بی بی سی ریڈیو تھری کی خصوصی سیریز ’سنہرا اسلامی دور‘ کی اِس قسط میں لکھاری اور براڈ کاسٹر جم الخلیل ہمیں الخوارزمی کی بارے میں بتا رہے ہیں۔ محمد ابن موسیٰ الخوارزمی ایک فارسی ریاضی دان، ماہر فلکیات، نجومی، جغرافیہ نگار اور بغداد کے بیت الحکمت سے منسلک ایک سکالر تھے۔ اس دور میں بیت الحکمت سائنسی تحقیق اور تعلیم کا ایک معروف مرکز تھا اور سنہرے اسلامی دور کے بہترین دماغ یہاں جمع ہوتے تھے۔ الخوارزمی فارس میں 780 عیسوی کے آس پاس پیدا ہوئے اور وہ اُن پڑھے لکھے افراد میں شامل تھے جنھیں بیت الحکمت میں خلیفہ المامون کی رہنمائی میں کام کرنے کا موقع ملا جو خلیفہ ہارون الرشید کے بیٹے تھے۔ بی بی سی اردو نے ریڈیو پر نشر ہونے والی اس سیریز کا ترجمہ کیا ہے۔
’فرض کریں کہ ایک شخص بیماری کی حالت میں دو غلاموں کو آزاد کرتا ہے۔ اُن میں سے ایک غلام کی قیمت 300 درہم اور دوسرے کی 500 درہم ہوتی ہے۔ جس غلام کی قیمت 300 درہم تھی وہ کچھ عرصے میں وفات پا جاتا ہے اور اپنے ورثا میں صرف ایک بیٹی چھوڑتا ہے۔ پھر اُن غلاموں کا مالک بھی وفات پا جاتا ہے اور ان کی وارث بھی اُن کی اکلوتی بیٹی ہوتی ہے۔ وفات پانے والا غلام 400 درہم مالیت کی جائیداد چھوڑ ترکے میں چھوڑ جاتا ہے۔ تو اب ہر کسی کے حصے میں ترکے میں سے کتنا حصہ آئے گا؟‘
ریاضی کا یہ الجھا دینے والا سوال ایک ایسی کتاب سے لیا گیا ہے جو نویں صدی عیسوی کے آغاز میں لکھی گئی تھی۔ یہ مسئلہ دراصل ورثا میں جائیداد کی تقسیم سے متعلق رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ عربی زبان میں لکھی جانے والی اس کتاب کو دنیا بھر میں اس کے عنوان ’کتاب الجبر‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
اس کتاب کے مصنف ہی آج ہماری اس تحریر کا موضوع ہیں اور یہ قرونِ وسطیٰ میں متعدد مضامین پر عبور حاصل کرنے والے محمد ابن موسیٰ الخوارزمی تھے۔ ان کا نام میں نے پہلی مرتبہ تاریخ کے مضمون میں اُس وقت سنا تھا جب میں عراق میں ایک سکول میں زیر تعلیم تھا۔ وہ اس کتاب میں پہلی مرتبہ ’الجبرہ‘ کے موضوع پر لکھتے ہیں، یہ لفظ براہ راست اس کتاب کے عنوان سے لیا گیا ہے اور اسے ریاضی کے ایک ذیلی شعبے کا درجہ دیا گیا۔
خوارزمی دراصل 780 عیسوی کے قریب پیدا ہوئے اور جیسا کہ ان کے نام سے ظاہر ہے کہ اُن کا تعلق وسطی ایشیائی ملک ازبکستان کے ایک صوبے خوارزم سے تھا۔ ان کی زندگی سے متعلق ہمارے پاس بہت کم معلومات موجود ہیں لیکن ہمیں یہ ضرور معلوم ہے کہ وہ نویں صدی کے آغاز میں بغداد آئے تھے۔ اس وقت بغداد ایک وسیع اسلامی سلطنت کا دارالحکومت تھا جس پر طاقتور خلافتِ عباسیہ کی حکمرانی تھی۔
وہ خلیفہ المامون کے لیے کام کرتے تھے۔ خلیفہ مامون جو خود یونانی کتب کے عربی میں تراجم کروانے کے شیدائی اور تاریخ میں سائنسی علوم میں تحقیق اور ان کی اہمیت سمجھنے والی بڑی شخصیات میں سے ایک تھے۔
الخوارزمی خلیفہ کے بنائے گئے ’بیت الحکمت‘ میں کام کرتے تھے، جو ایک ایسا ادارہ تھا جو سننے میں بالکل فرضی معلوم ہوتا ہے۔ یہ ترجمے اور سائنسی علوم میں اصلی تحقیق کا مرکز تھا اور یہاں ایک ایسے دور کے عظیم دماغ جمع ہوتے تھے جنھیں عربی سائنس کا سنہری دور کہا جاتا ہے۔
عربی کا لفظ یہاں اس لیے استعمال کیا گیا ہے کیونکہ اس دور میں اکثر کتابیں عربی زبان میں لکھی جاتی تھیں کیونکہ یہ نہ صرف سلطنت کی سرکاری زبان تھی بلکہ مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن بھی اسی زبان میں نازل ہوئی تھی۔
ان سائنسی کتب میں متنوع سائنسی شعبوں کا احاطہ کیا گیا تھا جس میں فلسفہ، علم طب، ریاضی، علم بصریات اور علم فلکیات وغیرہ شامل ہیں۔ اس دور کی عظیم سائنسی کامیابیوں میں سے ہم کچھ ایسے کارناموں کا ذکر کریں گے جو الخوارزمی سے براہ راست منسلک تھے۔
نویں صدی کی دوسری دہائی میں خلیفہ المامون نے بغداد میں علمِ فلکیات پر تحقیق کے لیے رصدگاہیں بنوائیں۔ اس کے ایک، دو سال بعد یونانی علم فلکیات کے تنقیدی جائزے کا آغاز ہوا۔ اس دوران الخوارزمی کی سرپرستی میں متعدد محققین نے مل کر سورج اور چاند سے متعلق متعدد مشاہدے کیے۔
اس دوران ایک ہی مقام پر موجود 22 ستاروں کا طول الارض اور طول البلد کا ایک ٹیبل بنایا گیا۔ المامون نے اس دوران جبل قاسیون کی ڈھلوان پر ایک اور رصدگاہ تعمیر کرنے کا حکم دیا جہاں سے دمشق شہر صاف دکھائی دیتا تھا۔ اس رصدگاہ کی تعمیر کا مقصد اس حوالے سے مزید اعداد و شمار اکھٹے کرنا تھا۔ اس کام کے اختتام پر الخوارزمی اور ان کے ساتھی متعدد ستاروں کی محل وقوع سے متعلق اعدادوشمار کے ٹیبل بنا چکے تھے۔ ایک اور شاندار پراجیکٹ جو ان سکالرز کی جانب سے شروع کیا گیا وہ مزید بلند نظر تھا۔
یونانی ماہرِ فلکیات ٹونومی نے اپنی معروف کتاب ’دی جغرافیہ‘ میں دنیا بھر کے جغرافیے سے متعلق جو کچھ بھی موجود تھا وہ درج کیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ ان کے کام کا عربی ترجمہ ہی جغرافیہ میں اسلامی دنیا کی دلچسپی کا باعث بنا۔ المامون نے اپنے سکالرز کو دنیا کا نیا نقشہ بنانے کی ہدایت کی کیونکہ ٹونومی کی جانب سے بنائے گئے نقشے میں اہم اسلامی شہر جیسے مکہ یا دارالحکومت بغداد شامل نہیں تھے۔ ٹونومی کے دور میں مکہ کی اتنی اہمیت نہیں تھی اور بغداد اس وقت وجود میں ہی نہیں آیا تھا۔
الخوارزمی اور ان کے ساتھیوں نے ان دو شہروں کے درمیان فاصلے کو ناپنے کی ٹھانی۔ اس سلسلے میں انھوں نے چاند گرہن کے دوران پیمائش کی اور اعدادوشمار لیے۔
انھوں نے اس قدیم دور میں ان دونوں شہروں کے درمیان جو فاصلہ نکالا وہ موجودہ دور کے اعداد و شمار کے مقابلے میں دو فیصد سے بھی کم غلط تھا۔ انھوں نے پھر دیگر اہم مقامات کے وہ خطوط دوبارہ جاننے کی کوشش کی جن سے ان مقامات کے مرکزی نقطے کا مقام معلوم ہو سکے۔
مثال کے طور پر ان کے نقشے میں بحر اوقیانوس اور بحر ہند کو پانی کی کھلی گزرگاہوں کے طور پر دکھایا گیا نہ کہ زمین سے گھرے ہوئے سمندر، جیسا کہ ٹونومی نے اپنی کتاب میں بتایا تھا۔ الخوارزمی کی کتاب ’صورت الارض‘ یعنی دنیا کی تصویر کے باعث انھیں اسلام کے پہلے جغرافیہ نگار ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ یہ کتاب 833 عیسوی میں مکمل ہوئی۔ یہ خلیفہ المامون کی وفات کا سال بھی ہے۔ اس کتاب میں 500 شہروں کے طول الارض اور طول البلد کے ٹیبل موجود تھے۔ اس کتاب میں مختلف مقامات کو قصبوں، دریاؤں، پہاڑوں، سمندروں اور جزیروں میں تقسیم کیا گیا۔ ہر ٹیبل میں ان جگہوں کی ترتیب جنوب سے شمال کے حساب سے کی گئی تھی۔
تاہم یہ تمام کامیابیاں ان کی ریاضی کے شعبے میں کارناموں کے سامنے دھندلا جاتی ہیں۔ ان کی جانب سے ہندسوں و اعداد پر لکھے جانے والے مقالوں کے باعث مسلم دنیا میں نظام اعشاری (ڈیسیمل نمبر سسٹم) متعارف ہوا۔ ان کی کتاب ’الجم والتفریق بی الہند‘ کو ریاضی کے ذیلی شعبے میں خاصی اہمیت حاصل ہے۔ یہ کتاب 825 عیسوی کے قریب لکھی گئی تھی تاہم اس کا کوئی مستند عربی ترجمہ موجود نہیں ہے اور کتاب کا عنوان بھی صرف ایک اندازہ ہے۔ تاہم شاید یہ اعشاری نظام پر لکھی گئی وہ پہلی کتاب تھی جس کا لاطینی زبان میں ترجمہ کیا گیا۔ اس کا آغاز لاطینی زبان میں لکھے گئے ان الفاظ سے ہوتا ہے ’الخوارزمی نے کہا کہ۔۔۔‘
اس کتاب میں حساب سے متعلق مختلف ہدایات بتائی گئی ہیں اور یہیں سے لفظ ایلگورتھم کی اصطلاح وجود میں آئی جو دراصل الخوارزمی کو لاطینی میں بولنے کا طریقہ ہے۔ دراصل یہ اور اس سے قبل سامنے آنے والے الخوارزمی کے کام کے ترجمے کو یورپ میں تنقید کا نشانہ بنایا گیا، یہ وہ وقت تھا جب یورپ تاریک دور سے گزر رہا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ خوارزمی کے کام کو ’خطرناک‘ یا ’جادو‘ گردانا گیا تھا۔
ان کا عظیم ترین کام یقیناً ان کی الجبرہ سے متعلق کتاب تھی۔ الخوارزمی قدیم فارسی مذہب زوریسٹرین کے پیروکار تھے اور ہمارے خیال میں انھوں نے بعد میں اسلام قبول کیا۔ کتاب الجبر کے پہلے ہی صفحے پر وہ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم (شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے) درج ہے۔ آج بھی مسلمان لکھاریوں کی جانب سے لکھی جانے والی اکثر کتابیں اسی جملے سے شروع ہوتی ہیں۔
تاہم یہ بھی ہو سکتا ہے کہ الخوارزمی نے روایت کا پاس رکھتے ہوئے یہ لکھا ہو کیونکہ وہ ایسے مسلمان خلیفہ کو ناراض نہ کرنا چاہتے ہوں جن کی انھیں بھرپور حمایت حاصل تھی۔ اس کتاب میں الخوارزمی نے ریاضی کے ایسے غیر واضح قواعد کو یکجا کیا جن کے بارے میں صرف چند افراد کو ہی معلوم تھا۔ اس کے بعد انھوں نے ان قواعد کو ایک ہدایات نامے کی شکل دی جس کے ذریعے روز مرہ کے مسائل کا حل نکالا جا سکتا ہے جیسے وراثت، تجارت اور زراعت جیسے شعبے۔
یہاں الخوارزمی کے بعد آنے والے مسلمان ریاضی دانوں کی تعریف کرنا بھی ضروری ہے جنھوں نے ان کے کام کی تشہیر بھی کی اور یورپ پر ان کے کام کے باعث ہونے والے اثر کے بعد اس کے مستند ہونے کے بارے میں ثبوت بھی پیش کیے۔ ان کی کتاب کا 12 صدی میں لاطینی زبان میں دو مرتبہ ترجمہ کیا گیا۔ ایک دفعہ برطانیہ کے رابرٹ اوچیسٹر کی جانب سے اور ایک مرتبہ اٹلی کے جیرارڈ آف کریمونا کی جانب سے۔
ان کے کام کے بارے میں فباناچی بھی جانتے تھے جو بلاشبہ قرونِ وسطیٰ کے عظیم ترین ریاضی دان تھے۔ انھوں نے اپنی معروف کتاب ‘’لیبر آباچی‘ میں بھی الخوارزمی کے کام کا حوالہ دیا ہے۔ یہاں ہمیں اس حوالے سے محتاط ہونے کی ضرورت ہے کہ ہم ریاضی کا ایک شعبہ ایجاد کرنے کا سہرا الخوارزمی کے سر نہ رکھ بیٹھیں، صرف اس لیے کہ اس کے لیے جو نام ہم آج استعمال کرتے ہیں ’الجبرہ‘ وہ الخوارزمی کی کتاب کے نام سے وجود میں آیا۔
مثال کے طور پر اس حوالے سے شواہد موجود ہیں کہ یونانی اور بابلی ریاضی دان الخوارزمی سے بہت پہلے ’الجبرائک اکویشنز‘ حل کر رہے تھے۔ اس کے علاوہ ان سے قبل عظیم یونانی ریاضی دان ڈایافینٹس اور ہندو ریاضی دان براہماگپتا بھی اس حوالے سے کام کر چکے ہیں۔ کیا اس ذیلی شعبے کا عنوان ان کی کتابوں سے منسوب نہیں کیا جا سکتا تھا؟ میرے نزدیک نہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ الخوارزی کا مؤقف تھا کہ ان کی کتاب ایک ہدایت نامہ تھا جس کے مطابق اعداد و شمار میں تبدیلی الجبرہ کے ذریعے کی جا سکتی تھی۔ تاہم ان کا مقصد اس سے بڑا تھا۔ انھوں نے وضاحت کی تھی کہ ان کی کتاب کا مقصد وہ بتانا ہے جو ارتھمیٹکس میں سب سے آسان اور مفید ہے، جیسے مردوں کو وراثت تقسیم کرنے کے عمل میں عدالتی نظام کا سامنا، تجارت، جائیدادوں کی تقسیم کی ضرورت پڑتی ہے۔
اس کے علاوہ ان کے آپس کے لین دین جہاں زمین کی پیمائش، نہروں کی کھدائی، جیومیٹرک کمپیوٹیشن، اور اس طرح کے دیگر مسائل جن میں ریاضی کی ضرورت پڑے۔ کتاب الجبر کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ بطور تھیوریٹیکل فزسسٹ پہلے حصے میں میرے لیے انتہائی دلچسپ مواد موجود ہے کیونکہ یہاں الِخوارزمی الجبرہ کے قواعد وضع کرتے ہیں۔ اور سوال حل کرنے کے مراحل اور مختلف اکویشنز کا حل نکالنے کے لیے مختلف ایلگورتھمز کا استعمال کرتے ہیں۔ ہر ایک اکویشن کے ساتھ ان کے جواب کا تصویری ثبوت موجود ہے۔
کتاب کے دوسرے حصے میں ان کے طریقوں کے استعمال کے بارے میں لکھا ہے جس کے ذریعے وہ روز مرہ کے مسائل کا حل ڈھونڈتے ہیں جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے۔ تاہم یہ کتاب الجبرہ پر آج ملنے والی کتابوں سے بہت مختلف ہے۔ اپنی کتاب کے صفحات کو علامات اور اکوینشز سے بھرنے کے بجائے انھوں نے انتہائی عام فہم زبان میں یہ سب کچھ بیان کیا۔
اس سے یہ ضرور ہوا کہ جو بات الجبرہ کی علامات کے ذریعے دو لائنز میں بتائی جا سکتی تھیں وہ دو صفحات پر مبنی وضاحت کے ذریعے بتائی گئی۔ اگر میں آپ کو یہ بتاؤں کے الخوارزمی سے بہت پہلے ڈایافینٹس اور ہندو ریاضی دان بنیادی علامات کے ذریعے اپنی اکویشنز کی وضاحت کر رہے تھے، کہ الخوارزمی اور ان کا الجبرہ کواڈریٹک اکویشنز سے آگے نہیں بڑھ سکا، کہ ڈایافینٹس نے زیادہ پیچید مسائل کا حل تلاش کیا، اور الخوارزمی کے الجبرہ کے سوالات حل کرنے کے طریقے بھی پرانے تھے، جیسے ‘کپلیٹنگ دی سکوائر کو حل کرنے کا طریقہ تو پھر ان کی حمایت میں دیے جانے والے دلائل ماند پڑ جاتے ہیں۔
اس سے یہ ضرور ہوا کہ جو بات الجبرہ کی علامات کے ذریعے دو لائنز میں بتائی جا سکتی تھیں وہ دو صفحات پر مبنی وضاحت کے ذریعے بتائی گئی۔ اگر میں آپ کو یہ بتاؤں کے الخوارزمی سے بہت پہلے ڈایافینٹس اور ہندو ریاضی دان بنیادی علامات کے ذریعے اپنی اکویشنز کی وضاحت کر رہے تھے، کہ الخوارزمی اور ان کا الجبرہ کواڈریٹک اکویشنز سے آگے نہیں بڑھ سکا، کہ ڈایافینٹس نے زیادہ پیچید مسائل کا حل تلاش کیا، اور الخوارزمی کے الجبرہ کے سوالات حل کرنے کے طریقے بھی پرانے تھے، جیسے ‘کپلیٹنگ دی سکوائر کو حل کرنے کا طریقہ تو پھر ان کی حمایت میں دیے جانے والے دلائل ماند پڑ جاتے ہیں۔
میں نے یہ دلیل بھی سُن رکھی ہے کہ الخوارزمی کے مقبول ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ان کی کتاب کے باعث الجبرہ کی مشہوری ہوئی کیونکہ انھوں نے اسے اتنا عام فہم کر دیا تھا کہ متعدد افراد اس کا استعمال کر سکتے تھے۔ تاہم یہ ایک کمزور دلیل ہے۔ ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ جدید دور کے نامور سائنسدان سٹیفن ہاکنگز کی شہرت کی وجہ ان کی کتاب ’اے بریف ہسٹری آف ٹائم‘ ہے نہ کہ ان کی کوزمولوجی میں اہم تحقیق اور بلیک ہولز سے متعلق ان کی تھیوریز۔ اس سب کے برعکس اس بحث میں یہ باتیں اہم نہیں ہے کہ کس نے علامات کا استعمال کیا، یا کیا کوئی جیمویٹرک ثبوت تھے، یہ اکویشنز کتنی پیچیدہ تھیں اور کیا ان کی لکھائی عام لوگوں تک پہنچی یا نہیں۔
تاہم الخوارزمی نے جو کام پہلی مرتبہ کیا اور جس کے باعث وہ منفرد نظر آتے ہیں وہ بظاہر ایک چھوٹی سی بات ہے مگر انتہائی اہم ہے۔ وہ یہ ہے کہ الخوارزمی مخصوص سوالات حل کرنے کی بجائے عام فہم قواعد سامنے لائے ہیں جن کے ذریعے ان کا حل نکالا جا سکتا ہے اور اسی طرح اکویشنز کو مرحلہ وار طریقے سے حل کرنا یعنی ایلگورتھم کے ذریعے۔
اس طرح الخوارزمی نے یقینی بنایا کہ الجبرہ کو بطور ایک علیحدہ مضمون دیکھا جا سکے نہ کہ اعداد وشمار میں تبدیلی کی ایک تکنیک۔یہ ویسے ہی ہے کہ ایک طرف آپ مخصوص مثالیں دے کر یہ بات قارئین پر چھوڑ دیتے ہیں کہ وہ اس حوالے سے کوئی نتیجہ اخذ کریں گے کہ یہی مرحلے کہ وہ دیگر مسائل کا حل بھی نکال سکتے ہیں جبکہ دوسری طرف الخوارزمی نے اس مرحلے کی عام فہم زبان میں وضاحت کر دی۔ وہ بعد میں بے شک مخصوص اعداد کے ذریعے اس کی وضاحت کرتے ہیں لیکن جن مرحلوں سے وہ اس کا حل نکالتے ہیں اسے عام فہم سمجھا جاتا ہے۔
حالانکہ الخوارزمی نے علامات کی بجائے لفظوں کا استعمال کرتے ہوئے الجبرہ سمجھایا، جو ڈایا فینٹس ان سے پہلے کر چکے تھے، لیکن الخوارزمی کا الجبرہ آج استعمال ہونے والے الجبرہ سے بہت قریب ہے۔ الخوارزمی 858 میں وفات پا گئے لیکن ان کی مقام اس ریاضی دان کا ہے جنھوں نے ارتھمیٹکس اور جیومیٹری کی موجودگی میں ریاضی کا ذیلی شعبہ متعارف کروایا۔
دنیائے سائنس کے عظیم مؤرخ جارج سارٹن متعدد جلدوں پر محیط کتاب ’دی انٹروڈکشن ٹو سائنس‘ لکھنے کے باعث مقبول ہیں۔ اس کتاب میں وہ سائنس کی تاریخ کو متعدد حصوں میں تقسیم کرتے ہیں اور ہر حصہ آدھی صدی پر محیط ہوتا ہے جس کا عنوان اس عرصے کے سب سے اہم سائنسدان کے نام سے منسوب ہوتا ہے۔ اس میں 800 سے 850 عیسوی تک کے عرصے کا عنوان ہے ’دورِ الخوارزمی۔‘
(بشکریہ: بی بی سی اردو)