اسرائیل اور ایران کے بڑھتے تنازعے کے دوران امریکی صدر ٹرمپ کے موقف میں مسلسل تبدیلی دیکھنے میں آ رہی ہے۔
جب جمعے کی صبح اسرائیل نے ایران پر حملے کیے تو امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے فوری طور پر اس کارروائی کو یکطرفہ قرار دیا اور ٹرمپ انتظامیہ نے اس سے دوری اختیار کی۔لیکن اب صدر اس آپریشن کو مزید کھلے دل سے قبول کرنے لگے ہیں۔ وہ اسے ’بہترین‘ کے طور پر بیان کر رہے اور ان حملوں میں استعمال ہونے والے ’امریکی عسکری سازوسامان‘ کی تعریف کر رہے ہیں۔
ہم نے وائٹ ہاؤس سے یہ بھی سنا ہے کہ امریکی اہلکار ایرانی میزائلوں کو روکنے میں مدد کرتے رہے ہیں۔
داخلی طور پر یہ صدر ٹرمپ کو ایک خطرناک پوزیشن میں لا کھڑا کرتا ہے۔ ریپبلکن اور اس کی بنیاد میں اسرائیل کے لیے حمایت مضبوط ہے۔ لیکن غیر ملکی جنگوں میں امریکہ کی شمولیت کے بارے میں گہرے شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔ٹرمپ بہت عرصے سے نئی جنگوں کو شروع کرنے کی جاری جنگوں کو ختم کرنے کا وعدہ کرتے آئے ہیں۔ انھوں نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ 24 گھنٹوں میں یوکرین میں لڑائی رکوا سکتے ہے اور غزہ میں قید تمام یرغمالیوں کو رہا کرنے کا وعدہ کیا تھا۔
حتیٰ کہ آج بھی انھوں نے اتوار کو ایران کے ساتھ جوہری مذاکرات کو بحال کرنے کا خیال پیش کیا، لیکن تہران اس سے دستبردار ہو گیا ہے۔سیاست کیے گئے وعدوں کو پورا کرنے کا نام ہے اور صدر ٹرمپ ان اہم وعدوں میں سے کچھ کو پورا نہ کرنے کا خطرہ مول لے رہے ہیں (بی بی سی)