ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی
خاتون (روتے ہوئے) : مولانا صاحب! میں بتا نہیں سکتی، مجھے کتنا دکھ ہے؟ میرے حقوق پامال ہوئے ہیں ، میری توہین ہوئی ہے ، میں کن الفاظ میں اپنا کیس آپ کے سامنے رکھوں؟!
مولانا : آپ جذباتی نہ ہوئیے ، صاف صاف بتائیے ، آپ کا مسئلہ کیا ہے؟
خاتون : میں نے 6 ماہ قبل اپنے بیٹے کا نکاح ایک لڑکی سے کیا تھا _ میں نے حتی الامکان تحقیق کی تھی ، لیکن دھوکہ کھا گئی _ لڑکی کی پھوپھی اور دادی نیک عورتیں ہیں _ میں نے سوچا ، لڑکی بھی نیک ہوگی ، لیکن نہ لڑکی نیک نکلی نہ اس کے ماں باپ _۔
مولانا : لڑکی کے ماں باپ کیسے ہیں؟ اس سے آپ کو کوئی خاص غرض نہیں ہونی چاہیے ۔ لڑکی میں کیا برائی آپ کو نظر آئی؟ یہ بتائیے ۔
_خاتون : وہ ہر وقت موبائل چلاتی رہتی ہے ، پتہ نہیں اس میں کیا کیا دیکھتی ہے؟
مولانا : موبائل میں ضرورت سے زیادہ انہماک اچھی چیز نہیں ، لیکن یہ خصلت اتنی بری تو نہیں کہ آپ کی بہو آپ کی نگاہوں سے گر جائے ۔
خاتون : وہ کالج کی پڑھی ہوئی ہے ، کالج کے لڑکوں سے اس کی اب بھی دوستی برقرار ہے، _ وہ ان سے بات کرتی رہتی ہے ۔
_
مولانا : کالج کی تعلیم یافتہ لڑکی اگر اپنے کسی کلاس فیلو لڑکے سے موبائل پر کبھی بات کرلے تو اس میں برائی کیا ہے؟
خاتون : وہ اپنے موبائل میں پاس ورڈ ڈالے ہوئے ہے، _ شوہر کو بھی اپنا موبائل دیکھنے نہیں دیتی، _ اگر اس کے دل میں چور نہیں ہے تو وہ چھپاتی کیوں ہے؟
مولانا : آپ کو حسنِ ظن سے کام لینا چاہیے _ اگر وہ لڑکی موبائل میں پاس ورڈ نہ لگائے ، جس سے بات کرنا چاہے کرلے ، اس کے بعد اس کا نمبر اڑا دے تو کوئی کیسے اسے پکڑ سکے گا؟
خاتون : اس کے شوہر نے ایک مرتبہ اس کے موبائل کو اپنے موبائل سے کنکٹ کرلیا ، پھر اسے چیک کیا تو اس کی بعض حرکتیں مشتبہ لگیں ۔
مولانا : شریعت میں کسی کی اس حد جاسوسی پسندیدہ نہیں ہے ، خواہ شوہر ہی اپنی بیوی کی جاسوسی کیوں نہ کر رہا ہو۔ میاں بیوی کا رشتہ ویسے بھی اعتماد پر قائم ہوتا ہے۔ _ جاسوسی کرنے سے اعتماد کو ٹھیس پہنچے گی اور رشتے میں تلخی پیدا ہوگی ۔
خاتون : اس لڑکی میں شرم و حیا نام کو نہیں، گھر میں سر پر دوپٹہ نہیں رکھتی ، اپنے سسر کے سامنے گھونگھٹ نہیں کرتی۔
مولانا : سماجی قدریں تیزی سے بدل رہی ہیں ، پرانی نسل کی خواتین مشرقی روایات کی جس حد تک پاس داری کرتی تھیں ، نئی نسل کی لڑکیوں سے اس کی امید نہیں کرنی چاہیے ، اگر کوئی عمل غیر اسلامی نہ ہو تو اسے گوارا کرنا چاہیے اور پرانی قدروں پر عمل کرنے کا سختی سے مطالبہ نہیں کرنا چاہیے۔
خاتون : وہ لڑکی میری نظروں سے گر گئی میں نے اپنے بیٹے سے کہا کہ اسے طلاق دے دو ، لیکن اس نے انکار کردیا _ اس نے کہا کہ میں اسے سدھارنے کی کوشش کروں گا۔
مولانا : آپ کا اتنی معمولی شکایات پر بیٹے سے مطالبہ کرنا کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دے دے ، درست نہ تھا، آپ کے بیٹے نے دانش مندی کا ثبوت دیا کہ آپ کی بات نہیں مانی _ ذرا سوچئے ، آپ طلاق دلواکر دوسری بہو لائیں گی تو کیا گارنٹی ہے کہ وہ آپ کے معیار پر پوری اترے گی؟!
خاتون : میں نے بہو کے ماں باپ کے گھر جاکر اس کی تمام شکایات ان تک پہنچادیں ، لیکن وہ لوگ کچھ سننے کو تیار ہی نہ تھے۔
مولانا : آپ نے اچھا نہیں کیا کہ لڑکی کے ماں باپ تک اس کی شکایات پہنچائیں اس سے تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوتی ہے ، وہ لڑکی اب آپ کی بہو ہے _ آپ کو اس کی شکایات اِدھر اُدھر کرنے کے بجائے اس کی اخلاقی و دینی تربیت کی فکر کرنی چاہیے _۔
خاتون : میرا بیٹا اسی شہر میں ملازمت کرتا ہے جس میں بہو کا میکہ ہے، بہو روزانہ اپنے میکے چلی جاتی ہے _ میں اسے پسند نہیں کرتی ۔
_
مولانا : آپ کا بیٹا صبح آفس چلا جاتا ہے ، وہاں سے 8 گھنٹے کے بعد آتا ہے _ اس عرصے میں لڑکی اکیلے گھر میں رہتی ہے _ اگر وہ کچھ وقت اپنے ماں باپ کے پاس چلی جائے تو اس میں حرج کیا ہے؟!
خاتون : لڑکا روزانہ شام کو آفس سے واپسی پر اپنی بیوی کو لینے سسرال چلا جاتا ہے _ یہ مجھے پسند نہیں ۔
_مولانا : اگر لڑکے کو روزانہ اپنی سسرال جانے میں برا نہیں لگتا اور ایسا کرنے میں وہ اپنی سبکی محسوس نہیں کرتا تو آپ کو کیا پریشانی ہے؟
خاتون : میرے بیٹے کو اس کی بیوی اور سسرال والے مجھ سے بدگمان کررہے ہیں ، مجھ سے دور کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔
مولانا : یہ آپ کا سراسر وہم ہے کم از کم اپنے بیٹے سے تو اتنی بدگمانی نہ رکھیے کہ وہ اپنی سسرال والوں کے بہکاوے میں آکر اپنی ماں سے بدگمان ہوجائے گا۔
_خاتون : میرا بیٹا بہت بھولا ہے ، جب کہ یہ لڑکی بہت تیز اور ہوشیار ہے۔
مولانا : ہر ماں کی نظر میں اس کا بیٹا بہت بھولا ہوتا ہے ، چاہے جتنا بڑا ہوجائے اور ہر ساس کو بہو تیز طرّار لگتی ہے ۔
خاتون : اس لڑکی کو کھانا پکانا نہیں آتا _ میں نے کہا تھا ، کوئی بات نہیں ، میں اسے اپنے پاس رکھ کر پکانا سکھا دوں گی ، لیکن وہ میرے پاس رہنے پر تیار ہی نہیں ہے _ چنانچہ کبھی دونوں لڑکی کے میکے میں کھالیتے ہیں ، کبھی ہوٹل سے کھانا منگالیتے ہیں۔
مولانا : آپ نے بہو کو پیار نہیں دیا، بلکہ شکایات کا پٹارہ کھول دیا تو وہ آپ کے پاس رہنے پر کیوں آمادہ ہوگی؟ پھر اگر آپ کے بیٹے کو ہوٹل کا کھانا کھانے پر کوئی شکایت نہیں ہے تو آپ بلاوجہ دبلی ہورہی ہیں ۔
خاتون : پہلے میرا بیٹا اپنی بیوی کی شکایتیں مجھ سے کرتا تھا ، لیکن اب وہ اس کے چنگل میں پھنس گیا ہے ، اب وہ اپنی سسرال والوں سے ڈر گیا ہے ، اس لیے اب مجھ کو کچھ بتاتا نہیں ہے۔
مولانا : یہ آپ کی خام خیالی ہے کہ آپ کا بیٹا ڈر گیا ہے وہ بہت سمجھ دار ہے _ جب اس نے محسوس کیا کہ بیوی کی شکایتیں ماں سے کرنے سے دونوں کے درمیان تلخیاں پیدا ہورہی ہیں تو وہ رک گیا _ اس نے بہت سمجھ داری کا کام کیا۔
خاتون : مجھے اپنے شوہر سے بہت شکایات ہیں انھوں نے کبھی میرا ساتھ نہیں دیا _ میں نے بہو کو طلاق دلانے کی بات کی تو انھوں نے مخالفت کی ، بہو کی شکایات اس کے ماں باپ تک پہنچانے کی بات کی تو اس پر بھی آمادہ نہیں تھے ، میرے بہت اصرار کرنے پر میرے ساتھ گئے _ اب بھی بیٹے بہو کی حمایت میں اور میرے خلاف رہتے ہیں ،کہتے ہیں کہ دھیرے دھیرے وہ سدھر جائیں _۔
مولانا : آپ کے شوہر صحیح سوچتے ہیں ، اصلاح سے مایوس نہیں ہونا چاہیے ، اچھی امید رکھنی چاہیے۔
خاتون : میری بہو صبح دیر تک سوتی ہے ، جو مجھے بالکل پسند نہیں ۔
مولانا : آپ یہ کیوں نہیں سوچ لیتیں کہ ممکن ہے ، وہ رات میں دیر تک جاگتی ہو ، پھر یہ ایسی عادت نہیں کہ اس کی اصلاح نہ ہوسکے ۔
خاتون : میری بہو نمازوں کی پابند نہیں ، کبھی 3 وقت کی نماز پڑھتی ہے ، کبھی 4 وقت کی میرا بیٹا بھی نمازوں کا پابند نہیں۔
مولانا : بیٹا نماز کا پابند نہیں تو آپ کو بُرا نہیں لگتا ، پھر بہو کا نماز کی پابندی نہ کرنا کیوں بُرا لگتا ہے، آپ کو تو دونوں کی اصلاح کی کوشش کرنی چاہیے۔
خاتون : مولانا صاحب ، میں بہت زیادہ پریشان ہوں، بہو مجھے اپنی پسند کی نہیں ملی۔
مولانا : بہو کو علیحدہ کرنے کا خیال دماغ سے نکال دیجیے، اس کی دینی و اخلاقی تربیت کی فکر کیجیے، _ آپ تھوڑی کوشش کرکے اسے اپنی پسند کا بنا سکتی ہیں۔
_خاتون : مجھے کیا کرنا ہوگا؟
مولانا : بہو کو اپنے اعتماد میں لیجیے ، اسے پیار دیجیے ، اس پر واضح کیجیے کہ آپ کی تمام شکایات دور ہوگئی ہیں ، مختلف مواقع پر اس کی تعریفیں کیجیے ، اس کے سامنے اس کے ماں باپ کی بُرائی نہ کیجیے ، وقتاً فوقتاً فون کرکے اس کی خیریت معلوم کیجیے ، اس سے کہیے کہ تمھیں دیکھے ہوئے بہت دن ہوگئے ہیں ، دو ایک روز کے لیے آجاؤ ، جب آپ اس کا دل جیت لیں گی تو وہ آپ کا کہنا مانے گی اور آپ کے اشاروں پر چلے گی۔
_خاتون : جب میں اسے پسند نہیں کرتی ہوں تو پھر یہ سب باتیں کیسے کہوں گی؟
مولانا : اگر آپ تعلقات میں خوش گواری چاہتی ہیں تو آپ کو یہ سب کہنا ہوگا ، خواہ اوپری دل سے _۔
خاتون : کوشش کرتی ہوں _۔