ملاحظات:: مولانا عبدالحمید نعمانی
ایک فرقہ پرست دوسرے فرقہ پرست کا معاون و مددگار ہوتا ہے اور نفرت انگیز فرقہ پرستی کو دہشت گردی میں بدلنے میں زیادہ دیر نہیں لگتی ہے اور ایک دوسرے کے کاز کو تقویت پہچانے کا کام کرتے ہیں، یہ دونوں، دیس اور دھرم کے نام پر سماج میں طاقت ور ہونے کی ترکیبیں اور طریقے نکالنے میں لگے رہتے ہیں، اس کا نمونہ پہلگام حملے میں بھی دیکھا جا سکتا ہے، پہلگام میں حملے کر کے بے قصور سیاحوں کو مارنے اور اس میں مذہب و فرقہ کے پہلو کو نمایاں کرنے کا واحد مقصد بھی یہی ہے کہ دوسری طرف بھی فرقہ پرستی اور دہشت گردی کو ابھار کر اپنے اپنے حلقے کو وسیع کیا جائے اور اپنے مقاصد و عزائم کی تکمیل کی جائے، پہلگام حملے کے سلسلے میں، پاکستان کا نام، حالات کے تحت آنا ہی ہے، اس کا وجود، جس طرح کے فرقہ وارانہ حالات اور نفرت و تعصب کے نتیجے میں عمل میں آیا تھا، وہ کسی بھی جانکار آدمی سے پوشیدہ نہیں ہے، بعد کے دنوں میں بھی اس کے لیے بھارت میں فرقہ وارانہ نفرت اور مذہب و فرقہ کے نام پر سماج کی تقسیم و تفریق زیادہ موافق اور وجود کے جواز کو مضبوط زمین فراہم کرتی ہے، حملے سے دہشت گردوں کا جو مقصد و منشاء ہے اس کو ہندوتو وادی، فرقہ پرست مستحکم و مضبوط اور صحیح قرار دینے کی سمت میں آگے بڑھتے نظر آتے ہیں، ایسا وہ پہلے بھی کرتے رہے ہیں، تقسیم ہند کے بعد سے اب تک کے فرقہ وارانہ فسادات اور مذہب و فرقہ کے نام پر قتل و غارت گری کر کے جناح کو صحیح ٹھہرانے اور پاکستان کے وجود کی تائید کرنے کا کام کرتے رہے ہیں ،پہلگام دہشت گردانہ حملے کی ایک زبان میں ہندستانی مسلمانوں خصوصا کشمیری مسلمانوں کی طرف سے شدید مذمت و مخالفت اور بھارت کے ساتھ مضبوطی سے کھڑے ہونے کے باوجود ان کے خلاف، ہندوتو وادی عناصر کی طرف سے فرقہ وارانہ سرگرمیاں اور ملک کے مختلف مقامات، پنجاب، چنڈی گڑھ، اتر کھنڈ، ہماچل اور دیگر حصوں میں حملے اور وہاں سے نکل جانے کی دھمکیاں ،یہ ثابت کرتی ہیں کہ وہ دہشت گردوں کے مقاصد کی تکمیل میں بہت بڑے معاون اور ملک کو مضبوط کرنے کے بجائے سماج کو تقسیم کر کے اسے کمزور کرنے کا کام کر رہے ہیں، یہ عام فرقہ پرست ہندوتو وادی، مختلف تنظیموں کے نام سے کرنے کے علاوہ، ان کے سربراہوں سمیت بی جے پی، آر ایس ایس کے کئی سارے لیڈران بھی ملک میں فرقہ وارانہ نفرت و تفریق پیدا کر کے پاکستان کے دو قومی نظریے اور نفرت کی سیاست اور دہشت گردوں کے مذہب کے نام کا استعمال کر اپنے مقاصد کے حصول کی راہ ہموار کرنے میں پوری طرح تعاون و اشتراک کرتے ہیں، پہلگام حملے میں اختیار کردہ حکمت عملی میں ان کو تقویت پہنچا رہے ہیں، جموں کشمیر کے اسمبلی انتخابات میں کشمیری عوام کی بھر پور شرکت و شمولیت نے علیحدگی پسند اور دہشت و شدت پسند عناصر کی ناکامی کو پوری طرح اجاگر کر دیا تھا نئی سرکار کی تشکیل سے کشمیر اور اس کے باہر کے عوام میں اعتماد میں خاصا اضافہ ہوا ہے، اس نے سیاحوں کے لیے سیاحتی مقامات پر آمد و رفت کا راستہ ہموار کیا ،اس کے علاوہ مئی کے پہلے ہفتے میں مذہبی اسفار بھی شروع ہونے والے تھے، اس سے کشمیری عوام کی معیشت میں بہتری کی راہ ہموار ہو رہی تھی، یہ حالت دہشت گردوں کے مقاصد کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے، جب کہ عوام اور عام سیاحوں میں فرقہ وارانہ نفرت و عداوت کا دور دور تک کوئی نام و نشان نظر نہیں آتا ہے یہ پر امن حالات، دہشت گردوں اور فرقہ پرستوں کے لیے تباہ کن اور ان کی بد ترین ناکامی کی علامت ہیں، ہندوتو وادی فرقہ پرستوں کے لیے بھی ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور امن کے حالات موت ثابت ہوتے ہیں، فرقہ وارانہ میل ملاپ سے ان کا پورا کار و بار حیات چوپٹ ہو کر رہ جاتا ہے، اسے ملک کے باشندوں کی بڑی تعداد اچھی طرح سمجھتی ہے، اس کا اظہار وہ مختلف ذرائع ابلاغ پر کرتی ہوئی نظر بھی آتی ہے، کشمیر کی مسجدوں تک سے دہشت گردی کی مذمت اور مارے گئے اور زخمی سیاحوں سے ہمدردی و یک جہتی کا اظہار ہوا، کنڈل مارچ نکال کر اور بازار بند کر کے کشمیری عوام اور مسلمانوں نے بے مثال یک جہتی کا ثبوت دیا ہے انہوں نے دہشت گردانہ حملے کو کشمیر اور بھارت پر حملہ قرار دیا ہے اور مضبوطی سے بھارت کے ساتھ کھڑے ہو کر مضبوط متحدہ ہندستان بنانے کا واضح پیغام دیا ہے، اس کا ملک و قوم کے حق میں بہتر استعمال کرنے کی ضرورت ہے، اس سلسلے میں شیو سینا شندے گروپ نے سیاحوں کو بچانے اور دہشت گردوں سے اسلحہ چھین لینے کی جرأت کر کے شہید ہونے والے عادل کے گھر والوں سے اظہار یکجہتی اور دست تعاون بڑھا کر اچھی مثال قائم کی ہے، بھارت کے مسلمانوں اور ان کے قائدین اور تنظیموں نے فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور ملک سے گہری وابستگی اور دہشت گردی کے خلاف واضح موقف اختیار کرکے امن کے حق میں پر تحسین کردار ادا کیا ہے، اس کے برخلاف ہندوتو وادی عناصر اور تنظیمیں اور بی جے پی کے کئی لیڈران ایسے نازک حالات میں بھیجو نفرت انگیز فرقہ وارانہ رول ادا کر کے اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کی راہ ہموار کرتے نظر آتے ہیں، اس نے ایک بار پھر یہ ثابت کر دیا ہے کہ انہیں بھارت کے اچھے بھوشیہ اور اس کی یک جہتی، ترقی اور استحکام و سالمیت سے کوئی زیادہ لینا دینا نہیں ہے، اس کو تقویت پہچانے میں ملک کے بے ایمان اور کرپٹ میڈیا کا کردار بڑا ہی شرپسندانہ اور شرمناک ہے، وہ پہلگام دہشت گردانہ حملے سے جڑے ضروری معاملے اور پہلوؤں کو اجاگر کر کے دہشت گردی کے چہرے کو بے نقاب کرنے کے بجائے ،اپنے پسندیدہ ایک دو چہرے کو چمکانے میں لگا ہوا ہے، اصل کرداروں پر فوکس کرنے کے بجائے ایک دو فرد اور جس جموں کشمیر سرکار کے پاس کوئی موثر اختیارات نہیں ہیں کو مخاطب بنا کر سماج کو بھٹکانے میں حسب سابق مصروف ہے ،میڈیا کے فرقہ پرستی کا ساتھ دینے اور اس کو ابھارنے کے، اکثریتی سماج کے ایک بڑے حصے پر بہت ہی غلط اور مضر و مکروہ اثرات مرتب ہو رہے ہیں، اس میں مبینہ دھرم گرو بھی شامل ہیں، ان کے گفتار و کردار میں شدت پسندی، فرقہ پرستی اور قتل و غارت گری کے اجزاء بری طرح شامل ہو گئے ہیں ،جس کے نتیجے میں وہ امن و یک جہتی کے بجائے فساد و تفریق پیدا کرنے میں سر گرم عمل نظر آتے ہیں، فرقہ پرستی کی غلاظت میں وہ اس قدر ملوث ہو چکے ہیں کہ مسجد، مزار، مسلمان دیکھ کر ہی بھڑک جاتے ہیں، اور جے شری رام کا نعرہ اور ہنومان چالیسا یاد آ جاتا ہے، فرقہ پرستی میں ہندوتو وادی عناصر اس قدر آگے بڑھ گئے ہیں کہ متحدہ طور سے دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے بجائے وہ نازک سے نازک حالات میں بھی ہندو مسلم کرنے اور فرقہ پرستی کو بڑھاوا دینے میں لگ جاتے ہیں، یہ ایک سنگین صورت حال ہے جس کی زد میں بھارت اور اس کے امن پسند باشندے ہیں، اس سنگین صورت حال سے نکلنا، ملک کے انصاف و انسانیت نواز اور سیکولر و جمہوریت پسند عوام وشہریوں کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے، ہندستانی مسلمانوں کے لیے ایک بڑی چنوتی یہ بھی ہے کہ مین اسٹریم کے میڈیا میں ان کے موقف و منشاء کو صحیح طور سے جگہ نہیں مل پاتی ہے، مارچ، اپریل میں تقریبا ایک مہینہ کے جھار کھنڈ، بہار کے دورے میں راقم سطور نے دیکھا کہ ایک عام مسلم کسان، مزدور بھی محسوس کرتا ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف مکروہ پروپیگنڈا کے توڑ کے لیے ایسا میڈیا پلیٹ فارم ہونا چاہیے جہاں صحیح باتوں کو رکھا جا سکے، ہندوتو وادی عناصر کسی بھی بات کا بہانہ بنا کر مسلمانوں کو ظلم و زیادتی اور اسلام کو جھوٹ کا نشانہ بناتے ہیں، اس میں اقتدار کی پشت پناہی بھی صاف صاف نظر آتی ہے، پہلگام دہشت گردانہ حملے کی شدید مذمت و مخالفت کے باوجود مسلمانوں اور ان کی املاک پر حملے کیے جا رہے ہیں، خاص طور سے کشمیری مسلمانوں حتی کہ طلبہ کو ملک کے مختلف حصوں میں کھلے عام نشانہ بنایا جا رہا ہے، ایسا کر کے ہندوتو وادی عناصر، دہشت گردوں اور پاکستان کے مقاصد کو تقویت دینے کا کام کر رہے ہیں، فرقہ پرستی اور دہشت گردی کا یہ گٹھ جوڑ، حالات کو بہتر بنانے کے بجائے، ان کو بد سے بدتر کر رہا ہے، اس صورت حال میں تبدیلی، ملک و قوم کے حق میں از حد ضروری ہے، پاکستان، نفرت و فرقہ پرستی کی پیداوار ایک ناکام ملک ہے، اس کی راہ پر چلنے کے بجائے، بھارت کی طرف سے بہتر کردار پیش کرتے ہوئے اسے معقول جواب دینے کی ضرورت ہے، اس کے بجائے بھارت کے شہریوں، مسلمانوں کو نشانہ بنانے سے پوری طرح گریز و پرہیز کرنا چاہیے ،بہ صورت دیگر پاکستان کے کاز کو تقویت ملے گی،
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)