مصنف: صلاح الدین زین
افغانستان میں طالبان کے قبضے کے بعد سے ہی بھارت میں کافی تشویش پائی جاتی ہے اور اسی صورت حال پر تبادلہ خیال کے لیے مودی حکومت نے گزشتہ شام کو سلامتی امور سے متعلق کابینہ کا اجلاس طلب کیا تھا۔ اطلاعات کے مطابق اس اجلاس میں بھارت پر پڑنے والے اس کے اثرات کا جائزہ لیا گیا ہے۔
دوسری جانب ریاست اتر پردیش کی بی جے پی حکومت نے طالبان کی سرگرمیوں کے حوالہ دیتے ہوئے بھارت میں مذہبی درسگاہ کے لیے معروف مقام دیوبند میں ایک ‘اینٹی ٹیررازم اسکواڈ (اے ٹی ایس) کے لیے تربیتی مرکز کھولنے کا اعلان کر دیا ہے۔
ضلع سہارنپور کا قصبہ دیوبند اپنے تاریخی مدرسے دارالعلوم دیوبند اور فقہ اکیڈمی کے لیے عالمی سطح پر معروف ہے۔ دیوبند میں مسلمانوں کی اکثریت ہے اور نسبتا پر امن علاقہ ہے جہاں شاذ و نادر ہی کوئی ناخوشگوار واقعہ واقعہ پیش آتا ہے۔
یو پی کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ کے میڈیا مشیر سولبھ ترپاٹھی نے اس حوالے سے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا، "طالبان کی بربریت کے درمیان یو پی کی بھی خبر سن لیجیئے، یوگی جی نے فوری طور پر دیوبند میں اے ٹی ایس سینٹر کھولنے فیصلہ کر لیا ہے۔ اس پر ہنگامی بنیادوں پر کام بھی شروع ہو گیا ہے۔
یوگی آدتیہ ناتھ کے مشیر نے مزید لکھا کہ ریاست کے تیز طرار ڈیڑھ درجن کمانڈوز کو فوری طور پر دیوبند میں تعینات کیا جا رہا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا، "اس فیصلے سے ان لوگوں کو تکلیف ہو رہی ہے جو دہشت گردوں کو پناہ دیتے ہیں۔”
بر صغیر میں دیوبندی مکتبہ فکر کے ماننے والوں کی اچھی خاصی تعداد ہے اور بیشتر طالبان کا تعلق بھی اسی مکتبہ فکر سے ہے۔ شاید اسی وجہ سے بی جے پی حکومت نے کمانڈوز کی ٹریننگ کے لیے دیوبند میں جو ادارہ کھولنے کا منصوبہ پیش کیا ہے اسے طالبان سے لنک کرنے کی کوشش کی ہے۔
دارالعلوم دیوبند ہی کے سربراہان جمعیت علماء نامی بہت معروف اسلامی تنظیم بھی چلاتے ہیں اور اس حوالے سے جب ڈی ڈبلیو اردو نے دارالعلوم سے رابطہ کیا تو بتایا گيا کہ انہیں کمانڈوز کے ایک کیمپ بارے میں پتہ چلا ہے تاہم وہ ایسی کسی خبر سے مطلع نہیں ہے کہ اسے طالبان سے لنک کیا گيا ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ اس ٹویٹ کا جائزہ لے کر اس کا جواب دینے کی کوشش کی جائے گی۔
اس دوران ریاستی پولیس کے ایک سینیئر افسر پرشانت کمار نے بھی دیوبند میں تربیتی مرکز کھولنے کی یہ کہہ کر تصدیق کی ہے کہ دیوبند کی اسٹریٹیجک اعتبار سے بڑی اہمیت ہے اور اسی لیے اے ٹی ایس مرکز کا فیصلہ کیا گیا ہے اور اس کے لیے دو ہزار میٹر کی اراضی بھی حاصل کی جا چکی ہے۔
طالبان پر بیان کے لیے بغاوت کا مقدمہ
اس دوران یو پی کی پولیس نے ایک مسلم رکن پارلیمان سمیت متعدد مسلم شخصیات کے خلاف مبینہ طور پر طالبان کی حمایت میں بیان دینے پر بغاوت کا مقدمہ درج کیا گيا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ان افراد نے طالبان کے حوالے سے اشتعال انگیز بیان دیا تھا اور اسی لیے یہ کارروائی کی گئی ہے۔ واضح رہے کہ بھارتی حکومت کی نظر میں طالبان ایک دہشت گرد تنظیم ہے۔
مغربی یو پی کے ضلع سنبھل کے ایک پولیس افسر چکریش مشرا نے اپنا بیان محکمہ پولیس کی ویب سائٹ پر پوسٹ کیا ہے، جس میں وہ کہتے ہیں، "سنبھل سے رکن پارلیمان ڈاکٹر شفیق الرحمان برق کے ساتھ ہی فیضان چودھری اور محمد مقیم کے خلاف متعدد دفعات سمیت ملک سے بغاوت کا مقدمہ درج کیا گيا ہے۔
پولیس کے مطابق اس کے علاوہ بھی بعض افراد نے سوشل میڈیا پر طالبان کے حوالے سے نا قابل قبول باتیں لکھی ہیں اور ان کے خلاف بھی کارروائی کی جا رہی ہے۔
شفیق الرحمان برق پارلیمان میں اپنے پر جوش خطاب کے لیے بھی معروف ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ ان کے بیان کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ طالبان نے اپنے آپ کو قائم رکھنے کے لیے روس اور امریکا کو بھی نہیں برداشت کیا، "وہ آزادی چاہتے تھے وہ ان کا اپنا معاملہ ہے۔ میں تو بھارتی شہری ہوں میرا افغانستان سے کیا لینا دینا۔
اس سے قبل ایک بیان میں یہ دعوی کیا گيا تھا کہ انہوں نے طالبان کا موازنہ بھارت کے مجاہدین آزادی سے کیا تھا تاہم برق نے اسے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس معاملے میں وہ بھارتی حکومت کے موقف کے حامی ہیں۔
(بشکریہ :ڈی ڈبلیو، نئی دہلی )