تحریر : مسعود جاوید
کسی بھی زبان میں زبان دان کے لئے اس زبان کے ادیب اور شاعر ہونا صحافی اور نقاد ہونا لازمی نہیں ہوتا۔ زبان ایک میڈیم ہے جس سے ہم اپنا ما فی الضمیر ادا کرتے ہیں۔ اپنے مافی الضمیر کو مخاطب تک پہنچانے کے کئی اسلوب ہیں۔ ایک عام آدمی اپنی بات اپنی مادری زبان میں بغیر اس زبان کی تعلیم حاصل کئے بھی بخوبی پہنچاتا ہے خواہ اس کی زبان سادہ ہو۔ تاہم زبان کی سادگی کے باوجود اضافی تکلف و تصنع کے بغیر اس کے جملے صحیح ہوتے ہیں مادری زبان ہونے کی وجہ سے تذکیر و تانیث میں غلطی نہیں ہوتی ہے اور حروف تہجی کی ادائیگی درست ہوتی ہے۔
ہر زبان میں زبان language کے علاوہ ادب literature بھی ہوتا ہے جو مستقل ایک فن ہے اور مادری زبان کے برعکس یہ فن اضافی محنت سے خصوصی اتالیق، اساتذہ یا ذاتی مطالعہ سے سیکھنا اور/ یا اسکول، کالج اور یونیورسٹی میں پڑھنا پڑتا ہے۔
مادری زبان دان ضروری نہیں زبان کے نحو صرف اور قواعد سے سیکھے ہوئے شخص کی طرح واقف ہو وہ بس صحیح بول سکتا ہے اور لکھ سکتا ہے۔ اس کے قواعد نہیں بتا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ انگریزی زبان کے گہوارے برطانیہ اور امریکہ میں کئی بار ہندوستان کے طلباء انگریزی گرامر کے مقابلہ جاتی امتحان میں برطانوی اور امریکی سے آگے نکل جاتے ہیں۔
مادری زبان کے برعکس جو طلباء باضابطہ تعلیم حاصل کرتے ہیں وہ فصاحت و بلاغت کے ساتھ اپنی بات مخاطب تک پہنچانے کی صلاحیت رکھتے ہیں ان کی تحریریں شستہ اور شائستہ ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ وہ ادیب، شاعر ، تنقید نگار،افسانہ نگار ناول نگار اور صحافی بننے کے اہل ہوتے ہیں اور ان میں سے کسی ایک ہنر کو اپنا پیشہ بناتے ہیں۔
اردو دان اور ادیب میں فرق ہے۔ اردو زبان سے واقفیت اردو دانی کے لئے کافی ہے۔ اردو زبان جب ہم سیکھتے ہیں تو ہمیں اردو کے حروف تہجی اور مفردات سے مرکب الفاظ بنانے کے قواعد، تذکیر و تانیث اور جملوں کی ساخت سکھائی جاتی ہے۔ آج کے دور میں مدرسہ بیک گراؤنڈ کے زیادہ تر لوگ اردو ادب نثر و نظم شعر و شاعری افسانے اور ناول سے واقف نہیں ہوتے پھر بھی اردو املاء میں غلطی نہیں کرتے۔ اس کی ایک بڑی وجہ ان کا فارسی اور عربی زبان سیکھنے کے دوران مصدر اور اس سے نکلنے والے الفاظ – سجدہ ساجد مسجد مسجود- یعنی صیغے، گردان صرف صغیر اور صرف کبیر کا مشق ہے۔
بدقسمتی سے ان دنوں اردو زبان کی بنیادی تعلیم بھی ہمارے زیادہ تر انگلش میڈیم اسکولوں کے نصاب میں شامل نہیں ہے۔ اور جہاں شامل ہے وہاں کے اسکولوں میں بھی اردو کے اساتذہ میں یا تو اردو زبان پڑھانے کی کامل قابلیت نہیں ہوتی یا وہ طلباء پر پوری توجہ نہیں دیتے۔ اس دور کا المیہ یہ ہے تعلیم کا مقصد سیکھنا کم اور امتحان پاس کرنا زیادہ ہے۔
اردو زبان کی بقاء کے لئے ضروری ہے کہ ہم اس کے لئے جدوجہد کریں اور شروعات اپنے گھروں سے کریں۔ دستور و قوانین کے مطابق جن اسکولوں میں دس فیصد سے زائد اردو پڑھنے کے خواہشمند طلباء ہوں وہاں اردو ٹیچر کی تقرری کرائیں۔ اگر ایسا کسی وجہ سے ممکن نہ ہو تو اپنے بچوں کو گھر پر خصوصی اتالیق سے اردو کی تعلیم دلائیں۔
یہ فرمان جاری کرنا کہ اپنے بچوں کو اردو میڈیم اسکول میں داخلہ کرائیں پریکٹیکل نہیں ہے۔ ہر شخص اپنی اولاد کے بہتر مستقبل اور کیریئر کے لئے فکر مند ہوتا ہے اور ہونا بھی چاہیے۔ اگر اس کا تقاضا نرسری اور KG کے جے سے انگلش میڈیم اسکول میں تعلیم دلانا ہے تو ضرور دلائی جائے۔
اردو زبان کی صحیح شکل و صورت میں باقی اور رائج رکھنے میں دینی مدارس کا بہت بڑا رول ہے اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم یہ توقع کرنا کہ ہر مسلمان اپنے بچوں کو مدرسہ کی تعلیم دلائے یہ صحیح نہیں ہے اور نہ دین اسلام کی طرف سے مطلوب ہے۔ دین اسلام کے مطابق ہر مسلمان کا دین کی بنیادی تعلیمات سے واقف ہونا ضروری ہے۔ بنیادی تعلیم کا مفہوم مولوی مفتی فقیہ ہونا نہیں ہے۔ مسلمانوں کا ایک گروہ مولوی ہو، تفقہ فی الدین ایک گروہ حاصل کرے۔
ہم اپنے بچوں کو عصری تعلیم کے ساتھ ساتھ دین اسلام کی بنیادی تعلیم کس طرح دلائیں۔ اس کی ایک صورت خصوصی اتالیق ہے۔ دوسری صورت پچھلے کئی سالوں سے مساجد میں مکاتب دینیہ قائم کئے گئے ہیں۔ اسکول جانے والوں بچے اور بچیوں کی رعایت رکھتے ہوئے ان کے اوقات مقرر کئے گئے ہیں۔ معمولی فیس پر وہاں دینیات کی تعلیم دی جاتی ہے اس سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)