عبدالسلام عاصم
مغربی بنگال اور تمل ناڈو کے اسمبلی انتخابات کے نتائج بظاہر رُجحان ساز ہیں۔اس مرتبہ بنگال میں ممتا بنرجی کی تنہا قیادت نے جہاں ایک سے زیادہ کورونائی اور غیر کورونائی نامساعدات کا انتہائی بے باکانہ لیکن تدبر کے ساتھ مقابلہ کیا اور اپنی پارٹی کو تاریخی جیت دلائی، وہیں اس میں تمل ناڈو کی طرف سے حکومتی تبدیلی کا بظاہر روایتی اشتراک مستقبل میں دوررس نتائج مرتب کرتا نظر آتاہے۔ تمل ناڈو میں انا ڈی ایم کے کی جگہ ڈی ایم کے کا اقتدار میں آجانا ایک روایتی سلسلہ ہونے کے باوجود حالات کے تازہ موڑپر اپنے اندر ایک سے زیادہ مفہوم رکھتا ہے۔ مغربی بنگال اسمبلی انتخابات کے بھی اس بار دو نتائج سامنے آئے ہیں۔ پہلا اظہر من الشمس نتیجہ یہ رہا کہ ممتا بنرجی اپنی علاقائی پارٹی کی اقتدار کی کشتی کو کچھ اپنے اور کچھ دوسروں کے اعمال سے اُٹھنے ہونے والے طوفان کی پوری طرح زد میں آ جانے کے باوجود ڈوبنے نہیں دیا۔دوسرا نتیجہ وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ کی مشترکہ قیادت میں بی جے پی کے حق میں آیا ہے جو یہ ہے کہ اس قومی پارٹی نے بالآخر ریاست میں اپنے قدم مضبوطی سے جما لئے۔
دیگر ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام پڈوچیری کے نتائج بھی آ چکے ہیں۔ آسام میں نتائج بی جے پی کے حق میں اس لئے آئے کہ وہاں متبادل سوچ کی پکڑ مضبوط نہیں۔ ساتھ ہی وہاں فرقہ وارانہ سیاست کی کمان دونوں طرف مضبوط ہاتھوں میں ہے۔ اس کا بالواسطہ فائدہ بی جے پی کو پہنچا۔کیرالہ کے نتائج چونکانے ولے کم اور روایتی زیادہ ہیں۔پڈوچیری کا نتیجہ محدود نوعیت کا ہے۔
بنگال کے انتخابی نتیجے نے ممتا برانڈ کی سیاسی سوچ کو ایک بڑی راحت ضرور دی ہے لیکن الیکشن کے اعلان اور انتخابی جدول کے اجرا سے لے کر انتخابی مہم اور مرحلہ وار پولنگ تک یہ محسوس کیا گیا ہے کہ قومی سیاست میں نام نہاد سیکولرزم کوجن خرابیوں کی وجہ سے مسترد کیا گیا، اُن سے غیر بی جے پی پارٹیاں بشمول ترنمول کانگریس ابتک نجات حاصل نہیں کر سکی ہیں۔ اگر موجودہ مرکزی حکوت نے کسان تحریک اور کورونا رُخی اقدامات کے محاذ پر سماجی سروکار کے تئیں اپنے مجموعی رویے سے لوگوں میں بے اطمینانی پیدا نہ کر دی ہوتی توممتا بنرجی کیلئے بی جے پی کی طوفانی انتخابی مہم کی تاب لانا اتنا آسان نہیں ہوتا۔ میرے خیال میں بنگال کی روایتی سیاسی سوچ جو ایک حد تک مستقبل رُخی ہوتی ہے، وہ موقع سے کام کر گئی جس کے نتیجے میں وہاں کے ووٹروں نے ترنمول کو اقتدار سے بے دخل کرنامناسب نہیں سمجھا۔
جیسا کہ اوپر ذکر کر چکا ہوں، بنگال کا انتخابی نتیجہ اس بات کا بھی مظہر ہے کہ سیکولرزم کی دعویدار پارٹیاں آپس میں ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کی جتنی طاقت رکھتی ہیں اتنا وہ اُس محاذ پر موثر نظر نہیں آتیں جہاں ہونا چاہئے۔ ایسا شاید اس لئے ہے کہ اُنہیں ایسے کسی اتحاد سے اُتنی دلچسپی نہیں جس سے اُن کے محدود مفادات کی تکمیل نہیں ہوتی۔ بصورت دیگر نندی گرام میں ممتادی کوجیتنے سے پہلے کبھی ہار کبھی جیت کے آزمائشی مرحلے سے گزرنا نہیں پڑتا۔کسی بھی وزیر اعلی کی اپنی الگ پہچان ہوتی ہے جس کا پاس رکھا جانا چاہئے۔ ازکار رفتہ ہو کر رہ جانے والی کمیونسٹ پارٹیوں کو اس کا ادراک کیوں نہیں، اس کی بہتر وضاحت وہی کر سکتی ہیں۔سی پی آئی ایم کی میناکشی مکھرجی کو نندی گرام میں ووٹوں کو خراب نہیں کرنا چاہئے تھا۔
بہر حال اب تو جو ہونا تھا ہو گیا۔ ممتا بنرجی کو جو لوگ مغربی بنگال میں بایاں محاذ کی حکومتوں کے زمانے سے جانتے ہیں، انہیں یہ بھی پتہ ہے کہ وہ جوش کے ساتھ اب ہوش سے بھی کام لینے لگی ہیں۔انہوں نے کانگریس میں رہنے اور نکل کر ایک نئی پارٹی بنانے تک کے اپنے سفر میں ایک سے زیادہ تجربے کئے، جن میں ان کا این ڈی اے کا حصہ بننا بھی شامل ہے۔این ڈی اے میں شامل ہو کرپھر اس سے الگ ہونے والوں میں بیشتر نے جہاں اپنی پہچان کھو دی وہیں ممتا نے اپنے وقار کا سودا کبھی نہیں کیا۔باوجودیکہ عمر کی جس منزل سے وہ گزر رہی ہیں اُن سے اب کسی ایسی لمبی اننگ کی توقع نہیں کی جاسکتی جس میں وہ وزارت عظمی تک کا سفر کر سکیں لیکن اُنہیں درون جماعت ایسے عناصر پر قابو ضرور پانا چاہئے جن کی وجہ سے پارٹی میں سکنڈ لائن قیادت اب تک واضح طریقے سے نہیں ابھر پائی ہے۔
نندی گرام میں انہیں قسمت آزمانے کی ضرورت ہرگز پیش نہیں آتی اگر پارٹی میں نااہل لوگوں نے انہیں اس قدر گھیر نہ رکھا ہوتا۔درونِ جماعت غرض مندوں کی پشت پناہی بعض اوقات مہنگی پڑتی ہے۔ اہل اور طاقتور ساتھی اپنا راستہ الگ کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ماضی میں خود ممتا دی کانگریس سے اسی بنا پر الگ ہو گئی تھیں۔ سماجی اور اقتصادی مسائل سے دوچارر ملکوں میں سیاست چونکہ انتہائی موقع پرستانہ کھیل ہے اس لئے حالات کو یکسر بدلنے کی طاقت نہ رکھنے والے لیڈر کو بہت زیادہ دور بین ہونا چاہئے۔ مزید یہ کہ ملک میں اقلیتی ووٹ بینک کے نتیجے میں اکثریت کا ووٹ بینک قائم کرنے کا رجحا ن ختم کرنے کیلئے سیکولر پارٹیوں کو زبانی جمع خرچ سے آگے بڑھ کر کام کرنا ہوگا۔
وطن عزیزمیں عوام کو جو مسائل درپیش ہیں وہ اکثریت اور اقلیت کے لئے الگ الگ نہیں ہیں۔ فرقہ پرستی اگر نقصان دہ ہے تو دونوں کے لئے ہے۔روٹی روزی کی ضرورت دونوں کو یکساں شدت کے ساتھ ہے۔ پچھلے سال کورونا کے رُخ پر ناگزیر لاک ڈاون سے پڑنے والے خلل کی مار نقل مکانی کرنے والے جن مزدوروں پر پڑی تھی، اُن کا تعلق بالترتیب زیادہ اور کم اکثریت اور اقلیت دونوں سے تھا۔ تعلیم، روزگار، گھر کی ضرورت سب کو ہے۔ حکومتوں کو چاہئے کہ وہ اقلیت یا اکثریت کی منھ بھرائی کرنے کے بجائے اِن ضرورتوں کو پورا کریں۔
ایسا بہر حال اُسی وقت ہوگا جب قومی سیاست حقیقی معنوں میں سیکولر نوعیت کی ہوگی اور اُس میں حکومتیں مدارس، مٹھوں، درگاہوں، آشرموں کی فنڈنگ کرنے،تیوہاروں کی سہولتیں فراہم کر نے اورزیارت اور تیرتھ کرانے کا جذباتی دھندہ کرنے کے بجائے رات دن محنت کر کے نئی نسل کی خاطرعصری تعلیمی تقاضوں سے ہم آہنگ حقیقی اسکول، کالج، یونیورسٹیاں قائم کریں گی اور بہترین سہولتوں کے ساتھ سڑکیں، تفریحی مقامات اور اسپتال قائم کرنے کو اولین ترجیح دیں گی۔
اسمبلی انتخابات کے نتائج سے محدود خوشی کشید کرنے اور غم کا اظہار کرنے میں وقت کے زیاں کو روکنا کیسے ممکن ہوگا! اِس پر سماج کے ہر اُس طبقے کو غور کرنا چاہئے جسے مسائل کی تجارت پسند نہیں۔ ایسے طبقے محدود نہیں، پھیلے ہوئے ہیں۔ انہیں بس متحرک کرنا ہے اور یہ کام اُسی میڈیا کو کرنا چاہئے جس کا ہم فائدہ اور نقصان دونوں کا تجربہ رکھتے ہیں۔ ذرائع ابلاغ کی دنیا کی رسائی اب چند لوگوں، ہاتھوں یا ذہنوں تک محدود نہیں۔دنیا میں اِس سے استفادہ کر کے ہی مثبت اور منفی تبدیلیاں آرہی ہیں۔ کورونا سے متاثر زندگی جو آج کل گھروں میں قید ہوکر رہ گئی ہے، سوشل میڈیا کے ذریعہ ہی اپنی ضرورتوں کی تکمیل کر رہی ہے۔یہ تبدیلی از خود ایک رجحان ساز تبدیلی ہے۔ اگر ابھی سے اس کا رُخ تعمیر و تشکیل کی طرف موڑ دیا گیا تو عجب نہیں کہ آنے والا کل ایک سے زیادہ محاذوں پر ہمارے لئے نجات دہندہ ہو۔
اگلے کچھ دنوں میں چاروں ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام پڈوچیری میں نئی حکومتیں بن جائیں گی۔زندگی اُن معمولات کی طرف پھر لوٹ جائے گی جن سے ہم یومیہ رجوع کر کے دن، ہفتے، مہینوں اور سال کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔آئیے اس عمل میں ایک اضافہ اور کرتے ہیں: زندگی کے احترام، بہتر ہمسائیگی،احسن کنبہ پروری اور دنیا داری کو سب کے لئے نفع بخش بنانے اور اسے استحکام بخشنے کا۔ الیکشن لڑنے، جیتنے اور ہارنے کا دائرہ رنگ اور نسل، ذات اور مذہب تک محدود رکھ کر ہم زندگی کی لا محدود نعمتوں تک عام رسائی کبھی ممکن نہیں بنا پائیں گے۔ لہذانئی حکومتیں اس بات کو یقینی بنائیں کہ اب مرکزی خطوں، ریاستوں اور ملک کا ہر بچہ روزانہ اسکول جائے گا اور جسمانی بلوغت کا سفر ذہنی بلوغت کے ساتھ طے کرے گا۔