دوٹوک:قاسم سید
مشرق وسطی انگڑائی لے رہا ہے ، فلسطین پر اسرائیل کی چڑھائی اور بے دریغ قتل عام (نسل کشی )کے باوجود حماس کو زیر کرنے میں اسرائیل اور اس عرب،یورپی اتحادیوں کی ناکامی اور خطے میں موجود حزب اللہ و دیگر مزاحمتی محوروں کے جنگ کو وسیع تر کردینے کی صلاحیتوں نے عرب قیادت کو سراسیمہ کردیا ـ چنانچہ اپنے چہرے کی کالک پونچھنے اور انگلی کٹاکر شہیدوں کی فہرست میں نام لکھانے کی عجلت کے تحت عرب ومسلم ممالک کا سربراہی اجلاس ریاض میں بلایا گیاـ اس اجلاس کا لب ولہجہ پہلے کے مقابلہ میں سخت صاف اور پختہ نظر آیا جو قراردادیں منظور ہوئیں وہ رسم ادائیگی سے کہیں بڑھ کر تھیں ـحماس کی غیر معمولی قوت مزاحمت اور مزاحمتی گروہوں کی فلسطینی کاز کے لیے جان ومال کی قربانیوں نے عربوں کو غیرت دلادی یہ کہنا تو مشکل ہے کیونکہ ان کی چمڑی بہت موٹی ہوچکی ہے لیکن شاید اب وہ وقت آگیا ہے کہ امریکہ میں اقتدار کی تبدیلی کے بعد عربوں اور خاص کر سعودی عرب کو یہ طے کرنا پڑے گا کہ ان کو اسرائیل اور ایران میں سے کس کو دوست اور کس کو دشمن ماننا ہے ـ کون ان کے لئے بڑا خطرہ ہے طاقتور اسرائیل یا جوہری صلاحیت والا ایران؟ان میں میں کس پر بھروسہ کرسکتے ہیں اور یہ دیکھا گیا کہ انہوں نے کس کو منتخب کرنے کا اشارہ دیا ہے ـسعودی ولی عہد نے جس لب ولہجہ کے ساتھ مغرب کو خطاب کرتے ہوئے ایران کی بھرپور حمایت کی اس سے یقیناً بہتوں کے کان کھڑے ہوگئے ہوں گے ـسعودی ـ ایران کے درمیان چین کی ٹالثی سے تجدید تعلقات کے باوجود شک وشبہ اور عدم اعتماد کی کھڑکیوں سے بدظنی کیے جھونکے آتے رہے ـ اب سوال یہ ہے کہ کیا مشرق وسطی میں طاقت کا نیا کھیل شروع ہوگیا ہے،سعودی عرب اور ایران میں کوئی نئی کھچڑی پک رہی ہے ،کیا دونوں اصل دشمن سے مقابلہ کے لئے ایک پیج پر آنے میں مخلص ہیں ؟ کیا اسرائیل کی سازشوں کی بو سونگھنے کی حس نے عربوں کے ہوش ٹھکانے لگا دئے ہیں؟ اورکیا ٹرمپ ہر دباؤ بنانے کی کوئی چال ہے حالانکہ ٹرمپ ایسا انسان ہے کہ وہ کب کیا کر بیٹھے کوئی بھروسہ نہیں اب تک انہوں نے اپنی ٹیم کے جن ارکان کے ناموں کا اعلان کیا ہے بیشتر اسرائیل کے کٹر حامی ہیں ـ ان سوالوں کا جواب تلاش کرتے ہیں یہ خیال کرتے ہویےکہ آج کا مشرق وسطیٰ چار سال پہلے کے اس مشرقِ وسطیٰ سے بہت مختلف ہے جب ٹرمپ وائٹ ہاؤس کو چھوڑ کر گئے تھے.ریاض کانفرنس سے پہلے ہی ایران اور سعودی عرب کے درمیان اشتراک و تعاون کے طاقتور اشارے ملنے لگے تھے کہ بہت کچھ الٹ پلٹ ہورہا ہے جو خطے کی سیاست اور ڈپلومیسی کو نیا رخ دے سکتا ہے اسرائیل کو تسلیم کرنے اور سفارتی تعلقات کے لئے تیزی دکھانے والا سعودی عرب مسلم دنیا میں دسوائی کا سامان کررہا تھا جبکہ ایران اسرائیل سے ٹکر لینے اور مزاحمتی محوروں کی پشت پناہی کی وجہ مسلم دنیا کے عوام میں اپنے نمبر بڑھایا تھا اسی لئے پہلی بار سعودی عرب نے اسرائیلی کارروائیوں کر نسل کشی قراردادیا ـ ادھر ولی عہد ریاض میں ایران کی خود مختاری کا احترام کرنے کے ساتھ اسرائیل کو ایران ہر حملوں کے خلاف خبردار کررہے تھے ،لبنان اور فلسطین میں جارحیت کی سخت مذمت کررہے تھے، تہران میں سعودی عرب کے آرمی چیف فیاض بن حامد الرویلی ایرانی ہم منصب میجر جنرل محمد باقری سے ملاقات کررہے تھے ، دفاع سے متعلق امور پر تبادلہ خیال کیا جارہا تھا۔ مشرق وسطیٰ کے حالات کے پس منظر میں اس بریک تھرو کو انتہائی اہم قرار دیا جا رہا ہے۔ ایران اور سعودی عرب نے باہمی عسکری اور دفاعی شعبوں میں تعاون ہر اتفاق کیا ـ سعودی وزارت دفاع کے مطابق ملاقات میں دونوں ملکوں نے عسکری اور دفاع کے شعبوں میں تعاون بڑھانے، سکیورٹی تعاون کو مضبوط بنانے اور خطے کے استحکام پر بات چیت کی ہے۔سعودی جنرل کا دورہ تہران بدلتے ہوئے علاقائی حالات اور سعودی ـ ایران تعلقات میں بہتری کا اشارہ ہے۔ ایران کی طرف سے بحری مشقوں میں شرکت کی دعوت علاقائی استحکام اور نئے امکانات کی خبر دے رہی ہے۔یہی نہیں ریاض کانفرنس کے موقع پر ایران کے صدر ہزشکیان نے محمد بن سلمان کو فون کرکے بات کی.دلچسپ بات یہ ہے کہ اسرائیل نےحال ہی میں دعوی کیا تھا کہ علاقائی سلامتی کے لئے بحیرہ احمر میں امریکہ کی سربراہی میں ایک اتحاد بنایا ہے جس میں اس کے علاوہ اردن،مصراور سعودی عرب شامل ہوں گے اس کا مقصد اسٹریٹجک اثاثوں کو ایرانی خطروں سے بچانا ہے ـ.اس بارے میں سعودی کو وضاحت تو کرنی ہوگی کہ کیا وہ ڈبل گیم کھیل رہا ہے کیونکہ ٹرمپ اسرائیل کا حامی ہے اور ایران ہر سخت موقف رکھتا ہے اگر ایساہی ہونے جارہا ہےتو عرب ملکوں خاص کر سعودی عرب کو عملاً دکھانا ہوگا کہ انہیں ایران کا ساتھ چاہئے یا فوجی کشیدگی میں غیر جانبدار رہیں گے مگر اس غیرجانبداری کی بھاری قیمت چکانی یوگی ـ لگ تو یہی رہا ہے کہ سعودی عرب کھل کر اسرائیل کے خلاف اور ایران کے حق میں اتر آیا ہے.اور محمد بن سلمان ایران کے خلاف محاذآرائی میں اسرائیل یا امریکہ کے پیروں میں مزید نہ بیٹھنے کا فیصلہ کر چکے ہیں ـ وہ اسرائیل کی بڑھتی طاقت سے بھی پریشاں ہیں ـ سنی مسلم اکثریتی سعودی عرب اور شیعہ اکثریتی ایران اتحاد بین مسلمین کاز کو تقویت دینے کے ساتھ کرہ ارض مشرق وسطی کی تقدیر بدلنے کی صلاحیت اور طاقت رکھتے ہیں ـکاش کہ یہ خواب حقیقت میں بدل جائے.