ابو ریحان محمد ابن البیرونی کو وقت یعنی ماضی، حال اور مستقبل سے بے حد لگاؤ تھا۔ وہ ایک زیرک ریاضی دان تھے جنھوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ علم فلکیات اور کرونومیٹری (یعنی وقت کی درست پیمائش کا سائنسی علم) کے ذریعے وقت کی پیمائش کرتے گزارا۔ وقت سے متعلق اُن کی اس دیوانگی کی وجہ دراصل قرآن میں اللہ کی طرف سے دیا گیا یہ حکم تھا کہ ’سورج اور چاند کی حرکت پر غور کرو۔‘
تاہم البیرونی کی ذاتی زندگی سے متعلق بہت کم معلومات دستیاب ہیں۔ ہمیں یہ بھی نہیں معلوم کے آیا وہ شادی شدہ بھی تھے یا نہیں اور اُن کی اولاد تھی یا نہیں۔ اُن کی لکھی ہوئی ایک نظم میں انھوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ انھیں اپنے والد کے بارے میں بھی علم نہیں تھا۔ہمیں ان کے بارے میں جتنا بھی معلوم ہے اس کی وجہ ان کے چاند اور سورج گرہن سے متعلق مشاہدے ہیں۔ ہمیں یہ بھی نہیں معلوم کہ ان کی وفات کس سن میں ہوئی، شاید 1050 عیسوی کے بعد۔۔ لیکن ہمیں یہ ضرور معلوم ہے کہ انھوں نے اپنی زندگی علم حاصل کرنے کی جستجو میں گزار دی اور اس دوران 140 کتابیں بھی لکھ ڈالیں۔
ان میں سے 20 کتابیں اپنی اصل حالت میں اب بھی محفوظ ہیں اور ان میں سے زیادہ تر میں البیرونی نے آنے والے وقت کی درست پیمائش، جغرافیہ کو ریاضی کے ذریعے سمجھنے کی کوشش، جیومیٹری، علم پیمائشِ ارض، علومِ فلکیات اور اطلاقی ریاضی سے متعلق تحقیق کی۔اس شعبے میں ان کی سب سے مقبول کتاب ’القانون المسعودی‘ میں وہ زمین اور ستاروں کی پیمائش سے متعلق قواعد وضع کرتے ہیں۔ وقت پیمائی سے متعلق ان کے جنون نے انھیں گزرے ہوئے وقت کے بارے میں بھی تحقیق کرنے پر مائل کیا۔
ان کی کتاب ’الآثار الباقية عن القرون الخالية‘ میں وہ گزرے ہوئی صدیوں کے واقعات کو تسلسل سے بیان کرتے ہیں اور مختلف مذاہب کے کیلنڈرز پر تحقیق کرنے کے بعد مختلف ثقافتوں اور تہذیبوں کے تہواروں اور عقیدوں کے بارے میں بات کرتے ہیں اور ریاضی اور فلکی علوم کی تاریخ پر بھی نظر ڈالتے ہیں۔میں نے اس سے زیادہ حقیقی تاریخ پہلے کبھی نہیں پڑھی جس میں وہ محفوظ شدہ وقت کے نظریے کا بہت خوبصورتی سے جائزہ لیتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ اس کے معنی کیا ہو سکتے ہیں۔
البیرونی نے اپنی زندگی علم حاصل کرنے کی جستجو میں گزار دی اور اس دوران 140 کتابیں بھی لکھ ڈالیں
ہندوستان میں وقت گزارتے ہوئے ان کا سب سے مشہور کام کتاب الہند یا تاریخ الہند لکھنا تھا جس میں انھوں نے ہندوستان میں لوگوں کے عقیدوں، تہذیب اور ثقافت سے متعلق تحقیق کی جو ہمیشہ کے لیے امر ہو گئی۔ انھیں مطالعہ ہند کا بانی بھی کہا جاتا ہے اور اس طرح البیرونی موجودہ وقت کو قید کرنے کی جستجو میں بھی کامیاب ہوئے۔ انھوں نے ہندوستانی نظریات کو اپنی تحریر کے ذریعے مستقل شناخت بخشنے کی کوشش کی۔ساتھ ہی ساتھ انھوں نے ماضی کو بھی زندہ رکھنے کی کوشش کی، وہ ہندوستان اور یونان کے قدیم باشندوں کو ایک خاندان کے جیسا سمجھتے تھے۔ تاہم ان کا وقت سے یہ جنونی لگاؤ دنیا کی نفی ہرگز نہ تھا۔ اپنے سیاسی کریئر سے متعلق انھوں نے کہا کہ ’مجھے دنیاوی چیزوں کی جانب کھینچ لیا گیا تھا اور بیوقوف مجھ سے حسد کرتے تھے جبکہ دانا مجھ پر ترس کھاتے تھے۔‘
البیرونی کا سیاسی کریئر مؤرخین کو متاثر نہیں کر سکا اس لیے تاریخ میں اس کے بارے میں ہمیں کم ہی حوالے ملتے ہیں۔ تاہم کہیں نہ کہیں ہمیں اس کی بازگشت ضرور سنائی دیتی ہے۔انھیں بحر گیلان کے مشرقی علاقوں میں متعدد تاباں لیکن ہنگامہ خیز شاہی حکومتوں میں اعلیٰ عہدے دیے گئے۔ ان شاہی حکمرانیوں کا جلد خاتمہ ہو گیا۔ یہاں البیرونی کو بہت مقبولیت ملی، وہ انتہائی زیرک سیاست دانوں، مفکرین اور شاعروں کی توجہ حاصل کرتے رہے لیکن پھر ان حکومتوں کا خاتمہ ہو جاتا۔نئی حکومت میں سابقہ حکومتوں کے لوگ بھی عہدے حاصل کر سکتے تھے، لیکن اگر ان کی پرانی حکومت سے وفاداریاں زیادہ مضبوط ہوں تو وہ اپنی قسمت کہیں اور آزما سکتے تھے۔ البیرونی 973 عیسوی میں خوارزم یعنی موجود ازبکستان میں پیدا ہوئے۔
البیرونی کی سیاسی زندگی میں 1017 میں اس وقت بھونچال آیا جب ایک افغان فوجی حاکم محمود غزنوی نے ان کے حکمران سے اپنا دربار مکمل طور پر ان کے حوالے کرنے کا کہا
البیرونی کو ابتدا سے ہی عربی اور فارسی میں مہارت حاصل کروائی گئی جبکہ انھوں نے دینی علوم جیسے قرآن، گرامر، دینیات اور قانون کی تعلیم بھی حاصل کی اور غیر عربی سائنسز جیسے علم فلکیات، ریاضی اور طبی علوم بھی پڑھے جن کی بنیاد یونانی نظریہ تھی۔ البیرونی کا پہلا سرکاری عہدہ افریغ دورِ حکومت میں بطور ماہرِ فلکیات تھا۔ افریغ دراصل خوارزم کے دارالحکومت کات کے حکمران تھے جہاں البیرونی بڑے ہوئے تھے۔ 995 میں افریغیان کو خوارزم کے دوسرے شہر گرگانج پر حکمرانی کرنے والے حریف گھرانے مامونیان سے شکست ہوئی۔
اس وقت البیرونی کی عمر محض 22 برس تھی اور وہ افریغیان کے خاصے قریب تھے اس لیے انھوں نے اپنی قسمت آزمانے کا سوچا اور اپنی زندگی کے اگلے تین برس خوارزم کے ہی ایک شہر بخارا میں گزارے، جہاں ان کی ملاقات متعدد علوم پر گرفت رکھنے والے مشہور سائنسدان ابن سینا سے ہوئی۔ابنِ سینا ایک کرشماتی فلسفی تھے جو انتہائی پیچیدہ خیالات بیان کرتے تھے، ایک زیرک سیاست دان اور چھوٹی سی عمر میں قدرتی صلاحیتوں سے مالا مال تھے۔البیرونی نے ابنِ سینا کے ساتھ سائنسی موضوعات پر بحث کی اور البیرونی کے سوالات اور ابنِ سینا کی جانب سے ان کے جوابات آج بھی محفوظ ہیں۔
البیرونی نے ابنِ سینا سے 18 سوالات پوچھے جن میں سے دس ارسطو کی کتاب السما والعالم کے ترجمے کے بارے میں تھے جبکہ دیگر آٹھ قدرتی فلسفے سے متعلق تھے۔ ابنِ سینا دراصل ارسطو کے فلسفے کے پہلے مترجم تھے اور انھوں نے البیرونی کے سوالات کے جوابات بھی دیے۔ ان جوابات کی بنیاد پر البیرونی نے مزید 15 سوالات کیے۔ ان سوالات کے جوابات ابن سینا کے ذہین طالبِ علم نے دیے۔ مثال کے طور پر سوال نمبر دو میں البیرونی ارسطو کو اپنے مشاہدوں کی بجائے سابقہ فلسفیوں کے کام پر انحصار کرنے پر تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ سوال نمبر چھ میں البیرونی سیاروں کی بیضوی یعنی انڈے کی شکل جیسی حرکت کے بارے میں بات کرتے ہیں نہ کہ دائرہ نما۔ ابنِ سینا ان کے اس سوال پر ان کی تعریف کرتے ہیں۔
البیرونی ارسطو کو اپنے مشاہدوں کی بجائے سابقہ فلسفیوں کے کام پر انحصار کرنے پر تنقید کا نشانہ بناتے ہیں
ان کے متعدد سوالات کا محور خلا ہوتا ہے۔ سوال نمبر 17 میں وہ پوچھتے ہیں کہ اگر چیزیں گرم کرنے سے پھیلتی ہیں اور ٹھنڈی کرنے سے سکڑتی ہیں تو پھر ایک شیشے کی صراحی ٹوٹ کیوں جاتی ہے جب اس میں موجود ہوا جم جاتی ہے؟ ایک اور سوال یہ کہ برف پانی پر تیرتی کیوں ہے اس میں ڈوبتی کیوں نہیں؟ ان سوالات کے مشاہدے سے یہ علم ہو جاتا ہے کہ البیرونی ارسطو پر اس لیے تنقید کر رہے تھے کیونکہ ان کا کام تجرباتی طور پر ٹھوس نہیں تھا اور وہ ابنِ سینا سے بھی متاثر نہیں ہوئے۔ بعد میں ایک کتاب میں البیرونی ابنِ سینا کو طنزیہ انداز میں ’لڑکا‘ کہہ کر مخاطب کرتے ہیں حالانکہ وہ عمر میں ابنِ سینا سے صرف سات برس ہی بڑے تھے۔
998 عیسوی میں 25 سالہ البیرونی طبرستان کی زیاریان دورِ حکمرانی میں کام کرنے لگے جہاں انھوں نے اپنی زندگی کے اگلے دس برس گزارے۔ یہاں انھوں نے اپنی کتاب الآثار الباقية عن القرون الخالية لکھنے کا آغاز کیا۔ انھوں نے اس کتاب میں آخری مرتبہ 70 برس کی دہائی میں تبدیلیاں کیں۔ یہ کتاب دراصل مذاہب کی تاریخ بتاتی ہے۔ ان میں زرتشتر یا مجوسی مذہب سے پہلے کے افراد جو ممکنہ طور پر بدھ مت کو مانتے تھے، مجوسی، سغدیان جو قدیم ایرانی تہذیب سے تعلق رکھنے والے افراد تھے، خوارزمی یعنی البیرونی کے اپنے لوگ، یہودی، شامی عیسائی، اسلام کے ظہور سے پہلے موجود عربی اورمسلمان شامل ہیں۔
البیرونی نے ان مذاہب کی تاریخ پر غور کیا، یہ دیکھا کہ وہ اپنے کلینڈر کیسے بناتے ہیں اور ان کے تہوار اور دیگر تقریبات کب منعقد ہوتی ہیں۔ ان کی کتاب کے پہلے تین باب مذاہب کی بنیاد کے بارے میں ہیں یعنی یہ سب وقت کا حساب کیسے لگاتے ہیں۔ باب چار سے آٹھ میں بادشاہوں اور پیغمبروں کے ادوار کے بارے میں بات کی گئی ہے تاکہ اس سے واقعات کی ترتیب وار تاریخ مرتب کی جا سکے جس سے موازنے میں آسانی ہو۔
باب نو سے 20 میں کلینڈرز کا تذکرہ ہے جبکہ باب 21 میں چاند کے محل وقوع کے حوالے سے بات کی گئی ہے۔ البیرونی نے جن ذرائع سے یہ معلومات حاصل کی ہیں وہ دستاویزات ہیں، سنی سنائی باتیں نہیں ہیں۔ انھوں نے اس حوالے سے جتنے ہو سکے دستاویزات اکھٹے کیے اور انھیں دلیل اور معقولیت کے حوالے سے جانچنے کی کوشش کی۔ انھوں نے واقعات کی مختلف نقول میں مطابقت ڈھونڈی، جس ذریعے سے انھیں معلومات ملیں انھیں دھیان سے ریکارڈ کرنے کی کوشش کی اور جب اس حوالے سے کوئی تضاد ان کے سامنے آیا تو انھوں نے اسے غیرجانبدار ہو کر پرکھا۔ یہ سب ان کی جانب سے ایک عرصے سے وقت پیمائی یا کرونوگرافی میں دلچسپی کے اثر کے باعث تھا۔
البیرونی نے ان مذاہب کی تاریخ پر غور کیا، یہ دیکھا کہ وہ اپنے کلینڈر کیسے بناتے ہیں اور ان کے تہوار اور دیگر تقریبات کب منعقد ہوتی ہیں۔ ان کی کتاب کے پہلے تین باب مذاہب کی بنیاد کے بارے میں ہیں یعنی یہ سب وقت کا حساب کیسے لگاتے ہیں15 برس تک غائب رہنے کے بعد البیرونی واپس کات گئے جہاں انھیں ’ندیم‘ کی حیثیت میں ایک سرکاری عہدہ دیا گیا۔ ندیم دراصل حکمران کے دربار کا ایک ایسا خاص آدمی ہوتا ہے جو اسی کے ساتھ کھاتا پیتا بھی ہے۔
حکمران کے انتہائی قریب ہونے کے باعث البیرونی نے متعدد سفارتی دوروں پر ان کی نمائندگی بھی کی۔ تاہم ان کی سیاسی زندگی میں 1017 میں اس وقت بھونچال آیا جب ایک افغان فوجی حاکم محمود غزنوی نے ان کے حکمران سے اپنا دربار مکمل طور پر ان کے حوالے کرنے کا کہا۔اس طرح اس دورِ حکومت کا بھی خاتمہ ہوا اور یوں البیرونی غزنوی حکومت کا حصہ بن گئے۔ 1017 سے 1030 کے درمیان البیرونی کی زندگی اور ان کی محمود الغزنوی کی حکومت میں کردار کے حوالے سے ابہام موجود ہے۔ یہ امکان بھی ظاہر کیا جاتا ہے کہ انھیں ان کی مرضی کے بغیر حکومت کا حصہ بنائے رکھا گیا ہو۔تاریخ میں ملنے والے ایک اور حوالے میں یہ بھی لکھا ہے کہ ایک مرتبہ بطور سرکاری نجومی مستقبل کا حال بتاتے ہوئے انھیں محمود الغزنوی کی برہمی کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا۔
جب محمود غزنوی نے انڈیا کے ان حصوں پر حملے کیے جو آج کل پاکستان کہلاتے ہیں تو البیرونی بھی ان کے ہمراہ تھے اور اس دوران محمود نے متعدد براہمن ذات کے ہندوؤں کو جنگی قیدی بنایا۔ یہ براہمن البیرونی کے لیے انڈیا کے بارے میں وہاں کے مذاہب سے متعلق معلومات حاصل کرنے کا اہم ذریعہ بنے۔
اپنی ایک کتاب میں وہ انڈین تہذیب سے متعلق اپنی دلچسپی کی وجہ بتاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ‘اس کے ذریعے ہمیں انڈیا میں رہنے والوں کے نقطہ نظر سے حالات و واقعات کا جائزہ لینے کا بھی موقع ملتا ہے اور اس طرح ہم انھیں رعایت دیے بغیر نہیں رہ پاتے۔’یہ سچ ہے کہ انڈین باشندوں کو ویسی رہنمائی اور منطقی دلائل نہیں دیے گئے جیسے قدیم یونانی باشندوں کو دیے گئے تھے لیکن پھر بھی اس دور میں انھوں نے اپنے آباؤ اجداد کے بنیادی اصولوں کو محفوظ کر رکھا ہے۔ اس لیے ان کی جانب سے تاریخ کو محفوظ رکھنے اور قیاس آرائیوں پر مبنی تحقیق کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جانا چاہیے، اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔یہی نہیں، پرانے وقتوں میں انڈین اور یونانی ایک گھرانے جیسے ہوا کرتے تھے۔ دونوں جگہوں پر پولیس کا یکساں نظام ہوا کرتا تھا اور دونوں ہی علومِ فلکیات کی دو شاخوں سے متعلق ایک جیسے بنیادی خیالات رکھتے تھے یعنی علمِ فلکیات اور علمِ نجوم۔‘
پھر البیرونی کو اپنے دور کے انڈین باشندوں کے حوالے سے کچھ اہم معلومات بھی ملیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ‘میں گذشتہ کچھ عرصے سے انڈیا کے ریاضی دانوں اور ماہرِ فلکیات کے کتب کے ترجمے کر رہا تھا۔ مجھے ایسی کتابیں بھی ملیں جن میں انڈیا کے بااثر افراد اپنے فلسفے کو محفوظ رکھ رہے تھے تاکہ وہ بہتر انداز میں عبادت کر سکیں۔ جب میں نے ان دستاویزات کا ایک استاد کی موجودگی میں حرف بہ حرف مطالعہ کیا تو مجھے یہ گوارا نہ ہوا کہ میں انھیں دیگر سچ کی جستجو کرنے والوں سے دور رکھوں اس لیے میں نے انھیں منظر عام پر لانے کا فیصلہ کیا۔‘
البیرونی نے ابنِ سینا کے ساتھ سائنسی موضوعات پر بحث کی اور البیرونی کے سوالات اور ابنِ سینا کی جانب سے ان کے جوابات آج بھی محفوظ ہیں
البیرونی کے دور کے انڈین باشندوں نے اپنے ماضی کو زندہ رکھا ہوا تھا لیکن یونان کے قدیم باشندوں کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ انھیں بہت جلد بھلا دیا گیا تھا۔ انڈین تہذیب نے البیرونی کو تاریخ کو زندہ کرنے کا موقع دیا لیکن یہ ایک آسان کام نہ تھا۔کوئی کیسے ایک پوری تہذیب کو الفاظ کی شکل دے سکتا ہے۔ یہ کیسے ممکن تھا کہ ایک انتہائی قدیم اور نفیس تہذیب کو ایک مشکل زبان سے ترجمہ کرتے ہوئے کتابی شکل دی جائے؟تاہم البیرونی نے سنسکرت سے عربی میں کتابوں اور دستاویزات کے ترجمے کرنے کے مشکل عمل آغاز کر دیا۔ انھوں نے اس حوالے سے ثبوت اکھٹے کرنا شروع کر دیے اور براہمن قیدیوں سے مدد بھی حاصل کی لیکن ان تمام شواہد اور معلومات کو ایک مجموعے کی شکل دینا بھی ایک الگ مسئلہ تھا۔ اس سے قبل کسی نے ایسی کتاب لکھنے کی کوشش بھی نہیں کی تھی اور یہ ایک خاصا وسیع منصوبہ تھا۔ یہ تقریباً ایک لاکھ 30 ہزار الفاظ کی کتاب ہے۔
شاید البیرونی کو اس مسائل کا حل کتاب لکھنے سے پہلے ہی معلوم ہو، شاید انھیں اچانک سے اس بارے میں خیال آیا ہو، ہم نہیں جانتے۔ اس حوالے سے ان کی جانب سے دیا گئے حل کو وہ جیومیٹریکل راستے کا نام دیتے ہیں اور اس کی وضاحت کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ:
اب تک یہ ممکن نہیں ہو سکا کہ ہم ’جیومیٹریکل پاتھ‘کا تعاقب کریں اور اس کے ذریعے اس سے پہلے ہونے والے عمل کا پتا چلائیں۔ اسی طرح اس کتاب میں اب کچھ باتوں کا ذکر ایک باب میں کیا جائے گا جبکہ ان کی وضاحت دوسرے باب میں دی جائے گی۔ اس طرح البیرونی نے کتاب کے باب تقسیم کیے۔ کتاب کے آغاز میں وہ ایک مسلمان مؤرخ کی حیثیت سے انڈین تہذیب پر تحقیق کرنے کے دوران پیش آنے والی مشکلات کا ذکر کرتے ہیں۔ پھر وہ خدا اور دینیات کے موضوع پر بات کرتے ہیں اور پھر جغرافیہ اور علم فلکیات کے بارے میں۔ اس کے بعد وہ وقت کی پیمائش اور ستاروں کی حرکت کے بارے میں لکھتے ہیں۔ اس کتاب کے اختتام پر وہ انڈین باشندوں کے رسم و رواج اور ان مذہبی و ثقافتی تہواروں کے حوالے سے بات کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ ان کے اوقات کا اندازہ کیسا لگایا جاتا ہے۔ تاریخ الہند ایک نہایت قیمتی کتاب ہے۔
1030 میں محمود غزنوی کی وفات نے ان کی قسمت بدل دی۔ ان کے بعد آنے والے حاکم، مسعود نے انھیں حکومت کا چیف ماہرِ فلکیات بنا دیا۔ وہ اب نہ صرف تاریخ الہند مکمل کر سکتے تھے بلکہ اس سے بھی زیادہ مفصل کتاب یعنی القانون المسعودی لکھی اور اسے حاکم کے نام سے منسوب کیا۔ اس کتاب کو فلکی علوم میں خاصی اہمیت حاصل ہے۔
اپنی عمر کے آخری حصے میں بھی البیرونی کی توانائیاں کم نہ ہوئیں۔ انھوں نے 1036 میں 60 کے پیٹے میں کتابوں کی جامع فہرستیں تیار کیں۔ ان میں نویں صدی کے مسلمان فلسفی الرازی کی 180 کتابوں کی فہرست شامل ہے۔ انھوں نے اپنی 128 کتابوں کی بھی فہرست بنائی اور انھوں نے طب کی تاریخ کے بارے میں بھی ایک فہرست بنائی جن میں یونانی نسل کے معالجین کا ذکر ہے۔
اس تمام عرصے کے دوران البیرونی کا وقت کے ساتھ لگاؤ برقرار رہا۔ میں ایسے اساتذہ سے پڑھا ہوں جو البیرونی کے مداح تھے اور میں خود بھی ان کے کام سے بہت متاثر ہوا ہوں۔ ان کا کھلے ذہن کے ساتھ اس خیال سے متعلق سوچنا کہ کائنات میں سیارے سورج کے گرد گھومتے ہیں اگر اس حوالے سے بہتر ثبوت فراہم کیے جائیں۔ ان کا اس نتیجے پر پہنچنا کہ انڈیا کے متعدد حصے ایک موقع پر سمندر تلے تھے۔ ان کی جانب سے پنجاب میں نندانہ کے مقام سے کیے گئے مشاہدوں اور جیومیٹری پر عبور حاصل ہونے کے باعث زمین کے گھیر کی پیمائش ایک بڑی کامیابی تھی۔
سوویت یونین کا 1973 میں جاری کردہ ڈاک ٹکٹ جس پر البیرونی کا تصویری خاکہ موجود ہے
ان کی زمین کی حرکت اور اس کی رفتار کی درست پیمائش بھی ایک کارنامے سے کم نہیں تھا لیکن مجھے البیرونی سے متعلق جو چیز بہت پسند تھی وہ ان کا انسانی پہلو ہے۔ جیسے جب وہ سنسکرت سیکھنے میں دشواری سے متعلق بات کرتے ہیں، یا ان کی جانب سے یہ کہنا کہ آخر کار میں نے ایک ایسی کتاب کا عنوان پڑھا جس سے میرے تجسس میں اضافہ ہوا کیونکہ اس موضوع پر وہ چار دہائیوں سے کوئی کتاب ڈھونڈ رہے تھے۔
اس کے علاوہ اپنے والد کی جانب سے ان کی کتابیں پڑھنے کے بعد خوشی کا اظہار اور سائنس کے مخالفین پر تنقید۔ پھر وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ ایک لمبے عرصے تک بیمار رہنے کے بعد انھوں نے کیسے اپنے سائنسی عقائد ایک طرف رکھ کر نجومیوں سے قسمت کا حال معلوم کیا تھا اور پھر بعد میں نجومیوں کو ہی شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ یا جب وہ اس خواب کا ذکر کرتے ہیں جس میں وہ پہلے دن کا چاند دیکھتے ہیں تو انھیں آواز آتی ہے کہ ‘تم 170 مزید پہلے دن کے چاند دیکھو گے یعنی تم مزید 15 برس تک زندہ رہو گے۔میرے لیے اس انتہائی ذہین شخص کی آخری کتاب ان کی دانائی کی عکاس ہے جس میں وہ دواسازی اور علم الادویات سے متعلق بات کرتے ہیں۔ یہ البیرونی نے اس وقت لکھی جب ان بینائی کمزور ہو رہی تھی اور وہ ٹھیک سے سن بھی نہیں سکتے تھے۔ انھیں اس کتاب کو مکمل کرنے کے لیے ایک مددگار کی ضرورت پڑی لیکن پھر بھی یہ کتاب 800 صفحات پر محیط ہے۔
البیرونی کے مطابق دواسازی کا شعبہ دراصل بہترین ماہرین طب کی جانب سے وضع کردہ نسخوں کی بنیاد پر ادویات کو بہترین حالت میں تجربے کرنے کے بعد ان کی درست اقسام کا انتخاب کرنا ہے۔انھوں نے اس کتاب میں ایک ہزار سے زیادہ دواؤں کے نسخے لکھے، اس حوالے سے تقریباً 100 حوالے دیے اور وہ 20 زبانوں یا لحجوں پر محیط مواد کو تحقیق کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اب یہ میرے نزدیک ایک عالم کی پہچان ہے۔
(بشکریہ: بی بی سی اردو)