ــــــــ
از ـ محمود احمد خاں دریابادی
پھر رمضان آگیا، مبارک مہینہ جسے شہراللہ بھی کہا گیا ہے، جس میں نفل کا ثواب فرض اور فرض کا ثواب ستر گنا زائد ملتا ہے، غالباً اسی لئے اس ماہ میں عموماً مسلمان زکوٰۃ ادا کرتے ہیں تاکہ فریضے کی ادائیگی کے ساتھ ستر گنا ثواب کے حقدار بھی بن سکیں، دیگر عطیات، صدقات بھی اسی لئے رمضان میں زیادہ دیئے جاتے ہیں، ……… مسلمانوں کی زکوٰۃ وعطیات جہاں دیگر مصارف میں صرف ہوتے ہیں وہیں ایک بہت بڑا حصہ ملک بھر میں چلنے والے مدارس اسلامیہ میں بھی پہنچتا ہے۔ ـ
ہندوستان میں مدارس اسلامیہ کا وجود کتنا ضروری ہے یہ ہر سمجھدار آدمی جانتا ہے، مدارس اسلامیہ ہی نے اس ملک میں اسلامی تعلیمات، دینی تشخص اور مسلم شناخت کی حفاظت کی ہے، آج اگر ملک میں کرتا، پاجامہ، داڑھی، ٹوپیاں نظر آتی ہیں یہ مدارس کا ہی فیض ہے، ہر مسجد میں امام مؤذن، مدارس ومکاتب کے اساتذہ، علماء، مفتی، محدث، مفسر، مبلغ اور واعظین بھی مدرسوں کی دین ہیں ـ بلکہ کوئی مانے یا نہ مانے اردو زبان بھی اگر کسی حد تک یہاں محفوظ ہے تو محض اس لئے کہ یہ مدارس کی تعلیمی زبان ہے۔ ـ
1857 کے بعد ہمارے اکابرین نے جب قوم کے احساس کمتری کو دور کرنے، شکست خوردہ نفسیات سے نکالنے، اسلامی تعلیمات کی اشاعت، دینی شعائر کی حفاظت اور مسلم شناخت کے تحفظ کے لئے ادارے قائم کرنے کا منصوبہ بنایا تو ان کی کفالت کی ذمہ داری کسی حکومت یا کسی رئیس کو دینے کے بجائے عام مسلمانوں کے سپرد کرنے کا فیصلہ کیا، چنانچہ مدارس قائم کئے گئے اور وہ چھوٹے چھوٹے چندوں اور عام لوگوں کے عطیات کے ذریعے چلنے لگے، الحمد للہ یہ سلسلہ اب تک جاری ہے، اکابر کی دور رس نگاہوں نے جو فیصلہ کیا تھا اس کے نیک ثمرات آج سب کے سامنے ہیں ـ۔
پچھلے سال سے ایک نئی صورت حال سامنے آئی ہے، ساری دنیا ایک پراسرار بیماری کورونا وائرس کی زد میں ہے، اس لئے پچھلا رمضان سخت لاک ڈاؤن میں گزرا، مدارس کے سفرا سفر نہیں کرسکے، رمضان بعد بھی تقریبا ًیہی صورت حال رہی، سال بھر کوئی چندہ نہیں ہوا، ……… اس کا نتیجہ یہ نکلا سارے مدرسوں کا بجٹ بگڑ گیا، بہت سے مدرسوں میں اساتذہ کی تنخواہیں نہیں دی جاسکی ہیں، ہمارے محترم علماء کرام جو مدرسوں کی خدمت کررہے ہیں عموماً ان کے گھریلو حالات ناگفتہ بہ ہیں، بے چارے عزت نفس کی وجہ کہیں سوال بھی نہیں کرسکتے۔ ـ
اس سال پھر لاک ڈاؤن جیسے حالات بن رہے ہیں، پراسرار بیماری بڑھتی ہی جارہی ہے ـ سفیرا کا آنا مشکل نظر آرہا ہے، ……… اب کیا ہوگا؟ کیا اس سال بھی مدارس چندے سے محروم رہ جائیں گے، کیا مدارس کے علماء کے یہاں اللہ نہ کرے فاقوں کی نوبت آجائے گی، ………. ! یاد رکھئے مدارس، مساجد اور دیگر دینی مراکز کو قائم رکھنے اور ان کےتحفظ کی ذمہ داری ہم سب کی ہے، ……… خدانخواستہ مدارس بند ہوگئے اور وہاں خدمت کرنے والے فاقہ کشی کا شکار ہونے لگے تو کل حشر میں ہم سب کو اس کاجواب دینا ہوگا ـ ہم اللہ کو کیا منہ دکھائیں گے، اپنے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا سامنا کیسے کریں گے ؟
وہ تو اہل مدارس کا احسان تھا کہ اپنے سفرا ہم تک بھیجتے تھے انھیں ہم اپنی زکوٰۃ و عطیات دے کر اپنے فریضے سے سبکدوش ہوجاتے تھے، ورنہ حقیقت میں تو یہ ہماری مذہبی ذمہ داری ہے کہ ہم اپنی زکوٰۃ خود جاکر مستحقین تک پہنچائیں، جس طرح نماز ہمارے اوپر فرض ہے ہم خود مسجد جاکر اپنا فرض ادا کرتے ہیں اسی طرح زکوٰۃ بھی فرض ہے، کل کو جب ہم سے سوال ہوگا تو ہم یہ کہہ کر اپنی جان نہیں چھڑا سکیں گے کہ باری تعالیٰ ہم کیا کرتے مدرسے کا کوئی سفیر ہی ہم تک نہیں پہنچا تھا۔ ـ اس لئے اگر سفرا ہم تک نہیں پہنچتے تو ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنی اعانت کسی بھی ذریعے سے شخصی طور پر ہو یا ڈاک کے ذریعے مدرسوں تک پہنچائیں ، آج کل تو بینک اکاؤنٹ میں آن لائن بھی رقم بھیجی جاسکتی ہے۔ ـ
مدارس کو بھی چاہئے کہ درج ذیل اقدامات پر فوری توجہ کریں ـ
۱ -کسی نیشنلائز بینک میں اکاؤنٹ کھلوائیں، جس میں آن لائن رقم بھیجی جاسکتی ہو ۔
۲ -ـ عموماً مدارس میں مستقل چندہ دھندگان کی فہرست پتوں کے ساتھ محفوظ ہوتی ہے، انھیں ایک خط بھیجیں جس میں بینک اکاؤنٹ کی تفصیل ہو اور براہ راست زر تعاون بھیجنے کی درخواست کریں۔ ـ
۳ -ـ جو بھی رقم موصول ہو وصولیابی کی اطلاع فوراً ارسال کنندہ کو بھیجیں، ممکن ہو تو وہاٹس ایپ، ای میل ورنہ ڈاک سے بھیج دیں ،ـ رسید بھی ارسال کریں ۔ـ
۴ -ـ رمضان بعد جب نیا تعلیمی سال شروع ہوگا تو طلبا کی تعلیم کی کیا کیفیت ہوگی اس پر بھی ابھی سے غور کرکے رکھنا چاہئے، بہتر ہوگا کہ تمام اہم مدارس کی آن لائن کانفرنس منعقد کی جائے اور اس پر غور کرنا چاہئے تاکہ مدارس جس مقصد کے لئے قائم ہوئے تھے اس میں کوتاہی نہ ہو ـ دارالعلوم دیوبند اور ندوہ جیسے مرکزی اداروں کو اس سلسلے میں پہل کرنی چاہیے۔ ـ
یہ چند معروضات تمام مسلمانوں اور اہل مدارس کی خدمت میں پیش کی جارہی ہیں، امید ہے دانشوران قوم اور ملت کے سرکردہ افراد توجہ فرمائیں گے ـ۔
پس نوشت : زکوٰۃ کے مصارف اور بھی ہیں، غریبوں، مسکینوں، اقربا اور پڑوسیوں میں جو مستحق ہوں انھیں بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے ـ۔