تحریر : مسعود جاوید
جمہوری نظام تین ستونوں ؛ مقننہ، Legislative, عاملہ Executive اور عدلیہ Judiciary پر قائم ہوتا ہے۔ تاہم معاشرہ میں صحافت کے اہم اور مؤثر کردار کے مدنظر صحافت کو جمہوریت کا چوتھا ستون fourth pillar of democracy کہا جاتا ہے۔
اخبارات کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ اقتدار کی گلیاروں میں اس کی گونج ہوتی ہے۔اپوزیشن کے ہاتھوں میں اخبارات کی بعض خبریں بالخصوص تحقیقاتی صحافت investigative journalism ایک ہتھیار ہوتی ہے اور پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں اس کی بنیاد پر سوال اٹھا کر حکومت کو گھیرا جاتا ہے ۔ سرکاری محکموں کے افسران کی کارکردگی پر اخبارات کی گہری نظر ہوتی ہے۔ اخبارات معاشرہ میں پھیلی برائیوں کی نشاندہی کرتے ہیں اور حکومت کے بارے میں عوام کی رائے سے حکومت ، اور متعلقہ ارباب حل و عقد کو باخبر کرنے کا فریضہ انجام دیتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ حساس حکمرانوں کا یہ معمول رہا ہے کہ وہ اخبارات کی رائے اور مضامین سے واقف ہو کر بروقت اور مناسب اقدامات کرتے ہیں ۔ امریکی صدور کا یہ معمول تھا کہ بیڈ ٹی یعنی صبح کی چائے کے ساتھ چائے کے ٹرے میں معتبر اخبارات بالخصوص واشنگٹن پوسٹ اور نیو یارک ٹائمز ہوتے تھے۔
کسی بھی ملک میں انقلاب برپا کرنے میں صحافت کا بہت اہم کردار رہا ہے۔ ہندوستان میں برطانوی استعماریت کے خلاف اردو اخبارات کی اثر انگیزی تاریخ میں سنہری حروف میں درج ہے۔
27/3/1822 میں یعنی آج سے دو سو سال قبل، اردو کا پہلا اخبار’ جام جہاں نما‘ کلکتہ سے منشی سدا سکھ کی ادارت میں شائع ہونا شروع ہوا تھا۔ لیکن اردو صحافت کا اقبال بلند ہونا 1830 میں شروع ہوا جب انگریزی استعمار نے فارسی زبان کو ختم کر کے اردو کو سرکاری زبان کا درجہ دیا تھا۔ اس کے بعد ہی اردو اخبارات کی تعداد بڑھنی شروع ہوئی ۔ منشی ہر سکھ رائے نے 1850 میں ہفت روزہ’کوہ نور‘ ، 1858 منیر خیر الدین نے کلکتہ سے ’اردو گائڈ‘، 1858 میں لاہور سے روزنامہ پنجاب اس کے بعد لکھنؤ سے 1858 میں منشی نول کشور نے اردو کا پہلا اخبار’ اودھ اخبار‘ شائع کرنا شروع کیا تھا۔ 1850 میں دہلی سے راما چندر نے ’فوائد الناظرین‘ اور اس طرح ایک لمبی فہرست ہے۔ بیسویں صدی کی شروعات میں1903 میں لاہور سے ظفر علی خان نے روزنامہ ’زمیندار‘، 1912 میں مولانا محمد علی جوہر نے ’ نقیب ہمدرد‘ اسی طرح مولانا ابوالکلام آزاد نے 1912 میں ’الہلال‘ اور1927 میں ’ البلاغ‘ ، جواہر لعل نہرو نے 1945 میں ’ قومی آواز‘ شائع کرنا شروع کیا۔ ان کے علاوہ ’پرتاپ‘ ،’ملاپ‘ ،’تیج‘ ، ہند سماچار …. ان اخبارات کے مالکان اور ایڈیٹرز ہندو بھی تھے اور مسلمان بھی۔ صحافت کے توسط سے برطانوی استعماریت کے خلاف دونوں فرقوں کی اظہار رائے کی زبان اردو تھی۔
ان تمام اخبارات کی مقبولیت کا راز برطانوی سامراج کے خلاف ان کی بیباکی تھی۔ ان کے مدیروں نے اپنی تحریروں سے لوگوں میں ایسی بیداری کی لہر دوڑائی کہ عوام اخبار بینی کے نہ صرف عادی بلکہ شدت سے منتظر رہنے لگی۔ ان اخبارات میں سیاست کے علاوہ عام دلچسپی کے، دینی ، ادبی ، سماجی خواتین کی دلچسپی کے لئے افسانے اور کہانیاں، کشیدہ کاری اور کھانا پکانے کی ترکیبیں بھی ہوتی تھیں۔ اردو صحافت میں ایک نام جو سب سے زیادہ نمایاں ہے وہ ہے محمد حسین آزاد کے والد مولوی محمد باقر کا۔ انہوں نے 1836 میں ’دہلی اردو اخبار‘ جاری کیایہ شمالی ہند کا پہلا اخبار تھا جس نے آزادی ہند کی جد وجہد میں پوری سرگرمی سے حصہ لیا اور اسی کی پاداش میں شہید کئے گئے۔
مابعد آزادی ہند بھی بہت حد تک اردو اخبارات رائے عامہ ہموار کرنے اور سیاست دانوں ؛ حکومت و اپوزیشن تک عوام کے مسائل اور اضطراب کو پہنچانے کا بہترین وسیلہ تھے۔ تاہم مابعد آزادی ہندوستان میں جس طرح مسلمانوں کی شوکت ختم ہوتی رہی اردو اخبارات پر بھی زوال کا اثر ہوتا رہا اور رفتہ رفتہ اردو لٹے پٹے بے وقعت مسلمانوں اور سیاسی طور پر ایک بے حیثیت فرقہ کی زبان ہو کر رہ گئی جس کی آہ و پکار سے باخبر ہونے کی ضرورت مقتدرہ نے محسوس کیا اور نہ اپوزیشن نے ۔ اور جب ارباب حل و عقد کو اس فرقے کے مسائل سے دلچسپی ہی نہیں ہے تو وہ اردو اخبارات کی بریفنگ کیوں سنیں گے اپنے دفاتر میں اس کے تراشے اور ترجمے رکھنے پر کسی کو متعین کیوں کریں گے!
الناس على دين ملوكهم اس حقیقت کو تسلیم کرنے میں ذرا بھی تذبذب نہیں ہونا چاہئے کہ جب مسلمانوں کی شوکت پر زوال آیا تو بحیثیت مجموعی مسلم تہذیب پر زوال آیا اور زبان تہذیب کا حصہ ہے۔جس طرح مسلمانوں کے عروج کے دور میں کرتا پاجامہ شیروانی ٹوپی صدری اچکن اور اردو زبان وادب مہذب اور تعلیم یافتہ کی شناخت تھی اور غیر مسلم بھی اسے فخریہ طور پر اپناتے تھے اسی طرح جب انگریزی استعماریت کا عروج ہوا تو انگریزی تہذیب، انگریزی کھانے پینے کے آداب، انگریزی پوشاک اور انگریزی زبان معاشرہ میں مہذب ہونے کی شناخت بن گئی۔
ہندوستان کے تناظر میں کہا جائے تو اردو صحافت کا ماضی جس قدر تابناک تھا اس کا حال اتنا ہی اندوہناک ہے۔ اور اس کی متعدد وجوہات میں سب سے بڑی وجہ اردو زبان کی سرپرستی سے محرومی ہے۔ اردو کا گہوارہ کہی جانے والی ریاست اترپردیش میں اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ نہیں دیا جانا اردو کی بقا کے لئے جان لیوا ثابت ہوا۔ دوسری سرکاری زبان کا درجہ نہیں دینے کی وجہ سے نسل در نسل اردو لکھنے پڑھنے سے محروم ہے۔ دوسری سرکاری زبان کا درجہ نہیں دئے جانے کی وجہ سے اسکولوں میں اردو اساتذہ کی تقرری نہیں ہوگی اور اردو پڑھنے کے خواہشمند طلباء اردو سے محروم ہوتے گئے نتیجتاً اترپردیش میں اردو زبان بولنے والوں کی اکثریت اردو لکھنے اور پڑھنے سے نابلد ہیں۔ اترپردیش ملک میں نا صرف سب سے بڑی ریاست ہے بلکہ اس میں اردو مادری زبان والوں کی اکثریت بھی رہتی ہے۔ ظاہر ہے جب وہ اردو پڑھنے اور لکھنے کے اہل نہیں ہیں تو وہ اردو کی بجائے ہندی اخبارات پڑھتے ہیں اور اس طرح اردو اخبارات کے قارئین کی تعداد دن بدن کم ہوتی گئی جس کے منفی اثرات اردو اخبارات کے سرکولیشن پر بھی مرتب ہوئے۔ قارئین کی تعداد طے کرتی ہے کہ یہ اخبار اشتہارات کا مستحق ہے بھی یا نہیں۔ قارئین کا اشتراک زائد اشتہارات سے ہی اخبار کے اخراجات اٹھائے جاتے ہیں۔ مالی وسائل کی قلت اچھے ، با صلاحیت اورفن صحافت میں مہارت رکھنے والے افراد کی خدمات لینے میں مانع رہتی ہے اس لئے اردو اخبارات ہندی اور انگریزی کی بنسبت کمتر اور غیر معیاری ہیں۔ بسا اوقات ایک دو روز پرانی خبریں ہندی یا انگریزی اخبارات سے لی ہوئی شائع ہوتی ہیں۔
سرپرستی کے معاملے میں اردو اخبارات نہ صرف حکومت کی سرپرستی سے محروم ہے بلکہ ملی تنظیموں کی سرپرستی کا سایہ بھی ان کے سر سے اٹھ گیا۔ روزنامہ قومی آواز کانگریس کی سرپرستی میں جب تک رہا اردو صحافت کو وقار بخشتا رہا روزنامہ الجمعیۃ جمعیت علماء ہند کی سرپرستی سے محروم ہو کر ماضی کی یاد بن گیا تو روزنامہ دعوت جماعت اسلامی ہند کی سرپرستی میں کبھی روشن چراغ تھا لیکن افسوس روزنامہ سے ٹمٹماتا چراغ بالآخر سہ روزہ اس کے بعد ہفت روزہ اور وہ بھی بہت محدود تعداد میں اشاعت یعنی ٹمٹماتا چراغ اب بجھنے کے قریب ہے۔ روزنامہ انقلاب، اگر اردو مسلمانوں کی زبان ہے، تو اس مسلم اردو اخبار کو ایک غیر مسلم ہندی اخبار دینک جاگرن نے خرید لیا، ’راشٹریہ سہارا اردو‘ ظاہر ہے سرمایہ دار سہارا سری کی ملکیت ہے۔
تو سوال یہ ہے کہ مسلمانان ہند کا ترجمان اردو اخبار کون سا ہے۔ اور اگر نہیں ہے تو کیوں؟ روزنامہ دعوت اور روزنامہ الجمعیۃ اخبار کا بند ہونا ملت اسلامیہ ہند کی بے بسی ، بے حسی اور زبوں حالی کا عکاس ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ ملی تنظیموں کے ارباب حل و عقد ذرائع ابلاغ کی اہمیت افادیت اور ضرورت سے واقف نہیں ہیں وہ خوب سمجھتے ہیں کہ یہ دور انفارمیشن ٹیکنالوجی کا ہے جس کے ذریعے برق رفتاری سے ذہن سازی کی جا سکتی ہے اور اپنے حق میں رائے عامہ ہموار کیا جاسکتا ہے۔ اس کے باوجود ارباب حل وعقد کا میڈیا کی جانب توجہ نہیں دینا چہ معنی دارد ! ملی مسائل میں مسلمانوں کی گھڑی کی سوئیاں الٹی کیوں چل رہی ہیں؟ آج سے بیس پچیس سال قبل تک مسلمانوں کے اپنے اخبارات تھے مگر آج جبکہ اس کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہے، کسی بھی زبان میں مسلمانوں کا ترجمان اخبار نہیں ہے !
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)