تحریر:شکیل اختر
رام مندر کی تحریک سے پہلے ایودھیا ایک پر امن شہر ہوا کرتا تھا۔ ہندوؤں کے ساتھ ساتھ مسلمان بھی صدیوں سے یہاں رہتے چلے آ رہے ہیں۔یہاں مندروں کے درمیان جگہ جگہ مساجد، مقبرے، درگاہیں اور قدیم قبریں اس شہر میں مسلمانوں کی صدیوں سے آبادی کا پتہ دیتی ہیں۔ بہت سے قبرستان لودھی حکمرانوں اور خلجی عہد کے ہیں۔یہاں دو مسلم پیغمبروں حضرت شیث اور حضرت نوح سے منسوب دو روضے بھی ہیں۔ ان کا ذکر شہنشاہ اکبر کے مورخ ابوالفضل فیضی نے چار سو سال پہلے اپنی ایک تحریر میں کیا ہے۔
شہر کے ایک سرکردہ کارکن خالق احمد خان نے ایودھیا کے مسلم مقامات کی فہرست تیار کی ہے۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’سرکاری ریکارڈ کے مطابق ایودھیا میں 55 مساجد، 22 قبرستان، 22 مزار اور 11 امام باڑے ہیں۔ یہ سبھی موجود ہیں اور ان میں بیشتراستعمال میں ہیں۔‘
انھوں نے بتایا کہ بعض مقامات کی نوعیت بدلنے کے لیے کتبوں وغیرہ کو اکھاڑ دیا گیا ہے یا ان کی عبارت پر پوتائی کر دی گئی ہے اور مقامی انتظامیہ کے اہلکاروں کی مدد سے موجودہ ریکارڈ کو غائب کر دیا گیا ہے۔لیکن قدیم ریکارڈ اور گزٹ وغیرہ میں ان مقامات کی ساری تفصیلات درج ہیں۔ وہ کہتے ہیں ایودھیا سے مسلمانوں کے نشانات مٹانے کی کوشش ہو رہی ہے۔
مسلمانوں کے خوف اور اندیشے
ایودھیا میں جو قدیم قبرستان ہیں وہ بہت بڑے رقبوں پر پھیلے ہوئے ہیں۔ بہت سے ایسے قبرستان اور مقبرے ہیں، جن کے اطراف میں مسلم آبادیاں ختم ہو چکی ہیں اور یہ قبرستان اب ویران پڑے ہیں۔
ایودھیا وقف بورڈ کے صدر محمد اعظم قادری نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’جب سے رام مندر کے حق میں سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا ہے زمینی مافیاؤں کی نگاہیں صرف قبرستان اور وقف کی املاک پر لگی ہوئی ہیں۔ کئی ایسے قبرستان اور وقف کی جائیدادیں ہیں جن پر لوگ قبضہ کر چکے ہیں۔ یہاں ایسی خبریں بھی آ رہی ہیں کہ رام مندر کی مزید توسیع کی جائے گی۔ ہمیں خدشہ ہے کہ اس میں ہمارے بہت سے قبرستان اور مقبرے وغیرہ بھی لے لیے جائیں گے۔‘
قاضیانہ محلے کی لیلت النسا مندروں میں چڑھاوے اور سادھوؤں کے پہننے کی مخصوص لکڑی کے چپل بناتی ہیں۔ ان کا گھر رام مندر کی باہری دیوار سے ملا ہوا ہے۔
انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا کہ ان کا گھربھی لیا جا سکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ہم یہ سن رہے ہیں کہ ہم لوگوں کو بھی یہاں سے ہٹا دیا جائے گا۔ ہم تو یہاں سے کہیں نہیں جائیں گے۔ ہم تو یہیں رہیں گے، خواہ کچھ بھی ہو۔‘
ایودھیا اور ملک میں بدلتے رشتے
ایودھیا ویسے تو ہندو دھرم کے ایک اہم شہر کے طور پر جانا جاتا ہے لیکن ہندوؤں کے ساتھ ساتھ مسلمان بھی صدیوں سے رہتے چلے آ رہے ہیں۔مسلم حکمرانوں کے دور میں یہ شہر شمالی انڈیا میں مسلمانوں کی تہذیب، مذہب اور ثقافت کا ایک اہم مرکز تھا۔
رام مندر کی تحریک سے پہلے یہ ایک پر امن شہر ہوا کرتا تھا۔ ایک ملی جلی تہذیب تھی یہاں کی۔ لوگ میل ومحبت سے زندگی گزار رہے تھے۔سید اخلاق لطیفی جیسے بہت سے مسلمان اب اسے کھویا ہوا محسوس کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’کھونے کا احساس تو بہت شدت سے ہوتا ہے۔ یہاں بہت اجھا ماحول ہوا کرتا تھا۔ اب بھی کچھ لوگ ماحول بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر جب وقت آتا ہے، جب فیصلہ کن گھڑی آتی ہے تو کون بدل جائے کچھ نہیں کہا جا جا سکتا۔‘اخلاق لطیفی کہتے ہیں ’یہ ماحول اب ہر جگہ بدل رہا ہے۔ بدلتے ہوئے انڈیا پر جہاں بھی نگاہ ڈالیے اب تو ہر طرف تقسیم نظر آتی ہے۔ سب پر اس کا اثر پڑ رہا ہے، جو جہاں ہے وہیں اس کو محسوس کر رہا ہے۔ اس کا کیا کیا جائے، یہ زہر تو پھیلتا ہی جا رہا ہے۔‘
ایودھیا میں ایک بہت وسیع رام مندر بنایا گیا ہے۔ پورا شہر اب تبدیل ہو چکا ہے۔رام مندر کی تعمیر نے مذہبی قوم پرستی کی ایک نئی بنیاد رکھی ہے۔ رام ندر کی تحریک صرف مندر مسجد کا تنازع نہیں تھی۔ اس نے انڈیا کی سیاست کا رخ بدل دیا ہے۔انڈیا ایک ایسی جمہوریت کی طرف بڑھ رہا ہے جس میں انڈیا مسلمان بدلتے ہوئے پس منظر میں انجانے اندیشوں سے گھرا ہوا محسوس کر رہا ہیں۔(بشکریہ بی بی سی)