تحریر : مسعود جاوید
عالم اسلام بالخصوص ہندستان، پاکستان اور بنگلہ دیش میں دعوتِ دین کا جو عملی تصور ہے وہ ہے مسلمانوں کو مسلمان بنانا۔
غیر مسلم تنظیموں بالخصوص فرقہ پرست تنظیموں کے بارے میں عموماً یہی کہا جاتا ہے ان کے پاس تھینک ٹینک ہے جو ہندوستان میں ہر فرقے کی دینی، ثقافتی، تعلیمی اور معاشی صورتحال پر گہری نظر رکھتا ہے اور ان کا مخصوص شعبہ ریسرچ کرتا رہتا ہے۔ اگر یہ حقیقت ہے تو پھر وہ تنظیمیں یا تو اپنے کام میں پرفیکٹ نہیں ہیں یا اپنے سیاسی مفادات کی برآوری کے لئے حقیقت سے واقف ہونے کے باوجود لوگوں کو گمراہ کرتی ہیں۔
اترپردیش اسمبلی انتخابات سر پر ہیں غالباً اسی کے مد نظر آبادی پر کنٹرول اور تعدد ازدواج کے مسئلے کو موضوع بحث بنایا گیا ہے۔ انتخابات میں فتح حاصل کرنے کے لئے ضروری اجزاء ترکیبی main ingredient ہندو مسلم منافرت ،بحیثیت مجرب نسخہ ، ثابت ہو چکی ہے۔ اس لئے ترقیاتی منصوبے، نظام و قانون کی بالادستی، کرپشن، ریپ ، کورونا وائرس کے دوران حکومت کی بدترین کارکردگی اور ملک میں امن و امان قائم رکھنے کے لئے مضبوط نظام ، اہمیت کے حامل نہیں ہیں۔
تعدد ازدواج کا جہاں تک تعلق ہے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق شرح پیدائش میں عورت و مرد کا تناسب ایک ہزار1000مرد کی بنسبت 937 عورت ہے۔ ظاہر اس شرح کے مطابق اگر ایک مرد ایک عورت سے شادی کرتا ہے تو بھی 63 عورتوں کی کمی ہو گی۔ پھر یہ کہ مسلمان کوہ قاف پر نہیں بستے ہیں کہ ان کے بارے میں معلومات حاصلِ کرنا مشکل ہے۔ ہر شہر گاؤں اور قصبہ میں ہندو مسلم مخلوط آبادی ہے۔ اس کے باوجود اگر غیر مسلم مسلمانوں کی چار بیویوں اور چالیس بچوں کے بیانیہ پر ذرہ برابر بھی توجہ دیتے ہیں تو ان کے بھولے پن پر ترس آنا چاہیے۔
مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈہ کی حقیقت بس اتنی ہے کہ ایسا بیانیہ غیروں کو مسلمانوں کے خلاف ورغلانے میں معاون ہوتا ہے۔ یہ بیانیہ کہ چند سالوں میں ہندوستان میں مسلم آبادی میں اس قدر اضافہ ہوجائے گا کہ ہندو اکثریت اقلیت اور مسلم اقلیت اکثریت میں تحویل ہو جائے گی۔ اعداد و شمار اور سیاسی و سماجی علوم کے ماہرین کی رائے گرچہ اس کی تائید نہیں کرتی ہے تاہم اکثریت کے دانشور طبقے کی خاموشی سے ایسے بیانیہ کو تقویت ملتی ہے۔
غیر مسلم تنظیموں کو خوش ہی نہیں شکر گزار ہونا چاہیے کہ مسلمانوں نے اپنا فریضہ منصبی كنتم خير أمة أخرجت للناس تامرون بالمعروف و تنهون عن المنكر (قرآن) تم وہ بہترین امت ہو جسے لوگوں کی طرف اس لئے بھیجا گیا ہے کہ بھلائی کے کام کرنا سکھاؤ اور برائی سے روکو، بھول بیٹھی ہیں۔
مسلمانوں نے تبدیلی مذہب بالجبر کیا بالرضا کے لئے بھی کبھی کوشش نہیں کی۔ مسلم اداروں اور تنظیموں کی ساری سرگرمیوں کا محور مسلمانوں کو مسلمان بنانا رہا ہے۔ غیروں میں اشاعت دین ان کی ترجیحات کبھی نہیں رہی۔ ان کی ساری توانائی اشاعت دین نہیں اشاعت مسلک پر صرف ہوتی رہی ہیں۔ ہزاروں کتابیں اور مناظرے اپنے مسلک کو بر حق اور دوسرے مسلک کو گمراہ ثابت کرنے کے موضوع پر ہیں۔
بعض جوشیلے لکھاری حضرات سوشل میڈیا پر لکھتے رہتے ہیں کہ صلح حدیبیہ کی بات کرنے والے بزدل اور اکثریت کی طاقت سے مرعوب ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ دور دفاع کا نہیں پیش قدمی کرنے کا ہے۔
ان میں سے بعض کا کہنا ہے کہ قرآن کی مذکورہ ذیل آیات کا ذکر آج کے دور میں ضروری نہیں ہے۔ :’’لكم دينكم ولي دين۔‘‘تمہارے لئے تمہارا دین اور ہمارے لئے ہمارا دین۔’’ لا إكراه في الدين ‘‘دین قبول کرانے کے لئے زبردستی نہیں کی جائے۔ ایک انسان کو بغیر جرم قتل کرنا پوری انسانیت کا قتل کرنے کے مترادف ہے۔ اسی طرح ایک انسان کی جان کی حفاظت کرنا پوری انسانیت کی جان کی حفاظت کرنے کے برابر ہے۔
کثیر ادیان، مذاھب، مسالک اور تہذیبوں والے مشترک سماج inclusive society میں بودوباش کے لئے قرآن کریم کے پرامن بقائے باہمی کے سنہرے اصول سے کیا ہم نے برادران وطن کو متعارف کرایا ؟ ظاہر ہے ان میں ایک طبقہ ایسا ہے جو اسلام کی حقیقت سے بخوبی با خبر ہونے کے باوجود اپنی ذاتی و سیاسی مفاد کی خاطر دوسروں کو اسلام سے بدظن کراتا ہے ان پر اثر نہیں ہو گا اس لئے کہ قرآن مجید کی زبان میں ان کے دلوں، کانوں اور آنکھوں پر مہر لگ چکی ہے۔ لیکن اس میں شبہ نہیں ہے کہ ایک بہت بڑا طبقہ کے ذہن سے اسلام کے بارے میں غلط فہمیاں دور ہوں گی۔ وہ اسلام قبول کریں یا نہ کریں یہ ان کی مرضی مگر اتنا تو جانیں گے کہ اسلام کا پرامن بقائے باہمی کے کیا اصول ہیں ، اسلام پرامن بقائے باہمی کی وکالت کرتا بھی یا نہیں ؟
کیا ہم نے برادران وطن کو بتایا کہ اسلام دوسرے مذہب کے معبودوں کے خلاف اہانت آمیز الفاظ استعمال کرنے سے منع کرتا ہے، دوسرے مذاہب کی عبادت گاہوں کی بے حرمتی اور توڑ پھوڑ کرنے سے منع کرتا ہے، نہتے مذہبی پیشواؤں پر حملہ کرنے کی اجازت نہیں دیتا ہے۔
تقریباً ہر ادارے میں( برائے نام ) شعبہ تبلیغ و نشرواشاعت ہے جس کی زیادہ تر سرگرمی ان اداروں کے بزرگوں کی قصیدہ خوانی ہوتی ہے۔
افسوس اس وقت ہوتا ہے جب مدارس دینیہ اور ملی ادارے اخبارات میں اشتہارات پر لاکھوں روپے سالانہ خرچ کرتے ہیں۔ اشتہار تجارت کو فروغ دینے کا بہترین ذریعہ ہے لیکن کیا مدارس اور دینی و ملی ادارے تجارتی اکائیاں ہیں جن کے فروغ کے لئے انہیں اخباروں میں اشتہارات چھپوانے کی ضرورت ہے۔
کتنے افسوس کی بات ہے کہ مدارس کے ارباب حل و عقد سے مدارس کے نصاب میں بنیادی عصری علوم داخل کرنے کو کہیں تو ان کا جواب ہوتا ہے کہ مخیر حضرات دین کی تعلیم کے لئے چندے دیتے ہیں دنیاوی علوم کے لئے نہیں ! لیکن کیا دین کے نام پر وصول کی ہوئی رقم اشتہارات اور میڈیا مینیجمنٹ پر خرچ کرنے کا کوئی جواز ہے ؟ ہر بڑے مدرسے میں شعبہ تبلیغ اور شعبہ نشرواشاعت ہے وہ کس زبان میں اسلام کا پیغام عام کرنے کے لئے نشرواشاعت کرتے ہیں ؟