ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی
بیرونی اثرات اور داخلی کم زوریوں کی وجہ سے مسلمانوں کے خاندان بھی انتشار ، ابتری اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں ۔ نکاح ہونے کے بعد جلد ہی تنازعات شروع ہوجاتے ہیں ، جو بسا اوقات علیٰحدگی تک جا پہنچتے ہیں ۔ جماعت اسلامی ہند نے اس مسئلے کے حل کے لیے دو پروگرام بنائے ہیں : ایک ازدواجی تفہیمی کورس ، جس سے ان نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو گزارا جاتا ہے جن کا نکاح ہونے والا ہے ، یا ابھی حال میں ہوگیا ہو _ اس کورس میں اسلام کے عائلی نظام سے متعلق تمام موضوعات شامل کیے گئے ہیں۔ دوسرا خاندانی مفاہمتی مرکز _ اس کے تحت نکاح کے بعد افرادِ خاندان کے درمیان پیدا ہونے والے تنازعات کو حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جماعت وقتاً فوقتاً ما قبل نکاح والے کورس پر مبنی پروگرام منعقد کرتی ہے اور کونسلنگ مراکز چلانے والوں کی تربیت کے ورکشاپس بھی منعقد کرتی ہے _۔
مغربی بنگال میں جماعت کے اس پروگرام کے تحت پچاس سے زائد فیملی کونسلنگ سینٹرز چلائے جا رہے ہیں ۔ کونسلرس کی ٹریننگ کے لیے دو روزہ ورکشاپ 21-22 اگست 2021 کو کلکتہ میں منعقد ہوا ، جس میں مرکز جماعت کی طرف راقم اور برادر عتیق الرحمٰن اسسٹنٹ سکریٹری شعبۂ ایچ آر ڈی شریک ہوئے۔ افتتاحی پروگرام میں کلیدی خطاب میرے ذمہ تھا، _ میں نے درج ذیل نکات میں گفتگو کی :
(1) اسلام پر کیے جانے والے اعتراضات میں سے ایک بڑا اعتراض اس میں عورت کی حیثیت اور حقوق پر ہے ، لیکن یہ اسلام کے نظامِ معاشرت کو نہ سمجھنے کی وجہ سے ہے۔
(2) اسلام نے اخروی اجر کے معاملے میں مرد اور عورت کے درمیان مساوات رکھی ہے کوئی بھی شخص ، چاہے وہ مرد ہو یا عورت ، نیک اعمال کرے گا تو اللہ کے انعام سے بہرہ ور ہوگا اور بُرے اعمال کرے گا تو اس کی سزا جھیلے گا ۔
(3) لوگ مساوات کو یکسانیت کے مترادف سمجھتے ہیں ان کا خیال ہے کہ مرد اور عورت کے درمیان مساوات اس وقت ثابت ہوگی ،جب عورت مردوں جیسے کام کرنے لگے، اسلام اس کا قائل نہیں ہے ۔
(4) اسلام کے نزدیک مرد اور عورت دونوں کا دائرۂ کار الگ الگ ہے _ اس کی مثال یوں دی جاسکتی ہے کہ ایک کمپنی میں کچھ ملازمین اندرونی کام (پروڈکشن) کرتے ہیں اور کچھ بیرونی کام (مارکیٹنگ) اسی طرح اسلام نے عورت کو اندرونِ خانہ کام (بچوں کی پیدائش و پرورش) پر لگایا ہے اور مرد کے حوالے بیرونِ خانہ کام ( مصارفِ زندگی کی فراہمی) کیے ہیں۔ (5) اسلام نے مردوں اور عورتوں دونوں کے حقوق و فرائض بیان کردیے ہیں _ نظامِ خاندان میں بیوی کو شوہر کی اطاعت کا حکم دیا ہے اور شوہر کو بیوی بچوں کی نگرانی کرنے ، ان کی ضروریات پوری کرنے اور انہیں تحفّظ فراہم کرنے کی تاکید کی ہے ۔
(6) نظامِ خاندان میں اسلام نے خاص طور سے مردوں کو حکم دیا ہے کہ وہ عورتوں کے ساتھ اچھا بتاؤ کریں ، اگر ان کی طرف سے ناگواری کی کوئی بات ظاہر ہو تو بھی برداشت کریں اور ان کی دیگر خوبیوں پر نظر رکھیں۔ (7) اسلام نے عورت کو معاش کی ذمے داری سے مستثنیٰ رکھا ہے ، لیکن وقت ضرورت وہ گھر سے باہر جاسکتی ہے اور حدودِ شرع میں رہتے ہوئے ملازمت یا تجارت کرسکتی ہے ۔
(8) اگر خاندان میں تنازعات سر ابھارنے لگیں تو اسلام حکم دیتا ہے کہ ابتدا میں زوجین خود انہیں حل کرنے کی کوشش کریں ، وہ کام یاب نہ ہو سکیں تو دونوں کے اہلِ خاندان آگے بڑھیں _ اگر وہ اصلاح چاہیں گے تو اللہ انہیں اس کی توفیق دے گا ۔
(9) اگر صلح و موافقت کی کوئی صورت دکھائی نہ دے تو اسلام اجازت دیتا ہے کہ وہ طلاق یا خلع کے ذریعے علیٰحدہ ہوجائیں، _ اس صورت میں پسندیدہ طریقہ یہ ہے کہ شوہر صرف ایک طلاق دے ۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ عدت کے دوران وہ رجوع کرسکتا ہے اور عدت پوری ہوجائے تو بعد میں بھی دونوں کا نکاح ہوسکتا ہے۔ _ بعض لوگ ایک سانس میں تین طلاق دے کر خود کو ان سہولیات سے محروم کرلیتے ہیں جو شریعت میں انہیں دی گئی ہیں۔
(10) وراثت میں اسلام نے مردوں اور عورتوں دونوں کا حصہ متعین کیا ہے اور تاکید کی ہے کہ چاہے مالِ وراثت کم ہو یا زیادہ ، اس میں تمام حصہ داروں کا حصہ اس میں لگایا جائے _۔
راقم سطور کا ایک کتابچہ2017 میں ’قرآن مجید کی عائلی تعلیمات‘ کے نام سے مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی سے شائع ہوا تھا _ اس میں ان نکات سے بحث کی گئی ہے۔ _ اس کا ہندی ترجمہ بھی طبع ہوا تھا _ جو حضرات اس کی پی ڈی ایف چاہتے ہوں وہ وہاٹس ایپ نمبر (9582050234_91+) پر رجوع کریں _۔