تحریر:عبداللہ عثمانی، دیوبند
دیارِ شعرو ادب میں جو امتیاز غالب کو حاصل ہے وہ کم اُدباء کے حصے میں آیا، حسنِ غزل ہو یا مشاطگیٔ نثر دونوںاصناف میںغالب کا چمکتا اور نکھرتا فن پوری طرح عیاںہے۔ پروفیسر آل احمد سرور مرحوم کا یہ کہنا کہ:’’اردو میں پہلی بھرپور اور رنگا رنگ شخصیت غالب کی ہے، ان سے پہلے کئی شاعروں کی شخصیت قابل توجہ ہے مگر کسی میں اتنی رعنائی اور رنگینی نہیں‘‘ احقر کئی جگہ نقل کرچکا ہے اور اس حقیقت سے انکار بھی نہیں کیا جاسکتا کہ غالبؔ نے اردو کو بلاشبہ دنیا کے بلند پایہ ادب میںشمار کرایا۔
اس سے قبل راقم الحروف غالب کے مختلف ادبی پہلوئوں پر تقریباً دو درجن تحقیقی مضامین زیرِ قلم لاچکا ہے۔ آج ہم اردو ادب میں غالب کی عظمت پر اجمالی گفتگو کریںگے۔
مرزا اسد اللہ خاں غالب (27؍دسمبر 1797ء تا15؍فروری1869ء) افق شعر و شخن پر اُس درخشاں ماہتاب کی مانند ہیں جس کی روشنی میں لاکھوں ادیبوں نے نہ صرف اپنا ادبی سفر طے کیا بلکہ اردوکو بے پناہ مقبولیت سے ہمکنار کیا۔ غالب نے اپنے فن و فکر میں انسانی معاشرے کو ہر زاوئیے سے بیان کیا ہے، وہ جب محبوب سے عشقیہ باتیں کرتے ہیں تو عشق و محبت کے سارے ساز چھیڑ دیتے ہیں اور جب انسان کی بے کسی اور مجبوری کا ذکر کرتے ہیں تو دل و زبان سے آہ نکل جاتی ہے، جب خالق دو جہاں کی عظمت بیان کرتے ہیں تو ولی اللہ بن جاتے ہیں اور جب بشری کمزوریوں کو بیان کرتے ہیں تو سراپائے عجز و انکسار نظر آتے ہیں، غرض ادب کو زندگی کا سچا آئینہ غالب نے دکھایا۔ لہٰذا ادبی دنیا میں غالب کانام بہت عظمت کا حامل ہے۔
غالبؔ کا شوق زبان و ادب بہت بلندتھا جس کا زندہ ثبوت عود ہندی، اردوئے معلی ہیں، انہوںنے اردو میں منفرد طرز و ادا کی طرح ڈالی، جس کی تقلید شبلی و حالی کے علاوہ متعدد اساتذۂ اردو نے اختیار کی۔ علاوہ ازیں غالب کے شعری سرمایہ نے اہل ادب کو حیرت میںڈال دیا،مثلاً نامور محقق اور نوجوان ادیب ڈاکٹر عبدالرحمن بجنوری مرحوم نے غالب کی شاعری کو آسمانی کلام سے تعبیر کیا۔ ڈاکٹر بجنوری نے وید اور دیوانِ غالب کو الہامی کہا ہے۔ بہرکیف غالب ہر عہد کی آواز ہیں، ان کے فن و فکر میں اتنی وسعتیں شامل ہیں جو نہ صرف مکمل سماج کا آئینہ ہیں نیز انسانی افکار و خیالات کا بھی کھلا مظہر ہیں۔ محترم عبدالمالک آروی نے نے ایک طویل مضمون میں غالب کے بارے میں ایک جگہ لکھا ہے کہ:
’’غالب کی شاعری میںتصور، آہنگ اور ادا کی اتنی وسعتیں ہیں کہ اس کے مطالعے سے فلسفی، ادیب، مصور، فنکار سبھی متاثر ہوتے ہیں اور شاعری کی شخصیت ان کی روح و جسم خیال و نظر پر یکساں چھا جاتی ہے۔ حالی و بجنوری، چغتائی و طباطبائی، بیخود و آسی کی کاوشیں ہمیں غالبؔ کی ہمہ گیری کا یقین دلاتی ہیں۔‘‘
غالبؔ کے ہاں نادر سے نادر مضامین ملتے ہیں، ان کی آہ میں ایک مادۂ آتشیں اور ان کے شکوہ میں ایک خودداری ہوتی ہے:
زندگی اپنی جب اس شکل سے گزری غالبؔ
ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھے
شوخ خیال اور رنیگن مزاجی بھی نہایت منفرد ہے:
لے تو لوں سوتے میں اس کے پائوں کا بوسہ مگر
ایسی باتوں سے وہ کافر بدگماں ہوجائے گا
باوجود آزاد منش غالب کے بعض اشعار میںانسانی جذبات اور احساسات کے وہ نقوش ملتے ہیں جو ’’خداداد‘‘ کہے جاسکتے ہیں، جن کی فہم و فکر ہمیں حیران و استعجاب میں ڈالتی ہے، مثلاً:
نیند اس کی ہے دماغ اس کا ہے، راتیں اس کی ہیں
تیری زلفیں جس کے بازو پر پشیمان ہوگئیں
ان کے دیکھے سے جو آجاتی ہے منھ پر رونق
وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے
غالبؔ کی سرشت میں نہ تصوف ہے اور نہ فلسفہ، وہ نہ صوفی تھے اور نہ ہی فلسفی۔ ان کی مقبولیت کا راز دراصل ان کی داخلی کیفیات کی مصوری، رنگینی جذبات کی تصویر سازی، نفس انسانی کی صدا اور قلب انسانی کی دھڑکنیں ہیں جس کو انہوںنے اپنے منتخب الفاظ کے پیکر میں پیش کیا ہے۔
کیوں گردش مدام سے گھبرا نہ جائے دل
انسان ہوں پیالہ و ساغر نہیں ہوں میں
کم جانتے تھے ہم بھی غم عشق کو پر اب
دیکھا تو کم ہوئے یہ غم روزگار تھا
بس کہ دشوار ہے ہر کام کا آسان ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انسان ہونا
بلاشبہ غالبؔ دنیائے ادب کے ممتاز و معروف فرد ہیں، ان کے ادبی سرمایہ میں نہ صرف منظومات کا بے نظیر ذخیرہ موجود ہے بکہ اردو نثر کے حوالے سے بھی قیمتی گنجینہ دستیاب ہے۔ شعر و ادب کے حوالے سے مرزا سدابہار شخصیت کے حامل ہیں۔ اردو زبان کے اس محسنِ اعظم کو کبھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ان کی غزلوں کی مقبولیت ہندوستان کی سرحدوں سے نکل کر برصغیر کے صحرائوں اور امریکہ وغیرہ ممالک کے ساحلوں تک پہنچ گئی ہے۔ حسرتؔ موہانی نے شرح دیوان غالب کی تمہید میں ایک جگہ لکھا ہے کہ:
’’لاریب مرزا نے بعض بعض اشعار کے اجمال میں سلسلۂ خیالات و جذبات کی ایسی تفصیل بیان کی ہے کہ جس کی تشریح کرنے کے لئے دفتر بھی ناکافی ثابت ہوں عجیب نہیں۔‘‘
بہرکیف غالبؔ کی شاعری میں وہ لطف و کرب موجزن ہے جس کی قدر نہ صرف ان کے عہد میں تھی بلکہ جب تک ادب و زبان باقی ہے اس کو دوام حاصل رہے گا:
جہاں تیرا نقش قدم دیکھتے ہیں
خیاباں خیاباں اِرم دیکھتے ہیں
دل آشفتگان خال کنج دہن کے
سویدا میں سیر عدم دیکھتے ہیں
تیرے سر و قامت سے اک قد آدم
قیامت کے فتنے کو کم دیکھتے ہیں
تماشا کر اے محو آئینہ داری
تجھے کس تمنا سے ہم دیکھتے ہیں
سراغِ تفِ نالۂ داغ دل ہے
کہ شب روز کا نقشِ قدم دیکھتے ہیں
بنا کہ فقیروں کا ہم بھیس غالب
تماشائے اہل کرم دیکھتے ہیں
مرزا اپنے طرزِ بیان اور کشادگیٔ فکر کے خود موجد ہیں،ا نہوں نے متقدمین کی تقلید نہیں کی، غالب نے شاعری کے دائرے کو قدامت کے پردے سے باہر نکالا، نتیجتاً بالکل نئے اور اچھوتے مضامین پر جن کو اب تک کسی شاعر نے پیش نہیں کیا تھا اپنے تغزل کی بنیاد رکھی:
بس کہ روکا میں نے اور سینہ میں ابھریں پے بہ پے
میری آہیں بخیۂ چاک گریباں ہوگئیں
آئینہ دیکھ اپنا سا منھ لے کے رہ گئے
صاحب کو دل نہ دینے پہ کتنا غرور تھا
آہ کو چاہئے اک عمر اثر ہوئے تک
کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک
کس سے محرومیٔ قسمت کی شکایت کیجئے
ہم نے چاہا تھا کہ مر جائیں سو وہ بھی نہ ہوا