور اس کے لیے ہر وہ طریقہ اختیار کیا جس کی اس وقت ضرورت تھی۔ اس تحریک کی جہات اگرچہ متعدد تھیں مگر ان میں مرکزی حیثیت تعلیمی منصوبہ بندی کو حاصل تھی۔ کیوں کہ تعلیم ہی جملہ خوبیوں کی بنیاد اور تمام ترقیوں کا زینہ ہے۔ شخصی کمالات اور تمدنی ترقی کا مدار تعلیم ہی پر ہے۔ سرسید کی زندگی میں اس تعلیمی مہم کے اثرات ظاہر ہونے لگے۔ لیکن ان کے دوسرے تعمیری منصوبے پوری طرح برگ وبار نہ لاسکے۔ ان کے جانشینوں نے ایک عرصہ تک ان مقاصد کو سامنے رکھا اور تحریک کو آگے بڑھاتے رہے۔ اس تحریک نے رفتہ رفتہ ادارہ کی شکل اختیار کرلی اور علی گڑھ تحریک علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں مرتکز ہوکر رہ گئی۔ اس تحریک کی ایک اہم شخصیت ڈاکٹر ذاکر حسین سابق وائس چانسلر اے ایم یو اور سابق صدر جمہوریۂ ہند نے تحریک کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا:
’’سرسیداحمد خاں مسلمانوںکی قومی زندگی کا ایک قصر تعمیر کرنا چاہتے تھے، جس میں بہت سے گوشے تھے، وہ اس پورے قصر کو تعمیر نہ کرسکے کہ انسانی زندگی محدود ہوتی ہے اور وقت کے تقاضوں سے تیار نہیں ہوتی۔ انھوں نے قصر کاوہ حصہ بنایا جس سے انھیں توقع تھی کہ بعد میں آنے والے نقشے کو سمجھیں گے اور ان کی تکمیل کریں گے ، پر بعد میں آنے والوں نے اسے سرسید کا مقبرہ بنادیا۔ مقبرہ اسے کہتے ہیں جہاں انسان کا جسم دفنا کر اس پر عمارت بنادی جائے، لیکن ہم نے اس مقبرہ میں سرسید کے افکار کو دفن کردیا اور وہ جو چاہتے تھے اسے بھلا دیا۔ وہ بہت کچھ چاہتے تھے، ہم بہت کم حاصل کرسکے۔ وہ ہمارے سارے تمدن کو ایک نیا رُخ دینا چاہتے تھے۔ ہم نے ان کے کام کو انگریزوں کی نوکریاں حاصل کرنے پر محدود کردیا۔ وہ ہمیں حقیقی اَبدی زندگی دینا چاہتے تھے، ہم نے ایک کھلونے پر بس کردیا‘‘۔(عابداللہ غازی، علی گڑھ تحریک اور جامعہ ملیہ اسلامیہ، علی گڑھ، نمبر، ۱۹۵۵ء)
ڈاکٹر ذاکر حسین مرحوم کے اس خیال سے اتفاق تو سبھی کو ہے، مگر اس کے لیے عملی اقدام، منصوبہ بندی اور اجتماعی جدوجہد کا فقدان ہے۔ انفرادی طور پر بہت سے دانش ور علی گڑھ تحریک کو زندہ کرنے کی بات کرتے ہیں۔ کبھی کبھی جلسے، سمینار اور کانفرنسیں بھی منعقدہوتی ہیں مگر قرار داد اور تجاویز سے آگے کی راہ نہیں نکلتی۔ تیزی سے بدلتے ہوئے ملکی حالات، مسلمانوں کو درپیش خارجی مسائل، جان ومال اور عزت کے تحفظ کی فکر، عمومی پس ماندگی اور ناخواندگی، مسلم معاشرہ کے اندرون سے اُبھرتے ہوئے تضادات، فاسد رسم ورواج، مہلک توہمات، باہمی تنازعات، بے روزگاری اور مایوسی جیسے مسائل کو سامنے رکھیے تو علی گڑھ تحریک کو ازسرنو زندہ کرنے کی شدید ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ وقت کا تقاضا ہے پھر کوئی صاحبِ ہمت اُٹھے۔ مسائل کا حقیقت پسندانہ تجزیہ کرے اور ان کا حکیمانہ حل پیش کرے۔معاشرہ کے زخموں پر نشتر بھی لگائے اور مرہم بھی رکھے۔
علی گڑھ کو یہ امتیازاب بھی حاصل ہے کہ یہاں اصحابِ فکر ونظر اور ارباب علم وفن کی ایک کہکشاں موجود ہے۔وہ اگر حرکت میں آئے تو اس کی روشنی سے ملک وملت کے تاریک گوشے روشن ہوسکتے ہیں اور پس ماندہ سماج کے ذرے منور ہوسکتے ہیں۔ سبک دوش دانش ور بالعموم محفوظ زندگی گزارتے ہیں۔ مسائل اور اُلجھنوں سے دور رہنے میں عافیت محسوس کرتے ہیں ۔ یہ طبعی امر ہے، تاہم ان میں کچھ ایسے بھی ہیں جو تازہ فکر اور تازہ دم ہیں ان کو آگے بڑھنا چاہیے۔ تعلیم وترقی کی سیڑھیوں سے گرتے ہوئے انسانوں کی دست گیری کرنے کے لیے اجتماعی جدوجہد کرنی چاہیے اور علی گڑھ تحریک کے احیا کا حصہ بنناچاہیے تاکہ ہم سر اُٹھاکر کہہ سکیں:
یک چراغیست دریں بزم کہ از پر تو آں
ہر کجا می نگرم انجمنے ساختہ اند
اس بزم میں ایک چراغ ہے جس کے پرتو سے جدھر بھی دیکھتا ہوں انجمن سی نظر آتی ہے۔