کچھ روز قبل روم ميں پاپائے روم کی آخری رسومات ميں شامل ہونے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ اب مشرق وسطیٰ کے انتہائی اہم قرار ديے جانے والے غير ملکی دورے پر روانہ ہو رہے ہيں۔ رياض، دوحہ اور ابو ظہبی ميں ٹرمپ کا عمدہ استقبال متوقع ہے اور امکان ہے کہ دفاع، ايوی ايشن، توانائی اور مصنوعی ذہانت کے شعبوں ميں بڑی بڑی ڈيلز طے پا سکتی ہيں۔ ریاض میں، ٹرمپ خلیج تعاون کونسل کی چھ ریاستوں: سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین، قطر، کویت اور عمان کے رہنماؤں سے ملاقات کریں گے
سينٹر فار اسٹريٹيجک اسٹڈيز‘ ميں مشرق وسطیٰ سے متعلق امور کے ماہر جان آلٹرمين کا کہنا ہے، ”ڈونلڈ ٹرمپ کے میزبان مہمان نوازی کا مظاہرہ کريں گے۔ وہ بڑے بڑے سودے کرنے کے خواہشمند ہيں۔ وہ ان کی تعريف کریں گے اور ان پر تنقید نہیں کریں گے۔ وہ ان کے خاندان کے افراد کے ساتھ ماضی اور مستقبل کے کاروباری شراکت داروں کی طرح برتاؤ کریں گے۔‘‘وائٹ ہاؤس کی ترجمان کیرولین لیویٹ نے جمعے کو کہا تھا، ”صدر مشرق وسطیٰ میں اپنی تاریخی واپسی کے منتظر ہیں تاکہ ایک ایسے وژن کو فروغ دیا جا سکے جہاں انتہا پسندی کو شکست دی جائے اور تجارت اور ثقافتی تبادلوں کو بڑھايا جائے۔‘‘
خلیجی ریاستوں نے بڑے عالمی تنازعات ميں اہم سفارتی کردار ادا کیا ہے۔ قطر حماس اور اسرائیل کے درمیان مذاکرات ميں ایک بڑا سہولت کار رہا ہے جبکہ سعودی عرب نے یوکرین کی جنگ پر بات چیت میں سہولت کاری کی ہے۔
لیکن ایک ملک جو امریکی صدر کے اس دورت کی منزلوں میں شامل نہیں، وہ اسرائیل ہے، جو خطے میں امریکہ کا سب سے قریبی اتحادی ہے۔ اس صورتحال نے ٹرمپ اور اسرائیلی وزیر اعظم بينجمن نیتن یاہو کے درمیان اختلافات کے بارے میں قیاس آرائیوں کو جنم دیا ہے۔
دورے کے دوران سعودی عرب کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی کوششیں ممکنہ طور پر پیچھے رہ سکتی ہے کیونکہ ریاض کا کہنا ہے کہ اس سے قبل فلسطینی ریاست کے قيام کی طرف پیش رفت دکھنا ضروری ہے۔
ایران بھی ایجنڈے میں سرفہرست ہے۔ واشنگٹن اور تہران اتوار کو عمان میں ایرانی جوہری پروگرام پر بالواسطہ مذاکرات کے تازہ ترین دور ميں شريک ہو رہے ہيں۔(ڈی ڈبلیو)