جائزہ:وجاہت مسعود
(نوٹ:متنازع مبلغ ذاکر نائک ان دنوں پاکستان کے دورے پر ہیں انہوں نے اپنے بعض بیانوں سے ہلچل مچادی ہے،جن پر لگاتار تنقید ہورہی ہے پڑوسی ملک کی یہ تحریر اس کا اظہار ہے،اسے ایک نکتہ نظر کے طور پر پیش کیا جارہا ہے -ادارہ)
نامعلوم کس عبقری نے مذہبی خطیب ذاکر نائیک کو پاکستان کے طویل دورے کی دعوت دی ہے۔ ذاکر نائیک صاحب اب سے کچھ عرصہ قبل بھارت میں اپنی ٹیلی ویژن تقریروں کی مدد سے مقبول ہوئے تھے۔ مختلف مذاہب کی مقدس کتب اور تعلیمات میں تقابل کی مدد سے اپنے عقائد کی تبلیغ ذاکر نائیک صاحب کا تخصص ٹھہرا۔ میں اسے تقابل ادیان قرار دینے میں مشکل محسوس کرتا ہوں۔ تقابل ادیان ایک سنجیدہ علمی مشق ہے جس میں مختلف مذاہب کی تعلیمات اور تاریخی ارتقا کی مدد سے انسانی عقائد کے تنوع نیز مشترک نکات پر غور و فکر کیا جاتا ہے۔ تقابل ادیان کے مستند علما کے ہاں تمام مذاہب اور ان کے پیروکاروں کا احترام ایک بنیادی جزو رہا ہے۔ اس کے بالمقابل مناظرے کی صدیوں پرانی روایت بھی موجود ہے جس میں مذہبی درس گاہوں میں تعلیم پانے والے پیشوائوں کو مخالف مذہبی عقائد اور روایات کی تغلیط کے دائو پیچ سکھائے جاتے تھے۔ یورپ میں اصلاح مذہب کی تحریک کے دوران اس شعبے کو خاص اہمیت دی جاتی تھی۔ خود ہمارے خطے میں انیسویں صدی میں مسیحی پادریوں کی آمد نیز مذہبی طور پر غیر جانب دار نو آبادیاتی حکومت قائم ہونے کے بعد ہندو مسلم پیشوائوں میں مناظرے کی روایت نے زور پکڑا۔
روایتی طور پر ہندوستان میں مسلم عقائد کی تبلیغ کرنے والے صوفیائے کرام نے رواداری اور باہم احترام کی مدد سے اپنا نقطہ نظر بیان کیا۔ اسی ہندوستان میں بھگت کبیر کی روایت بھی موجود رہی ہے۔ پنجاب میں سکھ اور مسلم علما میں رواداری کا یہ عالم رہا ہے کہ متعدد سکھ عبادت گاہوں کی تعمیر میں مسلم صوفیا شامل رہے ہیں۔ امرتسر کے گوردوارہ ہرمندر صاحب کی بنیاد میاں میر نے 1588ء میں رکھی تھی۔ سندھ میں امرکوٹ کے مندر نیز خیرپور اور بھٹ شاہ میں مسلم صوفیا کی درگاہیں مذہب و ملت کے امتیاز کے بغیر انسانی رواداری کا نشان رہی ہیں۔ اس کے برعکس مناظرے نے مختلف مذاہب کے ماننے والوں میں تلخی اور مخاصمت کو جنم دیا۔ مولانا رزاق ملیح آبادی نے مولانا محی الدین ابوالکلام آزاد کی ابتدائی عمر کے جو سوانح لکھے ہیں ان میں مناظرے کی ثقافت کا سبق آموز نقشہ کھینچا گیا ہے۔ ذاکر نائیک صاحب کے طرز خطابت سے ایسا ہی نتیجہ نکلنا ناگزیر تھا۔ انہیں ہندوستان سے نکل کر ملائیشیا میں پناہ لینا پڑی۔ برطانیہ اور بنگلہ دیش سمیت خود ملائیشیا کی متعدد ریاستوں میں ان کے ٹیلی ویژن چینل پر پابندیاں عائد ہیں۔ ان پر کچھ مالی الزامات بھی عائد کیے جاتے ہیں جن کی غیر جانب دار تصدیق یا تردید ممکن نہیں۔ پاکستان میں ذاکر صاحب کے بہت سے مداح موجود ہیں لیکن انہوں نے پاکستان میں بہت سے ایسے موضوعات پر خیال آرائی کی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے مزاج میں خود سے اختلاف رائے رکھنے والوں کے لیے حساسیت کی کمی ہے اور غالباً وہ پاکستان کے معاشرتی تار و پود سے بھی کچھ زیادہ واقفیت نہیں رکھتے۔ راولپنڈی کی بچیوں سے لے کر خواتین اینکروں تک ذاکر نائیک صاحب نے جو بیانات دیے نیز عورت کی حکمرانی کے بارے میں جو رائے دی اس سے معلوم ہوتا ہے کہ 59سالہ ذاکر نائیک شاید نہیں جانتے کہ وہ جس برس میں پیدا ہوئے تھے اس برس پاکستان کی ایک قابل احترام بزرگ خاتون ڈکٹیٹر کے مقابلے میں انتخاب لڑ رہی تھیں۔ ذاکر نائیک آداب مہمانی کا یہ بنیادی اصول نہیں جانتے کہ میزبان ملک کے سیاسی بندوبست پر رائے زنی نہیں کی جاتی۔ ذاکر صاحب نے سندھ کے گورنر ہائوس میں فرمایا کہ ’پاکستان اسلام کے نام پر بنا۔ یہاں قرآن کا قانون ہونا چاہیے‘۔ ذاکر نائیک نہیں جانتے کہ پاکستان کا ایک تحریری آئین ہے جس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ اس ملک میں قرآن و سنت کے منافی کوئی قانون نہیں بن سکتاانہیں جاننا چاہیے کہ پاکستان کے دستور میں شق 25کے تحت تمام شہریوں کو مساوی درجہ دیا گیا ہے۔ اسی دستور کی شق 20میں ہر شہری کو عقیدے کی آزادی کا حق دیا گیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی معلومات، اچھی یادداشت اور برجستہ مکالمے کی عکاس تو ہو سکتی ہیں لیکن مذہبی اور سیاسی امور میں ذاکر نائیک صاحب کا علم سند کا درجہ نہیں رکھتا۔ انہیں انسانوں کو اپنے دین کی دعوت دینے کا حق ہے لیکن انہیں پاکستان کے سیاسی، قانونی اور معاشرتی معاملات میں دخل اندازی سے گریز کرنا چاہئے