اگرچہ بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کو تقریباً تین ماہ گزر چکے ہیں لیکن ایرانی صدر کے معاون برائے سٹریٹجک امور محمد جواد ظریف نے بشار الاسد کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ انھوں نے ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں کہا ہے کہ شامی صدر نے طویل عرصے تک "مزاحمت” کی حمایت کرنا بند کر دیا ہے۔ مزاحمت سے مراد حزب اللہ کی قیادت میں تہران کی حمایت یافتہ بعض مسلح گروپ اور غزہ میں تحریک حماس ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس کی غلطی غلط جہت پر بھروسہ کرنا تھا۔ انہوں نے غلط جہت کی وضاحت نہیں کی
جواد ظریف نے اس بات پر بھی زور دیا کہ مزاحمت کوئی نیا رجحان نہیں ہے بلکہ یہ ایران میں اسلامی انقلاب کی فتح سے پہلے موجود تھا لیکن اسلامی انقلاب کے بعد مزاحمت کو زیادہ قوت ملی ہے۔ انہوں نے بھی کہا کہ جب تک شامی گولان اسرائیلی قبضے میں ہے، شامی عوام اس تکبر کو قبول نہیں کریں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آخر میں شامی عوام اسرائیلی جارحیت کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔
دریں اثنا ایرانی رہنما علی خامنہ ای نے پہلے اس بات کی تصدیق کی تھی کہ ان کے ملک نے بشار الاسد کو مسلح دھڑوں کی طرف سے تیار ہونے والے ایک حملے سے خبردار کیا تھا لیکن انہوں نے ان انتباہات کو نظر انداز کر دیا تھا۔