تحریر:کلیم الحفیظ
ملک کے مسلمانوں سے ایک سوال بار بار پوچھا جا رہا ہے کہ آپ کی نظر میں آئین افضل ہے یا شریعت؟ملک آئین کے مطابق چلے گا یا شریعت کے مطابق؟ ویسے اگر غور کریں تو یہ سوال ہم ہندوستانی مسلمانوں کے لیے نیا نہیں ہے۔آزادی کے بعد سے اب تک الگ الگ انداز میں یہ سوال ہمارے سامنے پیش کیا جا تا رہا ہے۔آپ خود کو ہندوستانی مانتے ہیں یا نہیں؟ آپ ملک کے وفادار ہیں یا نہیں؟ آپ کو سرزمین ہند سے محبت ہے یا نہیں؟ گزشتہ دنوں ٹی وی 9/پر جب مشہور و معروف پارلیمنٹرین بیریسٹر اسد الدین اویسی سے یہ سوال کیا گیا کہ آپ کی نظرمیں آئین افضل ہے یا شریعت؟ ملک آئین سے چلے گا یا شریعت سے؟ تو اس پر اویسی صاحب نے جو جواب دیا وہ قابل غور ہے۔انھوں نے کہا کہ یہ سوال صرف ہم سے کیوں کیا جاتا ہے؟ صرف ہندوستانی مسلمانوں سے کیوں کیا جا تا ہے؟ یہ سوال وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ سے کیوں نہیں کیا جاتا؟ اس کا جواب ٹی وی اینکر کے پاس نہیں تھا۔ہو بھی نہیں سکتا کیونکہ انھیں بھی معلوم ہے کہ ملک کا مسلمان اپنے وطن سے ٹوٹ کر محبت کرتا ہے اور آئین کے مطابق عمل کرتا ہے لیکن مسلمانوں کو ہندوؤں کی نظر میں غدار ثابت کرنے کی ایک منظم سازش ہے جس کے تحت یہ سب کچھ ہوتا ہے تاہم اچھی بات یہ ہے کہ یہ سازش کسی صورت کامیاب ہوتی نظر نہیں آ رہی ہے۔اس کا دوسرا پہلو افسوسناک اور خطرناک ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ تعصبانہ اور ظالمانہ رویہ آر ایس ایس یا بی جے پی کی طرف سے صرف نہیں ہے بلکہ منتخب حکومتوں کی طرف سے بھی ہے۔مرکز کی بی جے پی حکومت ہو یا ریاستی حکومتیں ان کا جو رویہ ہے وہ سب کے سامنے ہے اور اب تو پوری دنیا نے دیکھ لیا۔ہم مسلمانوں کو آئین کی روشنی میں انصاف مانگنا بھی مشکل ہو رہا ہے۔زبانیں بند کرائی جا رہی ہیں اور انصاف کا گلا گھونٹا جا رہا ہے۔
حال ہی میں گستاخان رسول کا معاملہ سامنے آیا کہ جب بی جے پی کی قومی ترجمان رہی نپور شرما اور بی جے پی دہلی کے میڈیا انچارج رہے نوین کمار جندل کی جانب سے ہمارے آقائے نامدار حضرت محمد مصطفی ﷺ کی شان میں گستاخی کی گئی۔ملک کے 25/ کروڑ نہیں بلکہ دنیا کے 200/کروڑ مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی گئی۔ملت اسلامیہ ہند ناموس رسالت کی حفاظت کے لیے میدان میں آ گئی۔کل مجلس اتحاد المسلمین کے ساتھ ساتھ ملی جماعتیں بھی میدان میں آئیں۔ایک اہم بات کی طرف اشارہ کرتا چلوں کہ آج کچھ لوگ یہ بیان دے رہے ہیں کہ سڑکوں پر اترنے کی بجائے آئینی لڑائی لڑی جانی چاہئے تو انھیں بھی یہ بتانا ضروری ہے کہ قانونی چارہ جوئی کی گئی ہے اور کی جا رہی ہے۔ نپور شرما ہوں یا نوین کمار جندل ان دونوں گستاخان رسول کے خلاف تھانوں میں شکایات درج کرائی گئی ہیں۔دہلی ، ممبئی اور حیدر آباد میں ایف آئی آر درج کرائی گئیں لیکن کوئی کاروائی نہیں ہوئی۔ حکومت اور پولیس انتظامیہ خاموش تماشائی بنی رہی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ لوگوں کا غصہ بڑھتا گیا۔ آہستہ آہستہ ملک بھر میں علم احتجاج بلند ہونے لگے اور حیرانی کی بات یہ ہے کہ باوجود اس کے حکومت کی مجرمانہ خاموشی قائم رہی۔ بات اتنی بڑھ گئی کہ سعودی عرب، ایران، قطر سمیت دنیا کے25/ ممالک اور او آئی سی جیسی عالمی تنظیم نے اپنی ناراضگی ظاہر کی۔شاپنگ مال سے لوگوں نے ہندوستانیوں کے سامان باہر پھینک دیے۔ حکومتوں کی جانب سے سفارتکاروں کو طلب کیا گیا اور شکایت درج کرائی گئی۔ہندوستان سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا جانے لگا۔ملک کے خلاف ایک ساتھ بیرون ممالک میں اتنا سب کچھ شاید پہلی بار ہوا ہوگا۔جب اتنا بڑا معاملہ پیش آیا تو پورے 10؍دنوں کے بعد بی جے پی کو یہ احساس ہوا کہ ان کے لیڈران نے غلطی کی ہے چنانچہ دونوں کے خلاف کاروائی کی گئی۔ کاروائی کا کیا جانا خوش آئند تھا،اس کا استقبال کیا گیا لیکن دو سوال اب بھی بہت اہم تھے۔ پہلا یہ تھا کہ اتنی تاخیر کیوں ہوئی؟ملک کے 25کروڑ مسلمانوں کی بات سننے کی بجائے بیرون ممالک کی بات کااثر کیوں قبول کیا گیا؟ دوسرا سوال یہ تھا کہ آئین کے مطابق حکومت اور پولیس کی جانب سے گستاخان رسول کے خلاف قانونی کاروائی کیوں نہیں کی گئی؟ انھیں سوال کی روشنی میں پھر 8/ جون 2022کو ایک اور شکایت دہلی میں دہلی مجلس کی جانب سے درج کرائی کہ مذکورہ بالا دونوں گستاخان رسول کے خلاف یو اے پی اے کے تحت کاروائی کی جائے کیونکہ انھوں نے ملک کے خلاف کام کیا ہے؟ملک کو اقتصادی طور پر بھی بھاری نقصان کیا ہے لیکن حکومت خاموش رہی۔
اب سوال یہ تھا کہ کیا اس خاموشی کے خلاف آواز بلند نہ کی جاتی؟ کیا سڑکوں پر اتر کر اپنی ناراضگی ظاہر نہ کی جاتی؟ کیا یہ عمل آئین ہند کے خلاف تھا؟ قومی راجدھانی دہلی، اتر پردیش، بہار، جھارکھنڈ، مہاراشٹر، مغربی بنگال، تلنگانہ اور ملک کے دیگر صوبوں کے مسلمانوں کی جانب سے مضبوط آواز بلند کی گئی۔ کانپور میں جب لوگ سڑکوں پر اتر آئے اور علم احتجاج بلند کیا تو ان کے خلاف کاروائی کی گئی۔ پتھر کس نے چلائے؟ کہاں سے پتھر آئے؟ پتھر بازی کی سازش کا اصل گناہگار کون ہے؟ اس کی جانچ کیے بغیر یوگی کی پولیس نے خود ہی سب کچھ طے کر دیا اور کاروائی شروع کر دی۔گھروں پر بلڈوزر چلا دیا گیا اور نوجوانوں کو این ایس اے کے تحت جیل بھیج دیا گیا۔دہلی میں جب کل ہند مجلس اتحاد المسلمین دہلی کے راقم سمیت کچھ کارکنان پارلیمنٹ اسٹریٹ تھانہ پر پولیس کی اجازت سے ممورینڈم دینے کے لیے پہنچے تو انھیں بھی پہلے حراست میں لیا گیا اور اس کے بعد راقم سمیت دہلی مجلس کے 30؍عاشقان رسول کو تہاڑ جیل بھیج دیا گیا۔ہم سب نے جیل سختیاں برداشت کیں لیکن اپنا مطالبہ جاری رکھا ۔ دہلی پولیس اور مودی حکومت کے اس ظالمانہ رویہ کو دنیا دیکھ رہی تھی۔ اس کے دوسرے ہی دن نماز جمعہ کے بعد پھر پر امن طریقہ سے ملک کے مسلمانوں نے آواز بلند کی۔ سہارنپور، الہ آباد، رانچی اور دوسرے مقامات پر زبردست احتجاجی مظاہرے ہوئے لیکن ایک سازش کے تحت اس کو پرتشدد بنا دیا گیا۔ الہ آباد میں سماجی کارکن محمد جاوید کو تشدد کا ماسٹر مائنڈ بتاکر ان کے گھر کو بلڈوز کر دیا گیااور ان کے ساتھ درجنوں لوگوں کو جیل بھیج دیا گیا۔ان کی بیٹی آفرین فاطمہ چیخ چیخ کر کہہ رہی تھی کہ حکومت کی طرف دیا گیا نوٹس غلط ہے، گھر والدہ کے نام ہے اور نانی نے دیا تھا پھر اس پر کاروائی کیوں کی گئی لیکن کون سننے والا ہے۔ رانچی میں مدسر او ر ساحل کو پولیس کی گولیوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ عاشقان رسول کو ملک کا غدار قرار دے دیا گیا۔جمعہ ویر، پتھر ویر، ہنسا ویراور نہ جانے کیا کیا کہا گیا لیکن گستاخان رسول کے خلاف کاروائی نہیں کی گئی۔انھیں جیل نہیں بھیجا گیا۔کیا یہ آئین کی دھجیاں اڑانا نہیں ہے؟ کیا اس ظلم پر اپوزیشن کی خاموشی جائز تھی؟ کیا نام نہاد سیکولر پارٹیوں کے لیڈروں کو بولنا نہیں چاہئے تھا کہ دونوں کے خلاف کاروائی کی جائے؟ لیکن کوئی نہیں بولا۔سب خاموش تھے اور ظالم حکومتیں مسلمانوں کے خلاف کاروائی کرتی رہیں۔ تاہم یاد رکھو کہ اللہ کی لاٹھی میں آواز نہیں ہوتی۔اس کے یہاں دیر ہے لیکن اندھیر نہیں ہے۔نوجوانوں کے لیے اگنی پتھ اسکیم لائی گئی جو آپ کی نظر میں ہے۔فوج میں محض چار سال کے لیے بھیج کر اگنی ویر بنانے کا فیصلہ لیا گیا جس کے خلاف ملک کا نوجوان کھڑا ہو گیا۔ حکومت جن نوجوانوں کو اگنی ویر بنانے کا خواب دیکھ رہی تھی وہ نوجوان جمعہ ویر، پتھرویر، ہنساویر بن گئے۔ قریب ایک ہزار کروڑ کا نقصان تو ہندوستانی ریل کا ہوا۔یہاں تفصیل میں نہیں جانا لیکن دونوں جمعہ کا موازنہ کیجئے تو اندازہ ہوگا کہ گناہ کس کابڑا تھا اور کاروائی کس کے خلاف کیسی ہوئی؟ اگنی پتھ کے خلاف کھڑے ہونے والے نوجوانوں کو پولیس کہہ رہی ہے یہ اپنے بچے ہیں تو اس کا مطلب یہی نکلا کہ عاشقان رسول ان کے بچے نہیں ہیں۔یہ فرق اور تقسیم کس کی جانب سے ہے؟ یہ تعصب اور نفرت کس کی طرف سے ہے؟ باقی آپ خود اپنے سوال اس میں شامل کر لیجئے۔
آخری بات یہ ہے کہ حکومت میں بیٹھے حکمرانوں کو یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ حکومتیں انصاف سے چلتی ہیں ناانصافی سے نہیں۔اگر ملک کو ترقی کے راستہ پر لے جانا ہے۔ وشو گورو بنانا ہے تو مسلمانوں سے نفرت ختم کرنی ہوگی، ان کے ساتھ کی جانے والی ناانصافیوں کو بند کرناہوگا۔ہندو راشٹر بنانے کی ضد چھوڑنی ہوگی اور آئین کے مطابق کام کرنا ہوگا۔اگر ایسا حکومت کرتی ہے تو ہم اس کے ساتھ ہیں ورنہ 25/کروڑ مسلمانوں کی آواز کو جیل کی سلاخوں میں قید نہیں کیا جا سکتا۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)