عدیل اختر
آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے گزشتہ دنوں ممبئی کے ایک ہوٹل میں کچھ مسلم دانشوروں کو مدعو کیا تھا۔ اس میں کتنے دانشوروں سے رابطہ کیا گیا اور کتنے لوگ شریک ہوئے اس کی تفصیلات منظر عام پر نہیں آسکیں۔ البتہ یہ بات معلوم ہے کہ اس میٹنگ کی تیاری کئی مہینے سے چل رہی تھی اور اس میں شرکت پر رضا مند کرنے کے لئے چنندہ لوگوں سے رابطے کافی دنوں سے کئے جارہے تھے اور میٹنگ سے پہلے اخبارات میں خبریں بھی گرم تھیں۔ مگر اس میٹنگ کے بعد اس کی کوئی خاص رپورٹنگ نہیں ہوئی نہ آر ایس ایس سربراہ کی تقریرکا چرچا اس طرح سے ہوا جیسا کچھ مہینے پہلے غازی آبا میں آر ایس ایس کی مسلم سیل کے جلسے میں کی گئی تقریرکا ہوا تھا جس میں سنگھ سربراہ نے مسلمانوں کے آزادانہ وجود کا انکار کرتے ہوئے مسلمانوں اور ہندوؤں کو ایک ہی ڈی این اے والی قوم قرار دیا تھا۔ اس لئے ایسا لگتا ہے کہ یہ پروگرام شاید پھس ہو کر رہ گیا۔
جب سے مرکز میں بی جے پی کی حکومت بنی ہے، آرایس ایس کی طاقت اور فیصلہ کن پوزیشن کو سبھی محسو س کررہے ہیں۔بی جے پی حکومت کو آرایس ایس کی ہی حکومت سمجھا جاتا ہے کیوں کہ بی جے پی سنگھ پریوار کا ہی سیاسی بازو ہے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ آر ایس ایس یا سنگھ پریوار اکثریتی ہندو سماج کی قیادت اور نمائندگی کرتا ہے اور ہندو تہذیب و ثقافت کا علم بردار ہے۔ سنگھ پریوار کے مفکرین اور قائدین ہندوقوم کے مافی الضمیر کی ترجمانی کرتے ہیں اور اس کے مذہبی و ثقافتی کردار کی حفاظت کرتے ہیں۔ چنانچہ یہ بالکل واضح بات ہے کہ اس کثیر قومی ملک کی کسی قوم کو چاہے وہ سکھ ہوں، عیسائی ہوں یا مسلمان ہوں اگر ملک کے معاملات اور مشترک قومی مسائل پر ہندوفرقے سے کوئی مذاکرہ کرنا ہے تو سنگھ پریوار کے قائدین سے ہی بات کرنی ہوگی، سنگھ پریوار کو نظر انداز کرکے منفرد دھارمک گروؤں یا مٹھادیشوں سے رابطے کرنے اور ان کے ساتھ کوئی موافقت قائم کرنے کی کوشش بے سود ہوگی۔ اس لئے آر ایس ایس لیڈروں کے ساتھ مسلم قائدین و مفکرین اور دانشوروں کی ملاقات ایک اہم بات ہے اور وقت کی ضرورت بھی ہے۔
لیکن آر ایس ایس قائدین کو یہ سوچنا ہوگا کہ ملاقات اور بات چیت ایک دو طرفہ عمل ہے۔ یعنی دو یا دو سے زیادہ فریق اگر آپس میں کوئی بامقصد بات چیت یا مذاکرات کرنا چاہتے ہیں تو دونوں کو آمنے سامنے بیٹھ کر بات کرنا چاہئے اور دونوں فریقوں کو سننے اور کہنے کا برابر سے موقع ملنا چاہئے۔ مگر گزشتہ کچھ عرصے سے آرایس ایس نے اس طرح کی جو کچھ بھی پیش قدمی کی ہے وہ مذاکرات اور بات چیت والا طریقہ نہیں ہے بلکہ ڈکٹیٹ کرنے والا یعنی صرف اپنی بات کہنے اور سنانے والا طریقہ ہے، اس لئے ایسی کسی”ملاقات“ میں اگر کوئی مسلم نمائندہ شامل ہوتا ہے تو اسے مسلمان عام طور سے پسندنہیں کرتے اور ایسی میٹنگ کو اپنی عزت نفس کے خلاف سمجھتے ہیں۔ غازی آباد اور ممبئی کی میٹنگوں کو بھی مسلمانوں نے اسی نظر سے دیکھا ہے اور اس میں حصہ لینے والوں سے برأت ظاہر کی ہے۔ سنگھ پریوار کو خود بھی یہ بات صاف طور سے محسوس ہورہی ہوگی کہ جو علماء،قائدین اور دانشور مسلمانوں میں اپنی عزت بنائے رکھنا چاہتے ہیں وہ سنگھ پریوار کی ایسی دعوتوں میں شریک ہونا اپنے لئے مناسب نہیں سمجھتے ہیں۔لہذا اس طرح کی میٹنگیں بے نتیجہ اور لاحاصل ہیں، ان سے کوئی ہم آہنگی اور اتفاق رائے قائم ہونے کے بجائے دوری اور بیزاری ہی پیدا ہورہی ہے۔
ممبئی کی میٹنگ میں آر ایس ایس سربراہ نے جو باتیں کہیں وہ انہی باتوں کا اعادہ تھا جو غازی آباد کی میٹنگ میں کہی گئی تھیں۔ سنگھ سربراہ کا اصرار ہے کہ مسلمان خود کو ہندو پوروجوں کی اولاد تسلیم کریں یعنی اپنے لئے ہندو شناخت کو اپنائیں۔ اسے وہ قومیت اور قوم پرستی کہتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آپ کو ہندستانی ہونے پر کیا اعتراض ہے اور یہ شناختی نام کیوں پسند نہیں ہے؟ مسلمان تو ہندستانی کے علاوہ خود کو ہندی مسلمان بھی کہتے رہے ہیں لیکن آپ اس پر بھی راضی نہیں ہیں، آپ چاہتے ہیں کہ جو آپ کی مذہبی شناخت ہے اسی کو مسلمان اپنی قومی شناخت بنالیں۔ اس طرح آپ مسلمانوں کی مذہبی شناخت کا انکار کرتے ہیں۔ آپ انہیں ہندستانی سیاسی قوم کا ایک مذہبی فرقہ تسلیم کرنے کے بجائے ہندو مذہبی و ثقافتی قوم کا ایک جز بنانا چاہتے ہیں۔ یہ تکثیریت، تنوع اور مذہبی آزادی کے اصولوں کا انکار ہے۔ مذاکرات کی میز پر آپ کی یہ پیش کش تسلیم نہیں کی جاسکتی اس لئے آپ مذاکرات کے بجائے فرمان سنانے والا طریقہ اپنا رہے ہیں۔
آپ مسلمانوں سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ مسلمان انتہاپسندی یا کٹر واد کی مخالفت کریں،لیکن انتہا پسندی اور کٹر واد کیا ہے آپ اس پر کوئی سنجیدہ مکالمہ کرنا نہیں چاہتے۔ مسلمانوں کو ان کا دین ہی اس بات سے روکتا ہے کہ وہ انتہا پسندپسند بنیں یا سخت گیریت اختیار کریں۔ اسلام کی تعلیمات انسان کو ہر طرح کی انتہاپسندی سے بچاکر معتد ل طرز عمل پرلے کر آتی ہیں۔ اسلام کا اعتدال یہ ہے کہ آ پ نجات کے لئے دنیا ترک نہیں کرسکتے اور نہ دنیا میں ایک اچھی زندگی جینے کے لئے اصولوں اور پابندیوں سے آزاد ہوسکتے ہیں۔اسلام کا اعتدال یہ ہے کہ آپ دنیا کو اسلام کا عقیدہ بتائیں، سمجھائیں اور اس کی طرف دعوت دیں لیکن اس عقیدے کو منوانے کے لئے آپ کسی کے پیچھے نہ پڑیں، نہ اس عقیدے کو تسلیم نہ کرنے پر آپ کسی سے تعلقات ترک کریں،نہ اس کے حقوق سلب کریں، نہ اس کی جان ومال کو اپنے لئے حلال سمجھیں۔ اسلام کی معتدل تعلیم یہ ہے کہ آپ نہ ظلم کریں اور نہ ظلم سہیں، نہ کسی کو کسی پر ظلم کرنے دیں۔ اسلام کا اعتدالی موقف یہ ہے کہ آپ سماج سے بدی اور برائی مٹانے کی طاقت اپنے اندر پیدا کریں اور آپ کے پاس طاقت ہو تو آپ طاقت سے برائی کو روکیں اور اگر طاقت نہیں ہے تو برائی کو برائی جانیں اور اس سے دور رہیں بے نتیجہ کوششوں سے نہ خود کو ہلاکت میں ڈالیں نہ مزید خرابی کا باعث بنیں۔ اسلام کی معتدل تعلیم یہ ہے کہ جو کچھ آپ کے لئے حرام ہے وہ صرف آپ کے لئے حرام ہے، جس کے عقیدے میں کھانے پینے کی کوئی چیز حرام نہیں ہے آپ اسے اس کے کھانے پینے سے نہیں روک سکتے۔اسلام کا اعتدال یہ ہے کہ ہر آدمی اپنے گھر میں آزاد ہے، وہ اپنے گھر میں کیا کرتا ہے اس سے کسی دوسرے کو کوئی غرض نہیں ہونی چاہئے، ہاں کوئی فرد گھر سے باہر آکر کوئی ایسا طرز عمل اختیار کرتا ہے جو سماجی اخلاق یا سماجی تحفظ کے خلاف ہو تو اسے اس سے روکا جائے گا۔اسلام کا اعتدال یہ بھی ہے کہ اسلام اپنی ذات، اپنے خاندان، اپنی برادری، اپنی قوم اور اپنے ملک پر تکبر کرنے سے منع کرتا ہے اورتمام انسانوں کو ایک ماں باپ کی اولاد اور ایک خالق کی مخلوق سمجھنے کی تعلیم دیتا ہے۔ اس لئے اسلام قوم پرستی سمیت ہر طرح کی تنگ نظر ی کاانکار کرتا ہے۔ اسلام کی یہ معتدل تعلیمات مسلمانوں کو معتدل رویے والی قوم بناتی ہیں اور اسی خصوصیت کی بنا پر قرآن میں مسلمانوں کو امت وسط کہا گیا ہے۔ لہذا مسلمانوں کو انتہا پسندی سے بچنے کی تعلیم تو ان کے مدرسوں میں، مسجدوں اور اجتماعات میں صبح شام ملتی رہتی ہے اور اس کا اثر دین دار مسلمانوں کے رویے میں عام طور سے دیکھا جاسکتا ہے۔اس کے بالمقابل آپ کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ آپ کے فلسفہ اخلاق میں اعتدا ل کی کیا تعلیم دی گئی ہے اور خود آپ اپنی قوم کو انتہا پسندی سے بچنے کی کیا تربیت دے رہے ہیں؟ مسلمانوں کے ساتھ ملک میں جو تشدد اور دہشت کا ماحول بنا ہوا ہے اسے کیا آپ انتہا پسندی تسلیم کرتے ہیں؟اور اگر یہ انتہا پسندی ہے تو اسے روکنے کی آپ نے اب تک کیا کوششیں کی ہیں؟ آپ کی مختلف ذیلی تنظیموں اور تربیت یافتہ کارکنان کا جو رویہ صبح و شام سب کے مشاہدے میں آتا رہتا ہے وہ آپ کے نزدیک اعتدال و اخلاق پر مبنی رویہ ہے یا اس کے برعکس ہے؟
آپ چاہتے ہیں کہ مسلمان اس بات کو تسلیم کریں کہ ہندستان میں اسلام حملہ آوروں کے ساتھ آیا۔ لیکن یہ آپ کا اپنا بیانیہ ہے، تاریخ کا بیانیہ تو یہ نہیں ہے۔ تاریخ کا بیانیہ تو یہ ہے کہ اسلام اپنے آغاز کے زمانے میں ہی ہندستان میں بڑے امن طریقے سے داخل ہوگیا تھا۔ بحر ہند کا پانی اور جنوبی ہند کے ساحلی علاقے اس بات کے گواہ ہیں کہ وہاں اسلام تاجروں کے ساتھ آیاتھا۔اسلام کی تعلیمات نے عرب تاجروں کی شخصیت اور کردار میں جو انقلاب پیدا کیا تھا اس کے اثر سے نہ صرف یہ کہ ساحلی علاقوں کے لوگوں نے اسلام قبول کیا بلکہ جن مقامی سرداروں نے اسلام قبول نہیں کیا وہ اسلام اور اہل اسلام کے میزبان بنے تھے اور عرب سے آنے والے اسلامی مہمانوں نے ہندی راجاؤں کے ماتحت رہتے ہوئے ان کی حکومتوں کومعاشی اور سیاسی خدمات فراہم کی تھیں۔یہ تاریخ کے وہ حقائق ہیں جنہیں آپ کبھی بھی مٹا نہیں سکتے۔اسی طرح آپ صوفیاء کرام کو حملہ آور اور جابر نہیں کہہ سکتے جن کے ہاتھوں پر لاکھوں لوگ بہ رضا و رغبت اسلام قبول کرتے رہے۔ پھر آپ اگر محمد بن قاسم اور محمود غزنوی کے حملوں کا حوالہ دیتے ہیں تو آپ کو اس پر بھی گفتگو کرنی ہوگی کہ ان حملہ آوروں کو ہندستانی عوام نے خوش آمدید کیوں کہا تھا؟ مذاکروں، سمپوزیموں اور سیمناروں میں آپ اگر ان باتوں کو بحث کا موضوع بنائیں تو کوئی حرج نہیں لیکن آپ دو طرفہ بحث چاہتے ہی نہیں ہیں بس اپنا خیال اور اپنا نظریہ منوانا چاہتے ہیں۔ یہ تو جبر ہے اور جبر کا رویہ اختیار کرنا ایک انتہا پسندی ہے۔
مسلمانوں کی نظر سے دیکھا جائے تو دراصل بنیادی طور سے اس بات پر مذاکرات کی ضرورت ہے کہ ۷۴۹۱ میں ملک کی تشکیل نو کے بعد اس کی جو اصولی حیثیت تسلیم کی گئی تھی اور جس کی بنیاد پر ملک کا دستور بنا تھا اس پر آج کون راضی نہیں ہے؟ کون ہے جو ملک کا کردار بدلنا چاہتا ہے، مذہبی آزادی کا ماحول ختم کرنا چاہتا ہے، برابرکے حقوق اور آزادیوں کو تسلیم نہیں کرنا چاہتا ہے، ووٹ کا حق چھین لینے کے مطالبے کرتا ہے اور ملک کو ایک کثیر قومی کثیر مذہبی ملک کے بجائے ایک فرقہ کی مذہبی شناخت والا ملک بنانا چاہتا ہے؟ یہ سوال آج قائم ہوچکے ہیں اور آج نہیں تو کل ان سوالوں پر بحث ناگزیر ہوجائے گی۔