نئی دہلی : (ڈی ڈبلیو)
تین روز بعد یعنی اتوار کو ہی ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ مقابلے میں پاکستان اور بھارت کے درمیان متحدہ عرب امارات میں میچ ہونا طے ہے، تاہم جیسے جیسے یہ تاریخ قریب آتی جارہی ہے، بھارت میں اس میچ کو بائیکاٹ کرنے کا مطالبہ بھی زور پکڑتا جا رہا ہے۔ ادھر حکومت نے ابھی تک اس پر کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی کے بعض وزیر اور حکمراں جماعت بی جے پی کے رہنماؤں سمیت کئی سیاسی شخصیات کا مطالبہ ہے کہ ایسے وقت جب کشمیر میں بھارتی فوجی اور غیر مقامی افراد کو ہلاک کیا جا رہا ہے، پاکستان کے ساتھ کرکٹ میچ نہیں کھیلنا چاہیے۔ ان کا الزام ہے کہ ان ہلاکتوں کا ذمہ دار پاکستان ہے۔
گزشتہ کئی روز سے بھارتیہ میڈيا میں بھی اس حوالے سے بحث جاری ہے۔ سب سے زیادہ آوازیں ریاست بہار سے اٹھ رہی ہیں جہاں سے تعلق رکھنے والے چار افراد کو کشمیر میں حال میں قتل کر دیا گيا۔ مرکزی وزیر گری راج سنگھ، بہار کے نائب وزیر اعلیٰ ترکشور پرساد اور بی جے پی کے ریاستی ترجمان پریم رنجن پٹیل جیسے رہنما میچ کے بائیکاٹ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
اس مطالبے کی ابتدا تو بہار سے ہوئی تھی تاہم بعد میں جنوبی شہر حیدر آباد سے تعلق رکھنے والے مسلم رہنما اسد الدین اویسی نے بھی اس کی یہ کہہ کر حمایت کی ہے کہ ایسے وقت جب پاکستان بھارتی فوجیوں کو ہلاک کر رہا ہے، انڈین ٹیم پاکستان کے ساتھ میچ کیسے کھیل سکتی ہے۔
ان کا کہنا تھا، ’ہمارے نو فوجی مار دیے گئے ہیں اور 24 تاریخ کو بھارت اور پاکستان کے درمیان ٹی ٹوئنٹی میچ ہو گا۔ مودی جی کیا آپ نے یہ نہیں کہا تھا کہ فوجی مر رہے ہیں اور منموہن سنگھ کی حکومت بریانی کھلا رہی ہے۔ بہار کے عام شہریوں کو ہدف بنا کر ہلاک کیا جا رہا ہے، تو امت شاہ جی آپ کی خفیہ ایجنسیاں کیا کر رہی ہیں؟‘
اب دہلی پر حکمرانی کرنے والی عام آدمی پارٹی سمیت کئی اور دیگر علاقائی جماعتیں پاکستان کے ساتھ میچ نہ کھیلنے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ دلیل کے طور پر سبھی کشمیر میں ہونے والے تشدد کا حوالہ دیتی ہیں، جہاں گزشتہ ایک ہفتے کے دوران دو درجن سے بھی زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
ماہرین کہتے ہیں کہ بھارت اس ٹورنمنٹ کا اصل میزبان ہے اور کووڈ کی وجہ سے اسے متحدہ عرب امارات منتقل کیا گيا ہے۔ اسپورٹس صحافی دیپانشو مدان کے مطابق ایک ميزبان ٹیم کے طور پر بھارت ایسا نہیں کر سکتا اور، ’اگر کیا تو نہ صرف اسے پاکستان کی شکست تسلیم کرنی ہو گی بلکہ مستقبل میں وہ کسی بھی انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کے ٹورنامنٹ کی ميزبانی سے بھی محروم ہو سکتا ہے۔‘
بھارت اور پاکستان کے درمیان سن 2012 سے ہی دو طرفہ کرکٹ نہیں ہو رہی ہے اور دونوں ٹیمیں تب سے صرف کسی بین الاقوامی مقابلے میں روبرو ہوتی ہیں۔ دہلی کے صحافی آدیش گپت کہتے ہیں کہ دونوں ملکوں کے لوگ آپس میں بہت پیار کرتے ہیں اور دونوں میں کرکٹ کو بہت پسند کرتے ہیں تاہم، ’اس پر سیاست بڑے افسوس کی بات ہے۔‘
ڈبی ڈبلیو اردو سے خاص بات چیت میں انہوں نے کہا کہ بھارتی شائقین کا ایک بڑا طبقہ دونوں ممالک کے مابین میچوں کو اس قدر پسند کرتا ہے کہ گھنٹوں میں ٹکٹیں فروخت ہو جاتی ہیں اور دیکھا یہ گيا ہے کہ ’کھیل سے تو کشیدگی میں کمی آتی ہے اور حالات بہتر ہوتے ہیں۔ کھیل کو سیاست کے چشمے سے ہر گز نہیں دیکھنا چاہیے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس حوالے سے بھارتی میڈیا کا رویہ قابل افسوس ہے۔ انہوں نے کہا، ’دباؤ کی وجہ سے بھارت نے ہاکی لیگ اور آئی پی ایل میں پاکستانی کھلاڑیوں کو بلانا بند کر دیا اور کرکٹ تو کئی برسوں سے بند ہے، تو کیا اس سے دونوں ملکوں کے رشتے بہتر ہو گئے ہیں، کیا کشمیر میں تشدد بند ہو گیا ہے؟ کیا بھارت اولمپک اور دیگر عالمی فورم پر بھی ایسا کرنے کی جرأت کر سکتا ہے؟ اگر یہی بات ہے تو پھر آپ چین سے بھی کھیلنا بند کر دیں۔‘
اسپورٹس صحافی دیپانشو مدان اور آدیش گپت دونوں ہی اس بات پر متفق ہیں کہ چاہے جس جانب سے بھی بائیکاٹ کی ڈيمانڈ ہو بھارت یہ میچ کھیلنے سے منع نہیں کر سکتا کیونکہ ہر طرح سے اسی کا نقصان ہے۔
دیپانشو کے مطابق بھارتی کرکٹ بورڈ کے پاس کسی بھی میچ سے اتنا پیسہ کمانے کا موقع نہیں ہے جتنا کہ اتوار کو ہونے والے اس میچ سے ہے۔ ’یہ شائقین کے دباؤ کے ساتھ ہی آمدن اور معیشت کا بھی سوال ہے۔ اس سے عالمی سطح پر بھارت کی ساکھ بھی بری طرح متاثر ہو گی۔‘
اب بھی ایک سوال یہ ہے کہ اگر یہ ورلڈ کپ متحدہ عرب امارات کے بجائے بھارت میں ہی ہوتا تو پھر کیا ہوتا اور کیا پاکستانی ٹیم کو بھارت آنے کی اجازت دی جاتی اور اگر دی جاتی تو اتنی مخالفت میں پاکستانی ٹیم کی سکیورٹی کا کیا ہوتا؟ اس سے پہلے ایک بار ایسے ہی ماحول شیو سینا نے بھارت اور پاکستان کے میچ سے عین قبل پچ کو کھود دیا تھا۔