تحریر:مفتی محمداطہرشمسی
گذشتہ کچھ عرصہ سے ہندوستانی مسلمانوں میں تازہ ملکی صورت حال کے حوالہ سےمایوسی کا رجحان مسلسل بڑھ رہا ہے۔ ایک نہایت با اثر صاحب علم تاجر کے بارے میں مجھے معلوم ہوا کہ وہ ملک سے باہر منتقل ہونے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔اگر یہ صاحب ملک سے باہر منتقل ہوئے تو میرا خیال ہے کہ ان کے اس ذاتی فیصلہ کے نتیجہ میں ہزاروں لوگ متاثر ہوں گے۔ آئی آئی ٹی کے فارغ ایک مسلم نوجوان نے مجھے بتایا کہ وہ اپنی زندگی کو اس طرح پلان کر رہے ہیں کہ ان کے بچے ملک سے باہر تعلیم پائیں اور بیرون ملک منتقل ہو جائیں۔
مسلمانوں کے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اصحاب ثروت طبقہ میں بڑھتا ہوا یہ رجحان مسلمانوں کے درمیان برپا اس مایوسی کی ایک علامت ہے۔سوال یہ ہے کہ مسلمانوں میں یہ مایوسی کیوں بڑھ رہی ہے؟ کیا اس مایوسی کی وجہ یہ ہے کہ ملک میں ایک خاص نظریہ کی حامل جماعت برسر اقتدار ہے؟ ملک کا اقتدار کسی دوسری جماعت کے ہاتھ میں آ جائے تو کیا ملک میں مسلمانوں کے لیے حالات زیادہ موافق ہو جائیں گے؟ کیا مایوسی محض تبدیلی اقتدار سے ختم ہوجائے گی؟قوموں میں در آنے والی مایوسی محض ایک خاص قسم کی حکومت کا نتیجہ نہیں ہوتی۔قوموں میں پیدا ہونے والی مایوسی دراصل ان کے اندر سے ختم ہونے والی خود اعتمادی کا نتیجہ ہوتی ہے۔قومیں جب خود اعتمادی سے محروم ہو جائیں تو ان کے اندر مایوسی پھیلنے لگتی ہے۔
مریض کو اگر اپنی قوت مدافعت پر بھروسہ ہو تو وہ پرامید رہتا ہے۔مریض جس لمحہ اپنی قوت مدافعت پر بھروسہ کھو بیٹھے، وہ مایوسی کے گہرے گڑھے میں جا گرتا ہے۔اس وقت مسلم قوم ایک ایسے ہی مریض کی مانند ہو چکی ہے۔اس وقت مسلمانوں کا اصل مسئلہ ان کی معاشی اور تعلیمی پسماندگی نہیں ہے۔مسلمانوں کا اصل مسئلہ اس وقت یہ ہے کہ وہ اپنی قومی خود اعتمادی کھو بیٹھے ہیں ۔
سوال یہ ہے کہ قومیں اپنی خود اعتمادی سے کیوں محروم ہو جاتی ہیں۔قومیں جب فطرت کے ان قوانین کی گہری سمجھ سے محروم ہو جائیں جو انھیں خوش حالی، ترقی اور ایک باعزت زندگی کی طرف لے کر جاتےہیں تو ان میں مایوسی اپنے پیر جمانے لگتی ہے۔قوموں میں جب تک ان قوانین فطرت کا شعور رہے، وہ ترقی اور خوش حالی کے ان قوانین پر پورا بھروسہ رکھتی ہیں اور ان قوانین کے مطابق اپنی قومی زندگی کی منصوبہ بندی کرتی ہیں۔قوموں کو خوش حالی اور ترقی کی جانب لے جانے والے قوانین ابدی اور غیر متغیر ہوتے ہیں۔ان ابدی اور غیر متغیر قوانین فطرت پر بھروسہ قوموں میں خود اعتمادی بھر دیتا ہے۔
پھر ان قوانین سے برآمد ہونے والے نتائج ان قوموں کی توانائی میں مزید اضافہ کا باعث ہوتے ہیں۔تاہم بعض اسباب کی بناپرمسلمانوں کے ساتھ یہ حادثہ پیش آیا ہے کہ وہ ان قوانین فطرت کا شعور کھو بیٹھے ہیں۔اگر آپ رات کے اندھیرے میں کسی نامعلوم منزل کے سفر پر نکلیں، راستہ میں کوئی روشنی ہواور نہ سیکیورٹی کی گارنٹی، تو ظاہر ہے کہ اس سفر کے نتیجہ میں آپ خود اعتمادی کھو بیٹھیں گے اور مایوسی کا شکار ہو جائیں گے۔ لیکن عین اسی سفر کے دوران اگر آپ کو راستہ معلوم ہو جائے اور ساتھ ہی روشنی کا انتظام بھی ہو جائے تو بہت جلد آپ کی خود اعتمادی لوٹ آئے گی اور آپ کی مایوسی ختم ہو جائے گی۔مسلمانوں کو اس وقت سب سے زیادہ ضرورت جس چیز کی ہے، اسے مذکورہ مثال کے ذریعہ سے بہتر طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔اس وقت مسلمانوں کو بحیثیت قوم اس تربیت کی ضرورت ہے کہ قوموں کو خوش حالی اور ترقی عطا کرنے والے قوانین فطرت کیا ہوتے ہیں۔
نیز ان قوانین فطرت کی پابندی کرکے ہم خود کو ملک اور دنیا کی ایک بہتر اور با عزت قوم کیسے بنا سکتے ہیں۔ہمیں قدرت کے ان اصولوں کو سمجھنے کی ضورت ہے جو کسی بھی انسانی گروہ کو بساط عالم پر ایک قائدانہ حیثیت عطا کرتے ہیں۔ کسی بھی قوم کے قائدین کا امتحان اس بات سے نہیں ہوتا کہ اُنھوں نے اپنی قوم کے لیے کس قدر احتجاج کیے۔ یا ان کے کس قدر افراد کو جیلوں سے رہا کرایا۔قوموں کے قائدین کا امتحان اس بات سے ہوتا ہے کہ کیا وہ اپنی قوم کے افراد کو ان کی قومی خود اعتمادی واپس کر سکے ہیں۔
اگر آپ قوم میں خود اعتمادی کی توانائی نہ ڈال سکیں تو آپ ایک رفاہی خدمت انجام دینے والے عظیم الشان کارکن تو ہو سکتے ہیں، لیکن آپ قوم کے قائد نہیں ہو سکتے۔کسی بھی قوم کے قائد کا سب سے پہلا فرض یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی قوم میں خود اعتمادی کی توانائی پیداکرے۔اگر کسی کمپنی کا سی ای او کمپنی کے ملازمین میں کمپنی کو عروج کی جانب لے جانے والا جذبہ اور محرک بیدار نہ کرسکے اور اس کی مدت کار کے دوران کمپنی میں ہر چہار جانب مایوسی اور نا امیدی کا ماحول عام ہو جائے تو کمپنی کا یہ سربراہ اپنی کمپنی سے متعلق افراد کی کتنی بھی مخلصانہ خدمت کرتا ہو، لیکن وہ ایک طویل مدت تک سی ای او کے عہدے پر برقرار نہیں رہ سکتا۔ایک بااصول کمپنی ایسے شخص کو کمپنی سے متعلق افراد کا ایک مخلص خادم تو تصور کرے گی،لیکن سی ای او کے عہدے سے اسے بہت جلد محروم کر دیا جائے گا۔کمپنی یا قوم کے قائد کا سب سے پہلا فرض اپنی قوم میں حوصلہ اور خود اعتمادی کی توانائی بھر دینا ہوتا ہے۔اس سلسلہ میں سب سے بڑی خوش قسمتی یہ ہے کہ قوموں کی خوش حالی، ترقی اور کامیابی کے یہ قوانین قرآن میں بیان کر دیے گئے ہیں۔
ہمارے پاس وہ کتاب مکمل طور پر محفوظ صورت میں موجود ہے جس میں یہ تمام قوانین کھول کھول کر بیان کر دیے گیے ہیں۔قرآن بنیادی طور پر اقوام اور افراد کی دنیوی اور اخروی کامیابی و خوش حالی کے قوانین بیان کرنے والی کتاب ہے۔اسے معروف معنوں میں محض ایک مذہبی کتاب سمجھ لینے کا ایک نقصان یہ ہوا کہ ہم ان قوانین فطرت کے شعور سے محروم ہو گئے جو ہمیشہ قوموں کو زمانہ سے آگے رکھتے ہیں۔آج ضرورت اس بات کی ہے کہ اللہ کی اس کتاب کو مستقبل کے ایک وثیقہ کے طور پر پھر سے کھولا جائے۔اس کتاب میں وہ قوانین فطرت تلاش کیے جائیں جو قوموں کو دنیا کے اندر صرف لینے والے گروہ کے بجاے ایک دینے والا گروہ(giver community) بناسکیں۔قرآن قوموں کے عروج و زوال سے متعلق اصول کس طرح بیان کرتا ہے، اس کو ایک مثال سے سمجھا جا سکتا ہے۔قرآن میں قوموں کے حوالہ سے ارشاد ہے ” تاکہ جس کو ہلاک ہونا ہو واضح دلیل کی بنیاد پر ہلاک ہو اور جسے زندہ رہنا ہو روشن دلیل کی بنیاد پر زندہ رہے” (سورۃ انفال 9 آیت 42) ۔
اس آیت سے واضح ہوا کہ خدا کی بنائی ہوئی اس دنیا میں قوموں کی زندگی اور موت محض کوئی حادثہ یا اچانک پیش آ جانے والا واقعہ نہیں ہوتی بلکہ قوموں کی زندگی اور موت ایک روشن دلیل کی بنیاد پر ہوتی ہے ۔یہاں قوموں کا عروج و زوال کوئی اندھا واقعہ نہیں ہوتا۔یہ خدا کے قائم کیے ہوئے اصولوں کے مطابق ہوتا ہے۔یہاں جو قوم اپنے جوہر سے اپنی زندگی کا ثبوت دے ، وہ زندہ رہے گی اور جس قوم کے بارے میں ثابت ہو جائے کہ وہ زندگی بخش اہلیت سے محروم ہو چکی ہے،اسے وقت کے تھپیڑے ملیامیٹ کر دیتے ہیں۔آج ملک میں مسلمانوں کو درپیش حالات کا تجزیہ اسی قرآنی اصول کی روشنی میں کرنے کی ضرورت ہے۔مایوسی سے نکلنے کا اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں۔(مضمون نگار القرآن اکیڈمی،کیرانہ کے ڈائریکٹر ہیں)