محمد عالم قاسمی (امام دریا پور مسجد،پٹنہ)
ارکان شوریٰ امارت شرعیہ کا نمائندہ وفد جس میں حضرت مولانا ابوالکلام قاسمی شمسی سابق پرنسپل مدرسہ شمس الہدی پٹنہ ،مولانا محمد عالم قاسمی امام جامع مسجد دریا پور سبزی باغ پٹنہ ،حاجی محمد سلام الحق صاحب بہار شریف ،مولانا آصف انظار ندوی وغیرہ امارت شرعیہ گئے اور اراکین شوریٰ کے نصف سے زائد اراکین کے دستخط کے ساتھ میمو رینڈم قائم مقام ناظم مولانا محمد شبلی القاسمی کو دیا، اس وقت مولانا شمشاد رحمانی صاحب ،مولانا احمد حسین ندوی، اور مولانا عارف رحمانی صاحب وغیرہ موجود تھے۔
سبھوں کے سامنے میں مولانا ابوالکلام قاسمی نے نائب صاحب کو بتایا کہ دستورامارت کے لحاظ سےاب انتخاب کا اختیار آپ کے دائرہ اختیار سے باہر ہو گیا ہے، چونکہ تین ماہ سے زائد کی مدت ہوگئی ہے اور اراکین شوریٰ کی واضح اکثریت نے اپنے دستخط کے ساتھ انتخابی عمل کو رد کردیا ہے، چونکہ یہ غیر دستوری اور غیر شرعی ہے، غیر دستوری کی وضاحت ہو گئی اور غیر شرعی اس طور پر کہ خود امارت شرعیہ کے صدر مفتی سہیل احمد قاسمی صاحب نے قرآن و حدیث کے حوالے سے سے ثابت کر دیا کہ امیر کے انتخاب کا موجودہ طریقہ غیر شرعی ہے، اس کی بنیاد پر جو امیر منتخب ہوگا وہ غیر شرعی امیر ہوگا اور اس کی اطاعت لازم نہیں ہوگی۔
اب امارت شرعیہ میں شرعی کام نہیں ہوگا تو کہاں ہوگا، اس لیے اس انتخابی عمل کو اراکین شوریٰ نے رد کر نے کا فیصلہ کیا ہے۔
اس موقع پر حاجی سلام الحق نے بہت جذباتی انداز میں امارت شرعیہ سے اپنے والہانہ لگاؤ اور جو قربانیاں دی ہیں اس کو اس طرح بیان کیا ان کی آنکھیں آبدیدہ ہوگئیں اور کہا کہ میں اب پانی تک نہیں پیونگا جب تک آپ اس غیر شرعی طریقہ کو رد نہ کر دیں اس کے لیے میں اپنی جان دیدونگا مگر یہاں سے نہیں ہٹوں گا، پھر وفد اراکین شوریٰ تو واپس ہوا مگر وہ وہیں جم کے احتجاجی طور پر بیٹھ گئے ہیں۔
میں نے پہلی مرتبہ امارت کو اس حالت میں کہ گویا کرفیو لگا ہوا ہو، عجیب خوف وو حشت کا ماحول ہر سراسیمہ کوئی لب کشائی کو تیار نہیں، مسلح ہتھیاروں سے لیس پولیس کی بڑی تعداد کچھ فوجی بھی نظر آئے، دینی ادارہ میں ایسا ماحول کہ لگے پولیس مجرموں کی گھیرا بندی کی ہوئی ہے۔
الامان و الحفیظ اب ہمارے دینی مرکز کی ایسی صورت حال جہاں سے ملت کے مسائل حل ہوتے اب وہی دینی ادارہ تمام مسلمانوں کو الجھن میں ڈال دیا ہے، جس کے فتوے کی سامنے مسلمان اپنا سر تسلیم خم کر دیا کرتے تھے آج خود اسی ادارہ کے اس کا فتویٰ اور اس فتویٰ کو دینے والا ذلیل ہو رہا ہے جب امارت شرعیہ میں شریعت اور قرآن و حدیث پر عمل نہیں ہوگا تو کہاں ہوگا۔
آج وہاں یہ حال ہے کہ سب ہمہ شما نظر آتے ہیں کون کس کی بات کون بڑا کون کس کی کیا حیثیت کچھ سمجھ میں آتا جو بھی وفد جاتا ہے سب مل کر سنتے ہیں اور بس ایک ہی جواب سب کو ملتا ہے کہ غور کر کے بتائیں گے مگر وہ غور کرنے والی کونسی غیر مرئی مخلوق آج تک سمجھ میں آیا، اب کون فیصلہ کرتا ہے کہاں سے فیصلہ ہو تا ہے یہ چند کو چھوڑ کر کسی کو نہیں معلوم، اللہ تعالیٰ اس ادارہ کی حفاظت فرمائے، اور نظر بد سے بچائے، سازشوں کے جال سے نکالے، اور ملت اسلامیہ کے توقعات کے مطابق اس کا قائدانہ رول بحال کر دے، اور اسلاف کا یہ دھرو ہر (نشانی) محفوظ و مامون رہے. کسی کی انا اور کسی کی ضد کی بھینٹ نہ چڑھے.گزشتہ تیس سالوں سے ایسا جڑا ہوا ہوں کہ اس کی درو دیوار سے عقیدت ہے اس کے دربان اور محافظ کو بھی اپنے گھر کا فرد سمجھتا ہوں، جو محبت و عقیدت میرے دل میں ہے اور جو ماحول میں نے دیکھا ہے اس مقابلے آج کے ماحول کو دیکھ کر دل خون کے آنسو بہانے پر مجبور ہے، میں نے اب تک جو بھی کوشش کی ہے امارت کی محبت میں اور اس کے عظمت کی بحالی کے لئے کی ہے، اب چاہے لوگ اسے جو نام دیں، جو میرے بس میں ہے وہ میں اس کے تحفظ کیلئے کر ونگا، میری ذاتی کوئی غرض نہیں ہے اور نہ کوئی توقع، میری تگ و صرف اس لئے ہے کہ میں اسے اپنا ادارہ سمجھتا ہوں، اس کا کسی بھی حیثیت سے نقصان نہیں دیکھ سکتا:
کیا تقدیر نے اسی لیے چنواءے تھے تنکے
کہ بن جائے نشیمن تو کوئی آگ لگا دے
(وضاحت: یہ تحریر الیکشن کے التوا سے قبل لکھی گی مگر اس میں جو احوال بیان کیے گیے ہیں وہ بہر حال قابل تشویش ہیں ،)