ڈاکٹر سیفی سرونجی
پروفیسر شارب ردولوی نے لکھا ہے ’’ہندوستان کی جنگ آزادی دو ہتھیاروں سے لڑی گئی ۔ایک اہنسا اور دوسرا اردو زبان ،لیکن اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ میں ان تمام لڑائیوں کو اہمیت نہیں دیتا جو میرٹھ کے سپاہیوں ، دہلی کے باغیوں ،نانا صاحب، جھانسی کی رانی ،شاہانِ اودھ یا سبھاش چندر بوس نے لڑیں اور انگریزی اقتدار کے خلاف علم بغاوت بلند کیا ، جس پر قابو پانے کے لئے انگریزوں نے ان گنت بے گناہوں اور عورتوں کو نہایت بے دردی سے پھانسی دے دی ، توپ کے منہ میں باندھ کر اُڑا دیا ، گولیوں سے بھون دیا بلکہ اسے تو اور سو سال پیچھے سے شروع کرنے کی ضرورت ہے یعنی ۱۸۵۷ء میں پلاسی کی جنگ میں سراج الدولہ کی شکست اور شہادت سے جس پر اردو شاعری نے اپنا ردِّ عمل ان الفاظ میں ظاہر کیا ؎
غزالاں تم تو واقف ہو کہو مجنوں کے مرنے کی
دیوانہ مر گیا آخر کو ویرانے پہ کیا گذری
صحیح معنوں میں آزادی کی پہلی چنگاری تو ۱۸۵۷ء میں ہی پھیلی تھی اور اس کا سارا Creditاردو زبان کو جاتا ہے ، خاص طور پر اردو شاعری کو اس لئے کہ یہ اردو زبان ہی ہے جس نے انقلاب جیسا نعرہ دیا ، یہ اردو شاعری ہی کا کمال تھا کہ دلوں میں آزادی کی تحریک نے جنم لیا ، جوش پیدا ہوا۔ یہاں کچھ ایسے ہی اشعار پیش کرتا ہوں ،جنھیں پڑھنے کے بعد اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سننے والوں پر کیا کیفیت طاری ہوتی ہوگی ؎
لبا لب پیالہ بھرا خون سے
فرنگی کو مارو بڑی دھوم سے
٭
روز ہوتا ہوں نئے شخص کے گھر میں روپوش
آج پھانسی کی خبر ہے تو اسیری کی کل
٭
خدا کرے کہ دین کے دشمن تباہ و برباد ہو جائیں
خدا کرے کہ فرنگی نیست و نابود ہو جائیں
٭
قربانیاں دے کے عید قرباں کے تہوار مناؤ
اور دشمن کو تہہ تیغ کرو کہ کوئی بچنے نہ پائے
٭
دمدمے میں دم نہیں اب خیر مانگو جان کی
اے ظفر ٹھنڈی ہوئی شمشیر ہندوستان کی
غازیوں میں بُو رہے گی جب تلک ایمان کی
تو لندن تک چلے گی تیغ ہندوستان کی
٭
اس طرح کے شعروں اور نعروں سے اردو شاعری بھری پڑی ہے ،جس نے عوام کے دلوں میں جذبات کا ایک طوفان برپا کر دیا تھا اور دیش کا بچہ بچہ آزادی کی جنگ میں کود پڑا تھا ۔ ۱۸۵۷ء میں آزادی کی پہلی چنگاری بہت جلد ایک شعلہ بن گئی اور اندر ہی اندر یہ آگ بڑھتی رہی جو ۱۹۴۷ءمیں جاکر بجھی ۔ اس درمیان یعنی انگریزی دور حکومت میں اردو زبان کے اخبارات ، اردو کی تقریروں اور شاعری نے ایک ایسی فضا تیا ر کی کہ ملک کی عوام اپنے وطن کو آزاد کرانے کے لئے ہر قسم کی قربانی دینے کو تیار ہو گئی ۔ بے شمار لوگوں کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا ، ہزاروں علماء، شاعر ادیب جیلوں میں ٹھونس دیے گئے یا قتل کر دیے گئے ۔ پروفیسر علی احمد فاطمی لکھتے ہیں :
’’محمد حسین آزاد کے والد مولانا محمد باقر کو گولی سے ہلاک کر دیا گیا ، مشہور شاعر امام بخش صہبائی کو ان کے دو بیٹوں کے ساتھ گولی سے اُڑا دیا گیا ، مصطفی خاں شیفتہ کو گرفتار کرکے جیل میں ڈال د یا گیا ، مشہور و معروف عالم مولانا فضل حق کو جلا وطن کرکے انڈومان بھیج دیا گیا ،جہاں ان کا بعد میں انتقال ہو گیا ۔ منیر شکوہ آبادی کی نظموں میں اس وقت کے حالات کا پتہ چلتا ہے ، ان کو گرفتار کرکے ان پر مقدمہ چلایا گیا ۔ ان سب کی تخلیقات کا اگر بغور مطالعہ کیا جائے تو ایک ایک شعر میں اس عہد کی تصویر نظر آئے گی ۔‘‘
اردو شاعری نے کل بھی وہ رول ادا کیا تھا اور آج بھی ہم اس عہد کی شاعری کو دیکھ کر یہ تاریخ مرتب کر رہے ہیں ۔ کون سا ایسا شاعر ہے جس نے اپنے وطن کے لئے کچھ نہ لکھا ہو ، علا مہ اقبال،حسرت موہانی، شاد عظیم آبادی، آنند نارائن ملا، درگا سہائے سرور،سیماب اکبر آبادی، برج نارائن چکبست،جگر مرادآبادی، محمد علی جوہر، تلوک چند محروم، ظفر علی خاں، جوش ملیح آبادی جیسے سیکڑوں نام لئے جا سکتے ہیں ۔اس سلسلے میں پروفیسر گوپی چند نارنگ کی کتاب ’ہندوستان کی تحریک آزادی اور اردو شاعری‘ بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ نارنگ صاحب ایک جگہ لکھتے ہیں :
’’بیسویں صدی کے آغاز میں حالی، اقبال،سرور اور چکبست کے کلام کے اثر سے اردو شاعری کا دل وطن اور قومی تحریکوں کی تال پر دھڑکنے لگتا ہے ۔ اسماعیل میرٹھی، وحید الدین سلیم، شوق قدوائی ، عظمت اللہ خاں اور برج موہن کیفی نے بھی اس سلسلے میں بعض اچھی نظمیں لکھیں، وطنی اور ملّی نظمیں لکھنے کا شرف نذیر احمد کو بھی حاصل ہے ،لیکن شاعری ان کی پہچان نہیں ۔ وہ اس کوچہ میں بہت جلد سپاٹ ہو جاتے ہیں اور انگریزوں کی مداحی پر اتر آتے ہیں ۔‘‘یہاں ساری بحث کو چھوڑتے ہوئے چند نظموں کے اقتباس پیش کرتا ہوں ؎
اُٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے
اُٹھو مِری دُنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخ امرا کے در و دیوار ہلا د و
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہر گوشہ گندم کو جلا دو
(علامہ اقبال)
بظاہر ان دونوں نظموں میں غریب کسانوں سے خطاب ہے ،لیکن اس میں غریب کسان کی پوری زندگی چھپی ہے کہ وہ اگر غریب ہے تو کیوں ہے ؟ اپنی محنت کے باوجود اسے پیٹ بھر کھانا کیوں نہیں ملتا؟کہاں تک وہ لگان دے کر انگریزوں پر اپنی محنت کا پھل لٹاتا رہے؟انقلاب کی دبی چنگاری کو اقبال نے اپنی شاعری میں ابھارا ہے کہ کسان کے اندر ایک جوش پیدا ہو جاتا ہے ؎
ہل چکا ہے تخت شاہی گر چکا ہے سر سے تاج
ہر قدم ڈگمگایا جا رہا ہے سامراج
(علی سردار جعفری)
تھا زبانوں پر یہ نعرہ آشیاں کو چھوڑ دو
چھوڑ دو اے غاصبو ہندوستاں کو چھوڑ دو
(شمیم کرہانی )
ہندوستاں کی دولت و حشمت جو کچھ کہ تھی
کافر فرنگیوں نے بہ تدبیر کھینچ لی
( مصحفی )
اک کہانی وقت لکھے گا نئے مضمون کی
جس کی سُرخی کو ضرورت ہے تمہارے خون کی
( جوش ملیح آبادی )
عمر زنداں میں کئی شوقِ رہائی رخصت
ہو گیا انس مرے پائوں کو زنجیر کے ساتھ
(اکبر الٰہ آبادی )
جوش ملیح آبادی کی نظم ’شکست زنداں کا خواب‘ نے باقاعدہ ایک انقلاب برپا کیا تھا ؎
کیا ہند کا زنداں کانپ رہا ہے گونج رہی ہیں تکبیریں
اکتائے ہیں شاید کچھ قیدی اور توڑ رہے ہیں زنجیریں
دیواروں کے نیچے آ آکر یوں جمع ہوئے ہیں زندانی
سینوں میں تلاطم بجلی کا آنکھوں میں جھلکتی شمشیریں
بھوکوں کی نظر میں بجلی ہے توپوں کے دہانے ٹھنڈے ہیں
تقدیر کے لب کو جنبش ہے دم توڑ رہی ہیں تدبیریں
سنبھلو کی وہ زنداں گونج اٹھا جھپٹو کہ وہ قیدی چھوٹ گئے
اٹھو کہ وہ بیٹھیں دیواریں دوڑو کہ وہ ٹوٹی زنجیریں
ان اشعار کو پڑھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اردو شاعری نے جنگ آزادی میں کیا رول ادا کیا ہے ۔ افسوس۔۔۔ جس زبان نے ہمیں آزادی دلوائی ، آج وہی زبان بے گھر ہے ؎
ہم اپنے عہد کا ورثہ تو کھو چکے ہیں تمام
جو بچ سکے تو یہ اردو زبان ہی رکھ لیں
(بشکریہ ’انتساب عالمی ‘)