تحریر:مولانا ڈاکٹر ابوالکلام قاسمی شمسی
اردو ہندوستان کی زبانہے ،یہ یہیں وجود میں آئی ،یہیں پلی بڑھی اور آج بین الاقوامی زبان کی حیثیت سے اس کی شناخت ہے ،یہ گنگا جمنی تہذیب کی علمبردار ہے ، ملک کے بسنے والے اس کو بولتے ہیں اور اس کی چاشنی سے لطف اندوز ہوتے ہیں ، اس زبان نے ہر صنف میں ترقی کی ہے ، نثر اور شاعری میں ملک و ملت کی تہذیب و ثقافت کا بڑا سرمایہ محفوظ ہے، غزل ،قصیدہ ،مرثیہ وغیرہ اصناف شاعری کو بڑی مقبولیت حاصل ہوئی ہے، آج بھی مشاعروں میں غزل پر واہ واہ کے نعرے بلند ہوتے ہیں ، پوری دنیا میں غزل کی محفلیں سجتی ہیں اور بڑی تعداد میں لوگ ان میں شرکت کرتے ہیں ، ان ہی اصناف میں سے ایک صنف صحافت بھی ہے ، اردو صحافت کو دو سو سال مکمل ہوئے۔
اس موقع ہر جگہ تقریبات صدی منعقد کی جا رہی ہیں ، اردو صحافت کے دو سو سال مکمل ہونے اور تقریبات صدی کے انعقاد پر بہت بہت مبارکباد ، اردو صحافت نے ملک میں زبان ،تہذیب اور ثقافت سے لوگوں کو باخبر کرنے اور آگے بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے ، تحریک آزادی میں اردو صحافت کا اہم رول رہا ہے ،اردو اخبار و رسائل کو انگریز حکومت کے ذریعہ عتاب کا شکار ہونا پڑا ، بہت سے صحافیوں کو قید و بند کی سزا بھی جھیلنی پڑی، آزادی کی تحریک کو تیز کرنے میں اردو صحافت کا بھی اہم رول رہا ہے۔
اس موقع پر تحریک آزادی میں شریک ہونے والے اور قربانیاں پیش کرنے والے صحافیوں کو بھی خراج تحسین پیش کیا جارہا ہے اور کیا جائے گا ، اس طرح صدی تقریبات کا انعقاد کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے ، خبر کے مطابق اردو صحافت کی دو صدی کا محاسبہ بھی کیا جائے گا ، یہ بڑی اچھی بات ہے، محاسبہ سے اپنی کمی کا پتہ بھی چلتا ہے اور آگے بڑھنے کے لئے راستے بھی ہموار ہوتے ہیں ، مجموعی طور پر صحافت کا مطالعہ کیا جائے تو یہ پتہ چلتا ہے کہ صحافت نے وقت کے تیور کا مقابلہ کیا ہے ، کبھی بھی وقت کے تیور کے سامنے اپنا سر نہیں جھکایا ،آگ اور خون میں گھس کر رپورٹنگ کی ،کبھی نہیں دیکھا کہ یہ کس کے موافق ہے اور کس کے مخالف ، اردو صحافت نے بھی بہت اہم کردار ادا کیا ۔
بڑے کارنامے انجام دیئے ، اردو صحافت سے منسلک حضرات نے کبھی کسی کے آگے سر نہیں جھکایا ، باطل طاقتوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ، معتوب بھی ہوئے ،مگر عتاب کی پروا نہیں کی ،مگر افسوس کی بات ہے کہ مجموعی طور پر صحافت کا معیار ماضی کے مقابلہ میں بہت گرا ہے، اب تو صحافت کو بھی غلط رنگ میں رنگنے کی شروعات ہوگئی ہے ، چاپلوسی میں پر کر وقت سے مقابلہ کے بجائے وقت کے ساتھ چلنے کی روایت شروع ہوگئی ہے، اس رنگ میں بہت سے صحافی رنگ گئے ہیں ، مگر اللہ کا شکر ہے کہ اس حالت سے بہت سے صحافی مستثنیٰ ہیں ،وہ صحافت کو صحافت سمجھ کر اپنا کام کر رہے ہیں ، جہاں تک اردو صحافت کی بات ہے تو مجھے تقریباً 50برسوں کا تجربہ ہے ، میں نے محسوس کیا کہ اردو صحافت نے ماضی کے مقابلہ میں وقت کا مقابلہ کم بلکہ وقت کے ساتھ سمجھوتہ زیادہ کیاہے ، آزادی کے بعد سے یہ سلسلہ شروع ہوا اور یہ آگے بڑھتا جارہا ہے ، بہار کے اردو اخبار اور صحافیوں کی خدمات قابل تحسین رہیں ،مگر میرے محاسبہ کے مطابق موجودہ وقت میں بہار کے اردو اخبار اور صحافت میں دھیرے دھیرے کمی بڑھتی جارہی ہے ، وہ کمی وقت و حالات کے ساتھ سمجھوتہ ہے ،یہ یہاں تک بڑھ گیا ہے کہ صحیح بات کہنے اور لکھنے کے بجائے واقعات کے رخ کو پھیرنا اردو اخبار میں بھی شروع ہوگیا ہے۔
سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ صحیح بات حکومت وقت تک پہنچانا تو دور کی بات ہے حکومت کے غلط بیانات پر واہ واہی اردو صحافت کا شیوہ بنتا جا رہا ہے ، اس موقع کے لئے چاپلوسی کی تعبیر صحیح ہے ،مگر میں نے جان بوجھ کر اس سے احتراز کیا ہے ، میں نے اپنی زندگی میں ایسا وقت نہیں دیکھا کہ موجودہ وقت میں کوئی غلط کو غلط کہنے کے لئے تیار نہیں ہیں ،الا ماشاء اللہ ، جنرل صحافت کا معیار اتنا گرا ہے کہ لوگ جنرل صحافت کو گودی میڈیا کے نام سے پکارنے لگے ہیں ،اگر اردو میڈیا نے اپنے انداز کو نہیں بدلا تو اس کا ڈر ہے کہ کہیں اس پر بھی وہی الزام نہ آجائے ، اس لئے اردو صحافت کے دو سو صدی کے مکمل ہونے پر اپنا محاسبہ اچھی طرح کیا جائے اور اردو صحافت کی آبرو کی حفاظت پر غور و فکر کیا جائے،اللہ تعالی حفاظت فرمائے۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)