تحریر:عبد السلام عاصم
دو آدمی لڑ رہے ہوں تو انہیں الگ کرنے کیلئے جسمانی مداخلت کرنے والا خود بھی زخمی ہو سکتا ہے۔ اگر دونوں کے تھکنے کا انتظار کیا جائے تو اُن میں سے کوئی زندگی ہار سکتا ہے۔ نصیحت دونوں میں سے کوئی سُننے کو تیار نہیں۔ اختلاف کی نوعیت ایسی ہے جس کی علمی تفہیم نہیں کی جا سکتی۔ بدقسمتی سے وطن عزیز کو اجتماعی طور پرکچھ اسی طرح کے حالات کا سامنا ہے، جسے راتوں رات کسی طور نہیں بدلا جا سکتا۔ زیادتی، مذمت، احتجاج اور ازالے کا کورس پورا ہوتے ہوتے پہلے جہاں صدیاں گزرتی تھیں، وہیں اب زمانے کی رفتار میں تیزی آ جانے سے تھوڑا کم وقت لگتا ہے، پھر بھی بے قابو حالات کی شدت پر قابو پانے میں دہائیاں لگ سکتی ہیں۔ ممکن ہے کہ ہم سبھی ایسی کسی تبدلی کے ناظر نہ ہوں لیکن یہ ضرور طے ہے کہ ہر عہد کی تاریکی رات بھر کی ہی مہمان ہوتی ہے۔
عمل اور ردِّعمل تک محدود معمول کی زندگی میں خلل کی ساری سرگرمیاں اور ذرائع ابلاغ میں اُنہی کی گونج نے صورت حال کو کچھ زیادہ ہی پیچیدہ بنا دیا ہے۔ بے لاگ مشاہدے اور غور و فکر سے کام لیا جائے تو سب سے پہلے ہمیں اس نتیجے پر ہی پہنچنا ہوگا کہ بین مذاہب احترام کا رشتہ آج اچانک ختم نہیں ہوا۔ اس حوالے سے ہرعہد کا دامن داغ دار ہے۔ ہم چونکہ موجودہ عہد کے گواہ ہیں اس لئے سب کچھ عجیب سا لگ رہا ہے۔
پچھلے ہفتے کلکتے میں اردو صحافت کے دو سو برس کی تکمیل کا مغربی بنگال اردو اکیڈمی کی طرف سے جشن منایا گیا۔ اس تقریب کے قومی شرکاء مقامی احباب اور بعض بزرگوں سے تقریباً ہر ملاقات میں بات چیت کا محور یہی تھا کہ ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو کس کی نظر نہیں لگ گئی ہے! سنجیدہ بات چیت میں سبھی اس بات سے متفق تھے کہ یہ نظر کسی اور کی نہیں،ہم مختلف مذہبی شناخت رکھنے والوں کی ہی نظر ہے۔ ہم متحدہ اور پھر منقسم ہندوستان کی بالترتیب سابقہ اور جاری دونوں صدیوں میں بین مذاہب مشترکات سے وہ فائدہ نہیں اٹھا پائے جو زندگی کی بقا کے حق میں ناگزیر آج بھی ہیں۔ نفرت سے بیزاری اور بقائے باہم کے حق میں بیداری کیلئے صلیبی جنگ سے ناقص فتوحات والی بعض دوسری جنگوں تک بے ہنگم نقصانات کی ایک سے زیادہ ایسی مثالیں ہمارے سامنے موجود تھیں، باوجودیکہ ہم بیدار نہیں ہوئے اور مذاہب کی کمان مکافاتِ عمل سے غافل رہنے اور تعمیر کے کسی متبادل منصوبے کے بغیر ردِّتشکیل سے کام لینے والوں کو سونپ کر دوسرے کاموں میں مصروف ہو گئے۔ اس لحاظ سے دونوں طرف خاطی ہم ہی ہیں۔ نیزہم میں ہی کالم کے کالم سیاہ کرنے والوں کا وہ حلقہ بھی ہے جو ناعاقبت اندیشوں سے اٹا پڑا ہے۔ ایسا نہ ہوتا تو آج میڈیا کی سماجی ذمہ داری کا شعبہ ویران نظر نہیں آتا، جہاں نہ کوئی مدرس ہے نہ طالب علم۔
ایسا نہیں کہ بر صغیر کا معاشرہ درسِ علم سے پوری طرح محروم رہا۔ البتہ اس پر شاید کبھی منظم طور پر غور نہیں کیا گیا کہ انسانی زندگی، زندگی کے دنیاوی تقاضوں اور اُلُوہی مقصد کو سمجھنے کیلئے علم الانسان مالم یعلم سے شروع ہونے والے تعلیمی سفر میں تفہیم کا وہ خلا کب اور کیسے پیدا ہو جاتا ہے کہ ہمیں لا اکراہ فی الدین اور لکم دینکم ولی الدین کے حوالے سے حالات پر قابو پانے کی مدافعانہ ضرورت آن پڑتی ہے۔ یہ مسئلہ دونوں طرف ہے۔ اُدھربھی واسودھیو کٹمبکم کی روایت کے مطابق مرکزی سدّھانت یہ ہے تمام وجود وحدانیت اور اتحاد پر محیط ہے اورہمہ گیر قادر مطلق ہر فرد میں مجسم ہے۔ پیرانِ دیر و حرم سے بصد احترام پوچھا جانا چاہئے کہ بین ادیان اِس فکری ہم آہنگی کے باوجو نفرت آگیں فرق کیسے پڑجاتا ہے اور وہ بھی اس قدر کہ اللہ کی پناہ۔
آنحضور ﷺاور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے تعلق سے ایک بے ہنگم تکرار کا سلسلہ بھی ان دنوں بین فرقہ دراز ہے۔ اِسے نہ تو علمی بحث کا نام دیا جا سکتا ہے نہ ہی کسی ایسی تنقیدی جستجو کاجس سے معاملات کی تفہیم کے رُخ پرصحت مند استفادہ کیا جا سکے۔ اس بحث میں سب ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش میں خود نیچے اترتے چلے جا رہے ہیں۔ سارا معاملہ مفسدانہ جارحیت اورعاجلانہ مدافعت تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ اس تکلیف دہ سیریز سے نجات کی راہ ڈھونڈنے والے بھی میدان عمل میں موجود ہیں لیکن حالات کسی طور اُن کے قابو میں نہیں آ رہے ہیں۔ اس بیچ دہلی کی ایک وکیلہ نبیلہ جمیل نے مذہب اور قانون کے حوالے سے یہ سمجھانے کی مربوط کوشش کی ہے کہ حضرت عائشہ رض کی عمر سے متعلق بحث غیر مرتبط ہے۔ مصنفہ نے بڑی اچھی بحث کی ہے۔ معاملے کو بہت ہی مربوط اور جامع انداز میں آگے بڑھایا ہے، لیکن ہمارا معاشرہ جو انتقامی نفرت کا اِنتہائی شدت سے نشانہ بنا ہوا ہے کہ وہ ایسی کسی قابل فہم بات کو سمجھنے سے شاید محروم ہو کر رہ گیاہے جو مصنفہ نے کی ہیں۔ جہاں تک حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی شادی کی عمر اور دوسرے متعلقہ مراحل سے گزرنے کی بابت احادیث کا تعلق ہے، مصنفہ نے اُس پر جوابِ آں غزل سے کام لینے کے بجائے تاریخی شواہد اور تہذیبی ارتقا کا احاطہ کرتے ہوئے یہ سمجھانے کی صراحت کے ساتھ کوشش کی ہے کہ آحضور ﷺ کا زمانہ توساتویں صدی کا زمانہ تھا جبکہ ہمارے یہاں سابقہ صدی کی پہلی چوتھائی تک بیشتر گھروں میں دلہنیں اتنی ہی کمسن ہوا کرتی تھیں۔ ہمارے یہاں 1949 میں لڑکیوں کی شادی کی عمر بڑھا کر پندرہ کی گئی پھر 1978 میں اسے اٹھارہ کیا گیا۔ اسے اٹھارہ سے بڑھا کر اکیس ابھی حال میں کیا گیا ہے۔ اس وضاحت کے ساتھ ایک غیر ضروری بحث اب بھی ختم کی جا سکتی ہے، بشرطیکہ دونوں طرف کے ماننے اور منوانے والے علم اور عقائد کے درمیان صحت مند توازن قائم کرنے کی کوشش کریں۔
پچھلے دنوں ایک بحث میں ایک صاحب نے یہ سوال اٹھایا کہ فلاں فلاں ملی رہنماوں نے صاحبِ استطاعت ہونے کے باوجود حج و عمرہ کی سعادت کیوں نہیں حاصل کی! شامل بحث کچھ لوگوں نے جہاں اسے غیر ضروری سوال گردانا اور کچھ نے حیرت اور دوسری توضیحات کا سہارا لیا وہیں ایک نوجوان نے اِس اظہار خیال کے ساتھ بحث کو کسی تلخ اختلاف کے بغیر تقریباً ختم کر دیا کہ اول تو یہ قطعی ذاتی سوال ہے جس کا جواب متعلقین کو خود دینا ہے۔دوئم ہر عہد اپنے ساتھ ایک غیر معلنہ فیشن لاتا ہے۔ خوشحال مڈل کلاس کا ابھر کر سامنے آنا چند دہائیوں کا ہی منظر نامہ ہے جس کے لئے سیر و تفریح کے مذہبی اور غیر مذہبی دونوں دروازے بڑے پیمانے پر وا کئے گئے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو اسٹوڈنٹس لون اور ای ایم ائی (ماہانہ اقساط) کے ساتھ غیر ملکی علمی سفر کا سلسلہ شروع نہ ہوتا اور استطاعت سے مشروط مذہبی زیارتوں کا دائرہ تجارتی لحاظ سے وسیع کرنے کیلئے سرکاری اور غیر سرکاری سبسڈی کے علاوہ اشتہاری کاروبار کا سلسلہ دراز نہیں ہوتا۔ علاوہ ازیں حکومت یا کسی ادارے کی سربراہی سنبھالتے ہی عمرہ اور حج کرنا بھی بالکل نئی روایت ہے۔ پہلے زمانے میں ا ربابِ اختیار اور معاشرتی ذمہ دار ایسے کاموں کو ذاتی فرصت پر ٹال کر اپنے اجتماعی فریضے سے دلچسپی کو اولین ترجیح دیا کرتے تھے۔
وقت کا تقا ضہ ہے کہ ہم ایسی تمام باتوں کوجن کے ذمہ دار ہم نہیں یا محشر میں وہ ہمارے اعمال نامے کا حصہ نہیں ہوں گے، خدا پر اٹھا رکھیں، جو منصف اعلیٰ ہے۔ بہ الفاظ دیگر اس تفہیم کا دائرہ وسیع کریں کہ اپنے ذاتی اعمال کے لئے ہم صرف خدا کے سامنے جوابدہ ہیں۔ البتہ اجتماعی زندگی میں ہم ایک دوسرے کیلئے کتنے مفید اور مُضر ہیں اس کی بالترتیب ستائش اور قانونی گرفت ہونی چاہئے تاکہ ذہنی ارتقاء کا سفر نئی نسل کے لئے اندیشوں سے زیادہ امکانات کے در وا کرے۔ اقوام عالم کو جس روز اس تقاضے کا عملی ادراک ہو جائے گا، عجب نہیں کہ اسی دن کائنات کی تخلیق کا اُلوہی مقصد پورا ہو جائے۔واللہ علیم بذات الصدور