رام پور :
زکوٰۃ کا مقصد اجتماعیت ہے، اسے اجتماعی سطح ہی پر ادا کیاجانا چاہئے۔ انفرادی طور پر ادا کرنے سے زکوٰۃ تو ادا ہوجائے گی لیکن اس کی فرضیت کے مقاصد فوت ہوجائیں گے۔ اجتماعی نظم زکوٰۃ ہی اس کی وصولی اور تقسیم کا بہتر انداز ہے۔ عہد نبویؐ اور عہد خلافت راشدہ میں یہی طریقہ رائج تھا۔ قرآن سے بھی اسی کا ثبوت ملتا ہے۔ زکوٰۃ کی فرضیت کا مقصد اسلامی معاشرہ کی اقتصادیات کو مضبوط کرنا اور معاشی طور پر کمزور افراد کی حالت کو درست کرنا ہے۔ ان خیالات کا اظہار معروف عالم دین اور جامعۃ الصالحات رام پور کے استاد حدیث مولانا عبد الخالق ندوی نے ایک آن لائن خطاب میں کیا۔ انھوں نے کہاکہ زکوٰۃ وہ مال ہے جسے اللہ کا حق سمجھ کر بغیر کسی فخر اور نمود کی طلب کے خالص اللہ کی رضا اور مال میں برکت کی غرض سے اس کے حق داروں میں تقسیم کیا جائے۔ 82 آیات میں نماز کے ساتھ اس کی ادائیگی کی تاکید ہے۔ اس کے ادا نہ کرنے پر سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں۔ زکوٰۃ نہ دینے سے اللہ تعالیٰ بارشیں روک لیتا ہے، یہاں تک کہ اگر زمین پر مویشی نہ ہوں تو ایک بوند بارش نہ برسے۔
مولانا عبد الخالق ندوی نے کہا کہ زکوٰۃ کا منکر کافر اور اس کی ادائیگی نہ کرنے والا یا اس میں ٹال مٹول کرنے والا سخت گنہگار ہے۔ زکوٰۃ دینے سے مال گھٹتا نہیں بلکہ اللہ اس میں برکت اور اضافہ فرماتا رہتا ہے۔ 5.2 فیصد مال نکالنا ایک طرف دنیا و آخرت کی تباہیوں سے بچنے اور دوسری طرف مال کی پاکیزگی کا بھی ذریعہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ زکوٰۃ کو اللہ نے قرض حسن کہا ہے جو بندہ خدا کو دیتا ہے اور اس پر اسے بہترین بدلہ ملنے والا ہے۔زکوٰۃ نفس کی تربیت کا بھی ایک ذریعہ ہے کیونکہ نفس بخل کا عادی ہے اور زکوٰۃ اس عیب کو دور کرکے جود و سخا کی صفات پیدا کرتی ہے۔ اگر ہر مسلمان زکوٰۃ ادا کرے تو معاشرے میں کوئی بھوکا نہ رہے۔
مولانا نےکہا کہ زکوٰۃ کے لئے صاحب نصاب ہونا شرط ہے۔ عہد نبویؐ میں نصاب زکوٰۃ 5.7 تولے سونا یا 5.52 تولے چاندی قائم کیا گیا تھا۔ مولانا عبد الخالق نے زکوٰۃ سے متعلق اہم اور بنیادی مسائل پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ روز مرہ استعمال کی اشیاء پر زکوٰۃ نہیں ہے جیسے گھر، کپڑے، کھانے پینے کی چیزیں، آلات روزگار وغیرہ۔ انھوں نے کہا زکوٰۃ کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ جس مال پر زکوٰۃ فرض ہے اس پر ایک مکمل ہجری سال گزر چکا ہو اور سال کے کسی حصے میں وہ نصاب سے کم نہ ہوا ہو، لیکن زرعی اجناس پر یہ شرط لاگو نہیں ہوتی۔ ان کی زکوٰۃ کٹائی کے دن ہی نکالنا ضروری ہے، جب کہ سال گزرنے کا اطلاق صاحب نصاب ہونے کی تاریخ سے ہوگا۔ مولانا نے کہا کہ زکوٰۃ کی ادائیگی کے وقت نیت بھی ضروری ہے۔ مقروض پر زکوٰۃ نہیں ہے البتہ اگر قرض ادا کرنے کے بعد بھی وہ صاحب نصاب رہے تو اس پر زکوٰۃ لازم ہوگی۔ یتیم کے مال سے اس کا سرپرست سرمایہ کاری کر کے زکوٰۃ نکالے گا۔ اسی طرح اگر کوئی شخص اس حال میں مر جائے کہ اس کے ذمہ زکوٰۃ ہو تو اس کے ورثا پر لازم ہوگا کہ وہ اس کے مال سے زکوٰۃ ادا کریں۔