دہلی میں مقیم مورخ اور مصنف سید عبید الرحمٰن گزشتہ ایک دہائی سے اکیلے ہی ہندوستانی مسلم تاریخ کو زندہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کا بس ایک ہی مشن ہے، اور وہ ہے ہندوستانی مسلم تاریخ کو محفوظ کرنا ہے.
پچھلے دس سالوں کے دوران، انہوں نے قرون وسطیٰ کی ہندوستانی تاریخ پر کم از کم چھ کتابیں تصنیف کی ہیں جن میں ہندوستان کی مسلم تاریخ کے مختلف پہلوؤں کو کور کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کی کتابوں میں ’Biographical Encyclopaedia of Indian Muslim Freedom Fighters’‘، ’ Forgotten Muslim Empires of South India’‘، ’ Ulema’s Role in India’s Freedom Movement‘ اور حال ہی میں شائع ہونے والی ان کی کتاب ’ Peaceful Expansion of Islam in India’ ‘ شامل ہیں۔ تازہ ترین کتاب پورے ہندوستان اور ہندوستان بسے باہر بھی موضوع گفتگو بن گئی ہے، کیونکہ یہ اہم کتاب مقامی آبادی کے زبردستی اسلام قبول کرنے (Forced conversion) کے غلط تصور کو ختم کرتی ہے۔ وہ باریک بینی سے تحقیق کے ذریعے ثابت کرتے ہیں کہ اسلام جنوبی ہندوستان میں شمال سے بہت پہلے آیا اور عرب اور فارسی تاجروں کے علاوہ صوفیاء کرام کی کوششوں کی بدولت پھیل گیا جو بڑی تعداد میں ہندوستان میں آئے اور آباد ہوئے۔
معین قاضی، سید عبید الرحمٰن کے کام پر گفتگو کرتے ہوئے اپنے تفصیلی مضمون میں Transcend میں لکھتے ہیں کہ ’’ایک مسلمان مورخ سید عبیدالرحمٰن نے ایک نیا سیکولر نقطہ نظر پیش کیا ہے جو مسلمانوں کے نقطہ نظر کو دلیری سے پیش کرتا ہے… وہ جوش اور جذبے سے معمور ہیں اور ہماری تاریخ و ثقافت کو دو بارہ بہترین پیرایہ میں پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جنوب کی وسیع ثقافت کو زندہ کرنے کے لیے ان کی تحقیق بلاشبہ مسلم تاریخ کے منظر نامے کو ازسرنو متعین کرنے میں مددگار ثابت ہوگی۔ یہ ایک مشکل کام ہے، لیکن عبید الرحمن نے نہ صرف اس کام کو پورا کرنے کا عزم کیا ہے بلکہ اس کے لئے انہوں نے بہت قربانیاں بھی دی ہیں۔
ہندوستان کی مسلم تاریخ کے بارے میں بیداری پیدا کرنے کے لیے سید اب ہندوستان کی قرون وسطی اور بطور خاص مسلم تاریخ کے مختلف پہلوؤں پر کم از کم تین کورسز لانچ کرچکے ہیں،۔ ان کا ‘ہندوستانی مسلم تاریخ پر 3 ماہ کا کورس’ اسلام کی آمد اور محمد بن قاسم کی سندھ کی فتح سے شروع ہوتا ہے، اس کے بعد محمود غزنی اور اس کی فتوحات، محمد غور اور دہلی سلطنت کا قیام۔ دہلی سلطنت کے مختلف خاندانوں اور علاؤ الدین خلجی اور محمد بن تغلق کی حکومت کے دوران جنوبی ہندوستان میں اسلام کے پھیلاؤ کو بھی یہ کورس کور کرتا ہے۔ اس کورس میں مغل حکومت کے ساتھ ساتھ کشمیر، بنگال، مالوا، خاندیش، گجرات، جونپور کی شرقی، گلبرگہ/بیدر کی بہمنی سلطنت، احمد نگر، بیجاپور اور گولکنڈہ کے جانشین دکنی سلاطین کے ساتھ ساتھ حیدرآباد کے نظام کا بھی احاطہ کیا گیا ہے۔ حیدر علی اور ٹیپو سلطان کی سلطنت میسور بھی اس کورس کے نصاب میں شامل ہے۔ یہ کورس، جو 24 سیشنز میں کور کیا جاتا ہے پروفیشنل زوم کے ذریعے جاتا ہے۔ اس اہم کورس نے دنیا بھر سے اہل علم اور تاریخ کے محبان کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے۔
سید ایک اور یک ماہی (8 سیشن) کورس بھی چلاتے ہیں جس میں جنوبی ہند کی مسلم تاریخ پر فوکس کیا جاتا ہے۔ جنوبی ہند کے مسلمانوں کی تاریخ کو مورخین اور مسلم کمیونٹی دونوں نے مکمل طور پر نظر انداز کر دیا ہے، اس حقیقت کے باوجود کہ دکن اور جنوبی ہند کے بیشتر حصوں میں بہمنی سلطنت نے تقریباً دو سو سال تک حکومت کی۔ اس کے بعد آنے والی دکنی مسلم ریاستوں نے مزید 200 سال حکومت کی۔ حیدرآباد کی آصف جاہی سلطنت اور حیدر علی اور ٹیپو سلطان کی سلطنت خدادا د نے بھی ایک عرصہ تک علاقہ پر حکومت کی۔ اس کورس نے بھی پوری دنیا سے لوگوں کو متوجہ کیا ہے۔
سید نے ابھی ایک اور کورس متعارف کرایا ہے جو ہندوستان کی تحریک آزادی اور مسلمانوں کے کردار سے متعلق ہے۔ یہ کورس برطانوی استعمار کے خلاف 1857 کی ہندوستان کی پہلی جنگ آزادی میں مسلمانوں کے انتہائی اہم کردار کا احاطہ کرتا ہے۔ مسلمانوں نے اس میں قائدانہ کردار ادا کیا۔ اس میں موپلہ ریولٹ، ریشمی رومال تحریک، 1946 کی بحری بغاوت کا بھی احاطہ کیا جائے گا اور ان ہزاروں مسلمان قیدیوں پر بھی بات کی جائے گی جو انڈمان اور نکوبار کی خوفناک سیلولر جیل میں قید تھے، جنہیں زیادہ تر لوگ کالا پانی کے نام سے یاد کرتے ہیں۔یہ پوچھے جانے پر کہ انہوں نے اس طرح کے کورس کیوں شروع کیے ہیں، 48 سالہ سید کہتے ہیں، "جیسا کہ سب واقف ہیں کہ ملک میں تاریخ دوبارہ لکھی جا رہی ہے، اور قرون وسطیٰ کی تاریخ جو مسلم دور سے متعلق ہے، کو کورس کی کتابوں سے آہستہ آہستہ مٹایا جا رہا ہے۔ ایسی صورت میں اپنی نوجوان نسل کو ان کی تاریخ اور ورثے اور ان کے عظیم ماضی کے بارے میں سکھانا ضروری ہے۔ شکر ہے، لوگوں کے مایوس کن خیالات کے برعکس، کورسز ملک اور ملک سے باہر بھی اہل علم اور محبان تاریخ میں بہت زیادہ مقبول ہوئے۔ میں حیران ہوں کہ دنیا بھر سے معروف اسکالرز، پروفیسرز، فارسی حتیٰ کہ چغتائی زبانوں کے ماہرین بھی ہمارے کورس میں داخلہ لے رہے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ یہ کورسز اور متعلقہ کوششیں طویل مدتی تبدیلی لانے میں مددگار ثابت ہوں گی۔
(رابطے کے لیے فون نمبر: 9818327757 WhatsApp)