عبدالسلام عاصم
وطن عزیز کے مراعات یافتہ ہندو اور مسلمان یعنی اپنے اپنے فرقوں کے خواص جس روز اپنی سوچ، بیانیہ اور طرز عمل بدلیں گے اُس دن انہیں سب سے پہلے اس بات کا ادراک ہو گا کہ انتہا پسندیا آتنکی آسمان سے نہیں اترتے بلکہ ایسے اعتدال پسند گھرانوں میں پیدا ہوتے ہیں جہاں تعلیم و تربیت کے نام پر بچوں کے اندر راست اور بالواسطہ دونوں طور پربے جا توقیر اور ہتک کا جذبہ جگایا جاتا ہے۔
اِس ادراک کا پہلا امکانی فائدہ یہ ہو گا کہ وہ لوگ بھی روز مرہ کی زندگی سے عام ہندوستانیوں کی طرح پیش آنے لگیں۔ اِس طرح ممکن ہے کہ انہیں بین فرقہ معاملات سے ہر وقت ایسی بُو آنی بند ہو جائے جو انہیں حال سے زیادہ ایک ایسے مستقبل کے رُخ پر پریشان کرتی ہے جس میں مسلمان افسانوی عظمت رفتہ کی بحالی کے خواب دیکھتے ہیں اور ہندو مفروضہ عہد ِغلامی سے نجات کی راہ بے ڈھنگے طریقے سے نکالنا چاہتے ہیں۔
عام ہندو کو آج بھی عام مسلمانوں کی آبادی سے زیادہ اس کی خستہ حالی کی پرواہ ہے ۔ وہ اُنہیں ارتقا کے سفر میں شانہ بشانہ دیکھنا چاہتا ہے۔ اسی طرح عام مسلمان بھی ہندوتوکی تشریحات میں اُلجھنے سے زیادہ ہندوؤں کی خوشگوار ہمسائیگی انجوائے کرنا چاہتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے دونوں اپنے اپنے حلقوں کے اُن خواص سے پریشان ہیں جنہوں نے سیاسی، سماجی اور تہذیبی تعبیرات کا ٹھیکہ از خود اٹھا رکھا ہے اور خیرخواہی کے نام پر عام لوگوں کا جینا حرام کئے ہوئے ہیں۔
بابا کہتے تھے کہ جس اندھیرے سے بچے ڈرتے ہیں اگر وہ اندھیرا (صرف جسمانی طور پر) بالغوں کو بھی ڈرانے لگے تو سمجھ لو معاشرہ جمود کا شکار ہو گیا ہے۔ عصری ہندستان اِسی آزمائش سے گزر رہا ہے، جہاں ہندو مسلم اختلافات اور جھگڑے معمول کی بات بن گئے ہیں اور امن و اتحاد کی باتوں کو لوگوں نے خالی اوقات گزارنے کے اہم موضوعات میں بدل دیا ہے۔ گویا ہر ظرف خالی ہے اور چاروں طرف بس بے ہنگم صدائیں گونج رہی ہیں۔ ایسے میں جو نسل پروان چڑھ رہی ہے اسے سب کچھ مل رہا ہے لیکن وہ ’’ذہنی بلوغت‘‘ نہیں مل رہی ہے جو ارتقاء کے سفر کیلئے ناگزیر ہے۔
جہاں سجدے بددعاوں سے آلودہ ہوں اور پرارتھناوں کا رخ ایک ایسی نجات کی طرف ہو جس کا راستہ خاک و خون سے گزرتا ہے وہاں غیر صحت مند سوچ رکھنے والا ہندو مسلمانوں کو اپنے مستقبل کیلئے خطرہ سمجھتا ہے اور حال سے پریشان مسلمان ماضی میں پناہ ڈھونڈتا پھرتا ہے۔نتیجتاً دونوں خیالی دنیا میں جینے لگتے ہیں ۔خدا لگتی کہی جائے تو یہ ساری کارستانیاں عملاً دونوں طرف کے اسباق رٹنے والوں کی ہیںجنہیں تاریخ دہرانے سے فرصت نہیں کہ وہ اُس سے سبق بھی حاصل کر سکیں۔ دونوں طرف کے گنتی کے چند پڑھے لکھے لوگ ان منفیات سے بچ کر جی تو لیتے ہیں مگر وہ کوئی ایسی تبدیلی لانے کے متحمل نہیں جس کی روشن مثال یورپ پیش کرتا ہے۔
ایسے میں جو دن خیریت سے گزر جاتے ہیں وہ عام لوگوں کو وقتی خوشی ضرور بخشتے ہیں لیکن اِس کا اخباروں میں کہیں کوئی ذکر نہیں آتا۔ ”آج سب خیریت رہی” یہ کسی اخبار کی سرخی نہیں بنتی، البتہ سرورق کی یہ کمی بعض کالم نگار ادارتی صفحات پر اپنی تلخ و ترش تحریروں سے پورا کر نے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔کم علم معاشرے میں ویسے بھی اچھی چیز سے زیادہ بُری چیز دیکھنے اور سُننے والوں کی توجہ اپنی طرف کھینچتی ہے۔خوبصورت چہرے کے وسیع حلقے میں ایک چھوٹا سے زخم بھی دیکھنے والی کی نوے فیصد توجہ اپنی طرف کر لیتا ہے۔ ایسے میںکوئی ناظراگر دین و دنیا دونوںکا تاجر ہے تو وہ اس موقعے کو اپنے بے ہنگم نسخوں سے کیش کرنے میں لگ جاتا ہے۔ تختہ ء مشق بننے والوں پہ کیا گزرتی ہے اس سے ہم سبھی اپنے اپنے طور پر واقف ہیں۔
عام لوگوں پر عذاب بنے خواص کی ذہنیت مرحلہ وار اس قدر تاجرانہ ہو گئی ہے کہ وہ ملک اور عوام کے اجتماعی نقصان کے تعلق سے بظاہربے حس ہو کر رہ گئے ہیں۔ دوسری طرف اُن کی لن ترانیاں اور کہانیاں سُن سُن کر عملاً گمراہ ہوجانے والے کبھی اپنے مقلدوں کے ساتھ جنتر منتر پر جمع ہوکرسب کچھ اُگل دیتے ہیں توکبھی نفاق سے منافع کشید کرنے والے ایک سے زیادہ اتحاد کانفرنسیں منعقد کرکے اپنی دھاک اور دھار آزمانے لگتے ہیں۔ لگتا ہے سارا کاروبار امداد باہمی کا ہے۔ حکومتیں کل بھی مراعات یافتگان کی اِس قسم کی عوامی مصروفیات سے اپنے محدود مفادات کے حق میں فیص اٹھاتی رہیں، موجودہ حکومت بھی بہ انداز دیگر اسی کو بھنا رہی ہے۔
وطن عزیز میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے مسائل (روٹی، کپڑا اور مکان) کم و بیش یکساں ہیں۔ لیکن دونوں فرقوں کے خواص کو اس ادراک سے زیادہ یکساں سیول کوڈ کے نفاذ اور عدم نفاذ سے دلچسپی ہے اور اسی دلچسپی کو قائم رکھنے کیلئے وہ حکومتوں کو بلیک میل یا ای میل کرتے رہتے ہیں۔ اقلیتی فرقوں میں جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے توسچر کمیٹی کی رپورٹ سے لے کرتعلیمی اداروں میں اقلیتی اور غیر اقلیتی نمائندگی کی ایک تازہ رپورٹ تک عملاً کہیں کوئی ایسی تبدیلی نہیں آئی جو حال کیلئے اطمینان بخش اور مستقبل کیلئے اپنے اندر اندیشوں کے بجائے امکانات رکھتی ہو۔ ایسا کیوں ہے یہ آپ لاکھ پوچھیں، وسوسوں کے تاجر اس کا ہرگزدوٹوک جواب نہیں دیں گے۔
سرگرم صحافی سہیل انجم نے اقلیتی اسکولوں سے متعلق ایک سرکاری رپورٹ کی جو نقل پیش کی اُس کے مطابق اقلیتی تعلیمی اداروں میں طلبہ کے انرولمنٹ کا جائزہ لینے پر پتہ چلا ہے کہ غیر اقلیتی فرقوں کے ساڑھے باسٹھ فیصد طلبہ نے ان اقلیتی اسکولوں میں داخلہ لیا ہے۔ سب سے زیادہ غیر اقلیتی طلبہ جین اسکولوں میں ہیں یعنی 81.41 فیصد۔ جبکہ مسلم اقلیتی اسکولوں میں غیر اقلیتی طلبہ کی شرح سب سے کم یعنی 20.29 فیصد ہے۔ عیسائی اسکولوں میں 74.01 فیصد غیر عیسائی طلبہ ہیںاور سکھ اسکولوں میں 75.50 فیصد غیر سکھ طلبہ ہیں۔جائزہ لینے والی کونسل نے یہ دیکھنے کے بعد کہ اقلیتی اسکولوں میں اکثریتی طلبہ کی اکثریت ہے، ان اسکولوں میں اقلیتی طلبہ کے ریزرویشن کی سفارش کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق مدارس کے نصاب میں یکسانیت نہیں ہے۔ وہاں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ دنیا کے دوسرے بچوں کے مقابلے میں کم علم ہیں۔ بہت سے طلبہ میں احساس کمتری پیدا ہو جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ دنیا کے دیگر بچوں کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہو پاتے۔ اس کے علاوہ مدرسوں میں اساتذہ کی ٹریننگ کا بھی کوئی انتظام نہیں ہے۔
مجموعی منظرنامے کایہ ایک پہلو ہی سوچنے اور سمجھنے والوں کو یہ تحریک دینے کیلئے کافی ہے کہ وہ اپنے معاشرے کے مراعات یافتگان کا دامن حشر سے پہلے یہیں پکڑلیں اور کسی تشدد کے بغیر اُنہیں منصب بدر کردیں تاکہ مقصد کُن کے رُخ پرہندستانی ملت اسلامیہ بھی اُسی طرح آگے بڑھ سکے جس طرح دیگر ترقی یافتہ اقوام نے اپنا سفر طے کیا ہے۔بحیثیت انسان دوسروں کی طرح ہم پر بھی فرض ہے کہ ہم بنیادی انسانی ضرورتوں اور سہولتوں کی رسائی عام کرنے کو دیگر تمام ایسی سرگرمیوں پر ترجیح دیں جو اہم ہوتے ہوئے بھی ثانوی ہیں۔جس دن ہم اس ادراک میں عملاً کامیاب ہوگئے اُس دن ہم اپنی اُس دعا کا حق بھی ادا کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے جس میں ہم آخرت سے پہلے دنیا میں بھلائی چاہتے ہیں۔ رَبَّنَا آتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً۔۔۔