تحریر: شعیب رضا فاطمی
آج سے پھر ہم اکیسویں صدی کے ایک اور نئے سال کا ورد کرنا شروع کرینگے حتی کہ اس کے بارہ مہینے بھی گذر جائیں ۔روز و شب کا یہ چکر اور اس کی تبدیلی تو نظام قدرت ہے ،نہ تو ہمارا اس میں کوئی عمل دخل ہے اور نہ ہی ہماری مرضی ایسے میں یہ واویلا اور ہاؤ ہو چہ معنی دارد جو ہر برس ساری دنیا میں برپا کیا جاتا ہے ؟ بہر حال یہ سوال اپنے آپ میں ہی لا ینحل ہے کیونکہ ایسے بہت سارے کام انسانوں کی یہ آبادی ویسے ہی کرتی ہے تاکہ وہ اپنے زندہ ہونے کا ثبوت پیش کر سکے اور ترقی یافتہ اور تعلیم یافتہ ہونے کا بھی ۔لیکن پھر وہی سوال پیدا ہوتا ہے کہ تعلیم یافتہ اور ترقی یافتہ ہونے کی نمائش بھی اگر یوروپ اور امریکہ کے لوگ کریں تو بات سمجھ میں آتی بھی ہے ،لیکن جب ایشیا اور افریقہ کے لوگ بھی یوروپ اور امریکہ کے ساتھ کسی ایسے جشن میں شامل ہوں جس کا نہ تو ان کے سماجی روایت سے کوئی لینا دینا ہو ،نہ ہی مذہبی اور تہذیبی یکسانیت کا دور دور تک پتہ ہو ۔ٹھیک اسی طرح جیسے 25دسمبر کا ہمارے ملک میں اسی طرح منایا جانا جیسے حضرت عیسی مسیح یرو شلم میں نہیں بلکہ بھارت کے کسی حصہ میں پیدا ہوئے ہوں اور ملک میں غالب اکثریت عیسائیوں کی ہی ہو ۔جبکہ ایک نجی سروے کے مطابق ملک کے ستر فیصد لوگوں کو یہ بھی نہیں معلوم کہ 25دسمبر کیوں منایا جاتا ہے ۔
حیرت تو اس پر بھی ہے کہ آج بھی ملک کی بڑی آبادی ملک میں انگریزی حکومت کو غلامی کا دور کہتی ہے ۔لیکن دور غلامی کے آثار کو نہ صرف کلیجہ سے لگائے بیٹھی ہےبلکہ اسے اپنی ثقافت کا حصہ سمجھتی ہے ۔نئے سال کے جشن کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے جسے اس شدت سے اس ملک میں منایا جاتا ہے جیسے وہ ملک کی اکثریتی آبادی کا نیا سال ہو ۔پتہ نہیں اس غلامانہ تقلید کی اصل وجہ کیا ہے،لیکن یہ بات تو سمجھ میں آتی ہی ہے کہ بظاہر روشن نظر آنے والی تہذیب سے مرعوب ہونا انسانی فطرت کا خاصہ ہے اور اس کی ایک بڑی وجہ اس روشن نظر آنے والی تہذیب کا پروپیگنڈہ بھی ہے جس کا ڈانڈہ صارفیت سے بھی جا ملتا ہے ۔بات صرف بیجا اصراف تک بھی ہو تو اسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے ،لیکن یہاں تو معاشرے کی نسل در نسل کا اپنی جڑوں سے کٹ جانے تک بات پہنچ چکی ہے ۔حالانکہ اس ملک میں ایک گروہ ایسے لوگوں کا بھی موجود ہے جن کے سامنے غلامی کی ایک الگ تعریف ہے جس میں انگریزوں کی غلامی کے ڈیڑھ سو سالہ دور کو حذف کر کے صرف مغلوں کی غلامی کو دور غلامی قرا دیا جاتا ہے اور اس دور کے تمام آثار کو صفحہ دہر سے مٹا دینے کی ایک باضابطہ مہم چلائی جارہی ہے اور اس میں نہایت شاطرانہ انداز میں مذہبی زاویہ کو بھی جوڑ دیا گیا ہے ۔اور اس مہم کو تہذیبی بیداری قرار دیا جا رہا ہے ۔کاش !اس مہم کے سخیلوں سے کوئی یہ پوچھے کہ مغلوں نے بھارت میں آ کر ہندو تہذیب کے کن پہلوؤں پر اپنے تہذیبی رنگ کو نمایاں کیا ؟کیونکہ تاریخ تو یہ بتاتی ہے کہ بابر (1526)سے بہادر شاہ (1857)تک جو سلسلہ بادشاہت جاری تھا اس میں ہندوؤں کے قبیح ترین رسم جس میں شوہر کی موت کے بعد اس کی بیوہ کو بھی زندہ آگ میں جلنا پڑتا تھا ،اس رسم کو بھی مغل حکمرانوں نے اسی طرح جاری رہنے دیا کیونکہ اس سے اکثریتی ہندو عوام کی دلازاری نہ ہو ۔ایسے حکمرانوں کو جو جب ہندوستان آئے تو پھر ساڑھے تین سو سال تک اپنے آبائی وطن کو گھوم کر دیکھا تک نہیں اور مسلسل اس ملک کو ہی سجاتے سنوارتے ہوئے اسے دنیا کا سب سے متمول اور خوبصورت ملک بنا دیا ۔حتی کہ دنیا اسے سونے کی چڑیا قرار دینے لگی اور یہ شہرت اتنی ہوئی کہ بالآخر انگریزوں کی توجہ اس جانب مبذول ہوئی اور پھر کسی باز کی طرح انہوں نے اس سونے کی چڑیا کے ایک ایک پر کو نوچ کر انگلینڈ کے خزانے میں منتقل کر دیا ۔لیکن ان تمام حقائق کی حقیقی تاریخ سے واقفیت کے باوجود بھارت میں آج انگریزوں سے محبت کا رحجان ہے اور ان کی تقلید کرتے ہوئے نہ صرف ان کے خلاف کسی مہم کا کوئی نام و نشان ہے اور نہ ہی ان کے ذریعہ جاری کرسمس ڈے اور نئے سال سے مغائرت کا کوئی رحجان ۔بلکہ نفرت ہے تو صرف بھارت میں بسے مسلمانوں سے جنہیں مغلوں کا وارث قرار دیا جاتا ہے ۔
ملک میں بوالعجبی کی یہ ایک طویل داستان ہے جسے نہ آج کوئی سننے والا ہے نہ سنانے والا لیکن داستان تو موجود ہے ۔یہ الگ بات ہے کہ ہم نہایت تزک و احتشام کے ساتھ نئے سال اور کرسمس ڈے کے جشن کو عقیدت و احترام کے ساتھ منائے جارہے ہیں ۔
کیلینڈر تو بدل جائے گا جب یہ سال بدلے گا
مگر کیا ایسی تبدیلی سے اپنا حال بدلےگا
وہی ہم ہونگے اور اپنے مسائل بھی وہی ہوں گے
شکاری خوش ہوا تو صرف اپنا جال بدلے گا