تحریر: مولانا ڈاکٹر ابوالکلام قاسمی شمسی
ہمارے ملک ہندوستان میں مدارس نظامیہ کی بڑی تعداد ہے ، ان میں اسلامی علوم و فنون کی ٹھوس اور مضبوط تعلیم دی جاتی ہے ،ان اداروں سے جید علماء و فضلاء ،ماہرین علوم اسلامیہ ، ماہرین مفتی اور قاضی پیدا ہوتے ہیں ،یقیناً یہ ادارے بڑی نعمت ہیں اور ملک و ملت کو ایسے اداروں کی ضرورت ہے ،مدارس نظامیہ کا نصاب تعلیم بہت قدیم ہے ،ان اداروں کے بنیادی ڈھانچہ میں کوئی تبدیلی کئے بغیر ان میں وقتاً فوقتاً اصلاحی اقدامات کئے جاتے رہے ہیں ۔
موجودہ وقت میں مدارس نظامیہ میں شعبہ عربی کا جو نصاب تعلیم رائج ہے ،وہ 8 سال کا ہے ،یہ 8 سالہ عربی نصاب تمام بڑے اداروں میں جاری ہے ،مذکورہ 8سالہ عربی نصاب سے پہلے اس کی سخت ضرورت ہے کہ طلبہ کو مادری زبان کی پختہ تعلیم دی جائے، خواہ وہ کوئی زبان ہو ، کچھ عصری مضامین بھی پڑھائے جائیں ،تاکہ وہ عصری تقاضوں سے ناواقف نہ رہے ،یعنی عربی نصاب سے پہلے طلبہ کو اردو ،ہندی ،انگریزی ،حساب ،تاریخ وغیرہ کی تعلیم دی جائے ،اس لئے اب ضروری ہے کہ عربی نصاب میں کوئی تبدیلی کئے بغیر اس سے پہلے ابتدائی درجات کی تعلیم پر بھی زور دیا جائے ۔
موجودہ وقت میں اکثر مدارس نظامیہ میں ابتدائی درجات پر زور نہیں ہے ،کسی میں ابتدائی درجات میں 4 سال کی تعلیم دی جاتی ہے ،تو کسی میں 5سال ، بہت سے اداروں میں تو اس کا بھی اہتمام نہیں کیا جاتا ہے ،چونکہ مدارس نظامیہ میں ٹرانسفر سرٹیفکیٹ رائج نہیں ہے ،اس لئے اکثر مدارس نظامیہ کے ذمہ داران یہ جانچ نہیں کرتے کہ طلبہ نے نیچے کی تعلیم حاصل کی ہے کہ نہیں ؟ وہ بغیر جانچ کے ہی آگے کے درجات میں داخلہ لے لیتے ہیں ،جس کی وجہ سے طلبہ ابتدائی بنیادی تعلیم میں کمزور رہ جاتے ہیں ، اور آگے اچھا نہیں کر پاتے،اس لئے اس کی سخت ضرورت ہے کہ مدارس نظامیہ میں عربی درجات سے پہلے ابتدائی درجات کا باضابطہ انتظام کیا جائے اور 8 سالہ عربی نصاب میں کوئی تبدیلی کئے بغیر ابتدائی درجات کے لئے 8 سال مختص کئے جائیں ،اور ابتدائی درجات کے کچھ مضامین کو عربی اول اور دوم میں رکھ کر میٹرک کے مساوی نصاب کی تکمیل کرادی جائے، چونکہ موجودہ وقت میں میٹرک یا اس کے مساوی سرٹیفکیٹ کی اہمیت بہت زیادہ ہے ،اس طرح مدارس نظامیہ کے بنیادی ڈھانچہ میں تبدیلی کے بغیر اس کے نصاب تعلیم میں اصلاح پر غور کیا جائے ،تو یہ ادارے مزید مفید ھو جائیں گے ، امید کہ مدارس نظامیہ کے ذمہ داران اس پر غور کریں گے ۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)