تحریر: ایم کے وینو
ہندوستانی نیوز میڈیا وبائی امراض کے بعد ایک وجودی بحران سے گزر رہا ہے۔ اشتہار کے اخراجات کے پیٹرن میں ایک مثالی تبدیلی آئی ہے کیونکہ پرنٹ اور ٹی وی نیوز میں نمایاں ناموں کی آمدنی میں 35-40 فیصد گراوٹ آئی ہے۔ ایسا ہونا نیوز میڈیا کو کسی بڑے کاروبار کےذریعہ حصول کے لیے اور زیادہ حساس بنا رہاہے ۔ یہاں تک کہ اڈانی گروپ کے میڈیا میں انٹری کرنے کی خبریں بھی آر ہی ہیں ۔ ایسا بہت ممکن ہے کہ اڈانی ایسی کمپنی کاحصول کریں جو اپنا وجود بچانے کےلیے جد وجہد کررہی ہو۔
مکیش امبانی گروپ ، برلا اور دیگر کارپوریٹس پہلے ہی نیوز میڈیا میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں اور زیادہ تر بحران کے وقت ہوئی فروخت کے سبب جزوی یا مکمل ملکیت حاصل کرچکے ہیں ۔ کئی چھوٹے اخباروں اور ٹی وی چینلوں کو بڑےکارپوریٹس کے ذریعہ باضابطہ طور سےسبسڈی ،کبھی – کبھی غیر رسمی طور پر برج لون کےکے ذریعے بھی دی جاتی ہے۔
پرنٹ اور ٹی وی میں اشتہارات کی صورتحال میں بہتری آرہی ہے لیکن اشتہار شرح اب بھی تقریباً 40 فیصد کم ہے کیونکہ ڈیجیٹل اشتہار بہت سستا ہے ۔ دینتسوکی ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں 2020 میں 13 فیصد کی گراوٹ کے بعد 2021 میں بھارت میں اشتہار خرچ کل 10 فیصد بڑھ کر نو بلین ڈالر ہوسکتا ہے ۔ یہ گراوٹ اور ریکوری بھارت کی مجموعی گھریلو مصنوعات ( جی ڈی پی ) کےراستے پر ہی چلتی نظر آتی ہے ۔ اشتہار کا خرچ وبائی بحران کے پہلے کے سطح تک پہنچ سکتا ہے ،لیکن نیوزمیڈیا کا بحران کم نہیں ہوگا۔ جہاں دہائیوں میں سب سے زیادہ نوکریوں کانقصان ہوگا۔
اشتہارات کا بیشتر حصہ تفریحی شعبے کو جاتا ہے اور نیوز میڈیا کو ہمیشہ اس کا 8 فیصد سے بھی کم حصہ ملتا ہے۔ اس سے پرنٹ اور ٹی وی میں صرف نیوز پر منحصر پروجیکٹ کمزور پوزیشن میں آجاتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ کئی بڑے روایتی نیوزمیڈیا ہاؤسز اپنے کار وبار کا کچھ حصہ بیچنے کے لیے تیار ہے ، اس سے پہلے بھی اتنے سارے نیوز میڈیا تنظیم فروخت کے لیے تیار نہیں ہوئے تھے ۔
رائٹرز کے ایک سروے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ زیادہ تر نوجوان قارئین اسمارٹ فونز پر پائی جانے والی ڈیجیٹل خبروں پر شفٹ ہو گئے ہیں۔ اس سے بھی بدتر ، ڈیجیٹل حلقے کے اشتہار میں ہوا بڑا بدلاؤ یہ ہے کہ اس پر بڑے پیمانے پر گوگل ، فیس بک اور یوٹیوب جیسی بڑی ٹیک کمپنیوں کےذریعہ قبضہ کرلیا گیا ہے ۔ جس سے روایتی میڈیا کو نقصان ہی پہنچا ہے ۔
ٹی آر پی اسکینڈل کی وجہ سے پیدا ہوئے عدم اعتماد کے بحران اور اس کے بعد ہوئے سرکاری بی اے آر سی ٹی وی ریٹنگ کی معطلی نے اشتہاریوں کو ٹی وی سے ڈیجیٹل کی طرف دھکیل دیا۔ مشتہرین کا کہنا ہے کہ وہ قارئین؍ناظرین کی تعداد کی شفافیت نظام پر بھروسہ کرتے ہیں جو انہیں ڈیجیٹل پلیٹ فارم پر ملتا ہے۔
وبا سے پہلے ہی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا شدید مشکلات کے شکار تھے۔ میڈیا گروپوں نے 2003-2008 میں اچھال کے دوران اندھا دھند توسیع کی تھی اور عالمی مالیاتی بحران کے بعد حقیقت سے آگاہ ہوئے۔ وہ واقعی کبھی اس پر قابو نہیں پا سکے۔ وبائی مرض صرف ایک آخری چیلنج ثابت ہوا۔
(بشکریہ : دی وائر)