تحریر : مسعود جاوید
اسرائیلی حکومت ہمیشہ کی طرح فلسطینی اراضی پر مزید قبضہ کرنے کے ذرائع ڈھونڈنے کی کوشش کی مگر اس بار کامیاب نہ ہو سکا۔
اس بار اس نے یہودی گروہوں کو آگے بڑھایا ان لوگوں نے مشرقی یروشلم میں فلسطینی بستی شیخ جراح میں مکینوں کے خلاف جلوس نکالے ،عربوں کے خلاف نعرے لگائے، جھڑپیں ہوئیں اور اسرائیلی پولیس نے فلسطینی باشندوں کے مکانات منہدم کرنا شروع کیا تاکہ ان مقامات پر اسرائیل کی نوآبادی کی جا سکے۔ ان سب اشتعال انگیزی کے باوجود فلسطینیوں کا ردعمل مقامی نوعیت کا اور محدود تھا۔
اس کے بعد اسرائیلی فوج نے مسلمانان عالم کے لئے سرخ لکیر کا درجہ رکھنے والے مقام کو تجاوز کرتے ہوئے قبلہ اول مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی کی اور نہتے نمازیوں پر فائرنگ کرکے درجنوں کو زخمی کیا اور مسجد اقصیٰ کو پولیس چھاؤنی میں تبدیل کر دیا….
انجام کار فلسطینیوں کی عسکری ونگ حماس نے اسرائیل کو وارننگ دی کہ مسجد اقصیٰ خالی نہیں کیا گیا اور شیخ جراح میں انہدامی کارروائی اور اسرائیلی نوآبادی بسانے کے عمل کو نہیں روکا گیا تو جوابی کارروائی کی جائے گی۔
ظاہر ہے دنیا کی چار بڑی عسکری طاقتوں میں سے ایک کا درجہ رکھنے والے ملک اسرائیل نے اس وارننگ کو قابل اعتناء نہیں سمجھا تو مجبوراً فلسطینی صوبہ غزہ سے راکٹ داغے گئے ایک ہندوستانی نرس سمیت بارہ اسرائیلی ہلاک اور متعدد تعمیرات کو نقصان پہنچا، جوابی کارروائی میں اسرائیل نے ہوائی حملے کر کے فلسطینیوں کی جان و مال کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا63بچے سمیت223 فلسطینی شہید ہوئے۔ ظاہر ہے نقصان کا تناسبی فرق بہت بڑا ہے، لیکن یہ فرق بھی بہت بڑا ہے کہ ایک طرف جدید اسلحے سے لیس عسکری طاقت اور دوسری طرف قومی دینی عزم مصمم….. جدید ترین اسلحوں کے مد مقابل ایک چھوٹی سی عسکری ٹکڑی خودساختہ راکٹ اور ہزاروں اسلحوں سے بھاری فلسطینی یقین محکم۔
اسرائیل نے اس غیر متوازن جنگ کو پہلے مذہبی دہشت گردی کا نام دے کر مہذب دنیا کے ممالک سے اسلامی دہشت گردی گردی اسلامی جہاد کے نام پر ہمدردی اور تائید حاصل کرنے کی کوشش کی…. یہ بیانیہ بہت زیادہ نہیں چلا تو اسرائیل بنام ’تشدد پسند‘حماس اور اسرائیل بنام غزہ کا بیانیہ چلایا یہ بیانیہ عالمی طور پر چلا، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل بنام غزہ نہیں جنگ اسرائیل بنام فلسطین ہے ۔غزہ فلسطین کا ایک صوبہ ہے جس کی انتظامیہ فلسطین کی ایک سیاسی جماعت حماس کے پاس ہے اور جو فلسطین کے دفاع کے لئے اسلحے رکھتا ہے۔
افسوس آج بھی دنیا بھر کا میڈیا اسرائیل کے مقابل غزہ اور حماس کا ذکر کرتا ہے۔ خدانخواستہ دشمن ملک کا حملہ کسی ہندوستانی ریاست پر ہوگا تو کیا ہم دشمن ملک بمقابل اس ہندوستانی ریاست کہیں گے یا بمقابل ہندوستان کہیں گے !
خودمختاری …
پچھلے ستر سالوں میں غالباً یہ پہلا موقع ہے کہ فلسطینیوں نے خود مختاری کا ثبوت دیا ورنہ اس سے پہلے ہر بحران کے وقت فلسطینی رہنما قاہرہ ، عمان اور جدہ یا ریاض میں حاضری دیتے تھے ان کی سیاسی نمائندگی ڈپلومیسی مصر اور اردن اور مالی تعاون سعودی عرب اور خلیجی ممالک کرتے تھے…. فلسطینی رہنما ان کے مشوروں پر زیادہ تر عمل کرتے تھے، جبکہ وہ خوب جانتے تھے کہ ان معاون ممالک ، مصر ، اردن اور خلیج کے اپنے ذاتی مفاد امریکہ سے وابستہ ہیں جن کی بناپر وہ مکمل غیر جانبداری کے ساتھ امریکی موقف کے خلاف فلسطین کے بڑے عرب قومی اسلامی کاز پر اپنا مضبوط موقف اختیار کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔
اس بار کسی بھی عرب غیر عرب ملک کے فرمان کافلسطینیوں نے انتظار نہیں کیا اور نہ ہی ان کے رہنماؤں نے ان تینوں راجدھانیوں میں دست پستہ حاضری دی۔ اس بار فلسطینی ایک آزاد خودمختار independent and self determined قوم ہونے کا ثبوت دیا ہے ۔
اس سے پہلے فلسطینی قوم نے جو غلطی کی کہ1948 سے لے کر بعد کے سالوں میں جب جب اسرائیلی جارحیت کا سامنا ہوا لاکھوں فلسطینی اردن، مصر لبنان اور شام ہجرت کر جاتے اور پناہ گزین کی زندگی گزارتے تھے ہیں۔ وہیں سے ان کی آزادی کی قیادت کچھ مسلح و غیر مسلح جدو جہد کرتی تھی لیکن جلد ہی ان ممالک کی حکومتوں پر دہشت گردی کو زمین اور مدد فراہم کرنے کا الزام عائد کیا جاتا اور وہایسی سرگرمیوں پر پابندی لگا دیتے تھے اور قیادت کو ملک بدر ہونا پڑتا تھا….
اب فلسطینیوں نے طے کر لیا ہے اور اعلان کر دیا ہے کہ ’اب اور ہجرت نہیں کی جا سکتی‘… یہیں رہیں گے، یہیں لڑیں گے جیتیں گے یا مریں گے…
اپنی زمین چھوڑ کر جانے اور نہ جانے کے مثبت اور منفی پہلو دنیا بھر کی اقلیتوں کے لئے سبق ہونا چاہیے۔
میڈیا کی طاقت….
اس سے پہلے کے ادوار انفارمیشن ٹیکنالوجی اور آزاد میڈیا ہاؤسز کا دور نہیں تھا۔ اس دور میں اگر الجزیرہ سٹیلائٹ چینل نے آزادانہ زیرو گراؤنڈ سے رپورٹنگ عراق اور افغانستان میں کی تو قطر کا بھروسہ مند حلیف امریکی فوج نے اس کے آفس کو نشانہ بنایا یہ اور بات ہے کہ اس کے لئے ڈپلومیٹک لائنسنس‘ فرینڈلی اٹیک‘ کہہ کر معاملہ رفع دفع کیا گیا تھا۔
اس بار آزاد صحافت کے علمبردار’ جمہوری قدروں پر عملدرآمد کرنے والا مشرق وسطی میں واحد جمہوری ملک‘ اسرائیل نے بھی الجزیرۃ اور ایسوسی ایٹڈ پریس کے دفاتر جس عمارت میں تھے اس بلڈنگ کو زمیں بوس کر دیا جس کا نظارہ پوری دنیا نے دیکھا اور اسرائیل کی سخت مذمت کی گئی… اسرائیل نے سمجھا تھا کہ ان دونوں معتبر ایجنسیوں کے دفاتر اور آلات کو تہس نہس کرنے سے اس کے جرائم کی خبریں اور ویڈیوز باہر نہیں جائیں گی لیکن سوشل میڈیا اور آزاد یو ٹیوب اور نیوز پورٹل کے دور میں یہ اس کی خام خیالی تھی…. ہر لمحہ کی خبریں اور تصویریں دنیا تک بلا روک ٹوک پہنچتی رہیں اور دنیا کے ہر انصاف پسند اور انسان دوست نے ، بلا تفریق مذہب ملک رنگ نسل نے اسرائیلی جارحیت کی مذمت کی اور فلسطینیوں کے ساتھ اظہار ہمدردی کے پیغامات لکھے اور یکجہتی کے اظہار کے لئے سڑکوں پر مظاہرے کئے ۔
لوہا گرم ہے…
فلسطینی عوام پہلی بار فلسطین میںجشن فتح منا رہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پہلی بار فلسطینی عوام اپنے بل بوتے پر اپنی شرائط پر خواہ دوسو سے زائد لوگوں کی جانیں قربان ہوئیں ، کامیابی حاصل کی۔ جو نیتن یاہو سیز فائر کی اپیل پر یہ کہتا تھا کہ حماس کو ’نیست و نابود ‘کئے بغیر جارحیت نہیں رکے گی وہ سیز فائر پر راضی ہوا۔ فلسطینیوں نے کہا کہ اس کا عام اعلان ہو چنانچہ اسرائیلی کابینہ میں اس پر اس نے دستخط کیا۔
یہ فلسطینیوں کی بہت بڑی حصولیابی ہے اور اس حصولیابی کی ایک وجہ فلسطینیوں کے مختلف منتشر گروپس کا یک رائے یک زبان ہو کر اسرائیل کے مد مقابل کھڑا ہوناہے ۔ اس اتحاد کو برقرار رکھنے کے لئے ضرورت ہے کہ مغربی کنارے والے علاقوں میں محمود عباس کی قیادت والی فلسطینی اتھارٹی میں شفافیت کے ساتھ عام انتخابات ہوں، جو پچھلے کئی سالوں سے نہیں ہوا ہے، اسی طرح غزہ میں حماس قیادت کے ساتھ رشتے استوار کئے جائیں اور فلسطین کی متحدہ قیادت کی تشکیل ہو۔
ایک کھیل جو مغربی ممالک کے سربراہان کھیلتے آئے ہیں خواہ وہ ترکی ہو، الجزائر، ہو تونس ہو ،مراکش، یا مصر ہو اسلامی نظریات کی حامل پارٹیوں کے انتخابات میں جیت کو بھی قبول کر نے میں متذبذب ہوتے ہیں۔ یہی روش اسرائیل کی ہے وہ محمود عباس کی قیادت کو سیکولر مانتا ہے اور الفتح کی تائید کرتا ہے باوجودیکہ اس انتظامیہ پر کرپشن کے بہت سارے الزامات ہیں لیکن حماس کی جمہوری طور پر جیت ان سے ہضم نہیں ہوتی جبکہ اس کا ریکارڈ صاف ستھرا ہے۔
یہ وقت اور حالات کا تقاضا ہے کہ فلسطینی اپنے اختلافات کو بھول کر اتحاد قائم کریں اور دو ریاستی فارمولہ زمینی حقیقت ہے اسے تسلیم کر کے اپنی آزاد خود مختار ریاست فلسطین کی 67 سے پہلے والے رقبہ یعنی 48 فیصد فلسطین اور شمالی یروشلم پر قابض ہوں اور اس کی سرحدوں کی حفاظت کے لئے فلسطین کا مرکزی مسلح افواج کا قیام عمل میں آئے۔
آخر کب تک یہ معلوم قوم اقوام متحدہ، یوروپین اور اسلامی ملکوں کے مالی تعاون پر گزارہ کرے گی ۔ دنیا کی تقریباً ہر ملک فلسطین کے خودمختار ملک کے قیام کی تائید کرتا ہے۔ اب وقت ہے کہ مزید ریلیف بھیجنے کی بجائے اقوام متحدہ کی 1948 میں تقسیم کی بنیاد پر 48 فیصد زمین پر ایک آزاد خودمختار جمہوری ریاست قائم ہو جس کی معلوم سرحد ہو، سرحد کی حفاظت کے لئے اپنی مسلح فوج ہو، اپنی منتخب حکومت ہو، انفراسٹرکچر ہو، رفاہی خدمات کے ادارے ہوں، شہریوں کے پاسپورٹ ہوں اور کام کے مواقع ہوں۔