,
ایرانی سرکاری ٹی وی کے مطابق ابراہیم رئیسی کے ہیلی کاپٹر حادثے کے مقام پر ’زندگی کے کوئی آثار نہیں ہیں۔‘خبر رساں ادارے روئٹرز نے ایک ایرانی اہلکار سے بات کی ہے جن کا کہنا ہے کہ ہیلی کاپٹر ’پوری طرح جل چکا ہے۔‘ایرانی ٹی وی نے ویڈیو میں لکھا ہے کہ ’تاحال ہیلی کاپٹر کے مسافروں کے زندہ ہونے کے کوئی آثار نہیں ملے ہیں۔‘سرکاری چینل کے اینکر نے لائیو نشریات کے دوران کہا کہ ’یہ جملے کہنا مشکل ہیں لیکن اُن کے بچنے کی کوئی علامات نہیں ہیں
اس قبل کی اطلاع کے مطابق ایران کے سرکاری ٹی وی کا کہنا ہے کہ امدادی ٹیموں نے صدر ابراہیم رئیسی کو لے جانے والے ہیلی کاپٹر کے ملبے کی نشاندہی کر لی ہے۔
ایرانی ہلال احمر پیر حسین كليوند کا کہنا ہے کہ اس مقام کی نشاندہی کر لی گئی ہے جہاں صدر رئیسی کا ہیلی کاپٹر ایک حادثے کا شکار ہوا۔
ایرانی میڈیا نے غیر واضح تصاویر شائع کرتے ہوئے اسے جائے وقوعہ بتایا ہے۔
قبلانٹرنیٹ پر جعلی تصاویر اور گمراہ کن معلومات جو تیزی سے پھیل رہی ہے
ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کے ہیلی کاپٹر حادثے کی خبر کے بعد سے سوشل میڈیا غلط معلومات سے بھرا پڑا ہے۔
16 لاکھ ویوز والی ایک ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ایک ہیلی کاپٹر پہاڑی علاقے میں حادثے کا شکار ہوتا ہے۔ یہ دعویٰ کیا گیا کہ یہ وہی ہیلی کاپٹر ہے جس میں ایران کے صدر سوار تھے۔تاہم بی بی سی ویریفائی یہ تصدیق کر سکتا ہے کہ یہ ویڈیو جولائی 2022 کی ہے جب جورجیا میں بارڈر پولیس کا ریسکیو ہیلی کاپٹر کریش ہوا تھا۔
اسی طرح ایک لاکھ ویوز والی ایک تصویر میں تباہ حال ہیلی کاپٹر ظاہر کیا گیا اور دعویٰ کیا گیا کہ یہ حادثے کا مقام ہے۔یہ افواہ بھی گردش کر رہی ہے کہ ایران کے سرکاری ٹی وی نے معمول کی پروگرامنگ معطل کی ہے تاکہ رئیسی کی موت کا اعلان کیا جاسکے۔ تاہم ایرانی ٹی وی نے اپنی کوریج معطل نہیں کی ہے۔ یہ سرچ آپریشن کے حوالے سے اطلاعات شیئر کر رہا ہے۔
ایران کی فارس نیوز ایجنسی نے ایک ٹویٹ حذف کر دیا ہے جس میں دعویٰ کیا گیا کہ صدر رئیسی کے ہیلی کاپٹر نے محفوظ طریقے سے لینڈ کیا۔ یہ نیوز ایجنسی پاسداران انقلاب کے قریب سمجھی جاتی ہے۔ ان کی تصویر میں رئیسی کو ہیلی کاپٹر کے قریب دیکھا جاسکتا ہے۔
تاہم یہ تصویر جولائی 2022 کی ہے جب سیلاب کے بعد امدادی سرگرمیاں جاری تھیں۔ حقیقت یہی ہے کہ ہیلی کاپٹر اور اس میں سوار مسافروں کی کھوج جاری ہے