عبدالسلام عاصم
جس فنا انجام زمانے کی قسم کھاکر خدا نے انسانوں کوخسارے میں پڑنے کے خلاف انتباہ کیا، وہ زمانہ ارتقاء پذیر ہے، جامد نہیں۔ہم جن حاملِ کتاب علمی رہنماوں کا حوالہ دیتے نہیں تھکتے وہ بھی اِسی خدائی منصوبے کو آگے بڑھاتے ہوئے کہتے رہے کہ”ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں یا ہم سے زمانہ خود ہے زمانے سے ہم نہیں۔۔۔“ پڑھی لکھی نئی نسل کی خاطر اتنی تمہید کافی ہےیہ سمجھنے کے لئے کہ ہم رفتارِ زمانہ سے ہم آہنگ کیوں نہیں ہیں اور ایسی کیا وجہ ہے کہ زمانے سے ہم کو اور ہم سے زمانے کو شکایت تک ہی سارا افسانہ محدود ہوکر رہ گیا ہے۔
ایک بڑے کینوس کے اِس منظر نامے کو بر صغیر بلکہ ہندستان تک محدود کر کے بات کی جائے تب بھی اس کے اطلاق کا دائرہ دور تک وسیع نظر آئے گا۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ دنیا میں رفتارِ زمانہ سے غیر ہم آہنگ قوموں کو امکانات سے زیادہ اندیشوں نے گھیر رکھا ہے۔انہی اقوام میں بدقسمتی سے ہم بھی شامل ہیں۔باوجودیکہ حالیہ دہائیوں میں کہیں تیزی سے تو کہیں معتدل انداز میں کم سے کم اتنی تبدیلی آئی ہے کہ لوگ بہ انداز دیگر سوچنے لگے ہیں اور کسی ریڈی میڈ حل کی دعا مانگنے کے بجائے عملاً نجات کی راہ ڈھونڈنے کی خال خال توفیق ملتی نظر بھی آ رہی ہے۔
وطن عزیز میں ہندو مسلم ایکتا اور فرقہ وارانہ منافرت کے حوالے سے ہونے والی ذہنی اور جسمانی مشقوں کے ہم سبھی کسی نہ کسی طور سے شاہد ہیں۔روایتی اختلاف سے نفع کشید کرنے کی آلودہ سیاست کی وجہ سے اتحاد کی کوششوں کو1947 میں خارجی نقصان پہنچنے کے بعدداخلی جھٹکے لگنے کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔بہ الفاظ دیگر ہم ایک ایسے جمود کے شکار ہیں جس کا احساس موقع پرستوں کو فرار پسندی تک ہی متحرک کرپاتا ہے۔ ایسا نہیں کہ اِس پر پہلے کبھی غور نہیں کیا گیا۔ اس صورتحال پر روایتی طریقے سے غور کرنے اور نتیجہ اخذ کرنے کا سلسلہ ہمیشہ چلتا رہا ہے، لیکن ماضی قریب تک ایسی کوئی بھی کوشش افکار کے تصادم سے آگے نہیں بڑھ پائی۔ کم و بیش دونوں حلقوں میں کہیں سوچنے والے الجھ کر رہ گئے تو کہیں حکمت کی جگہ ردعمل کا اثر اتنا شدید رہا کہ بنتے بنتے بھی بات بگڑنے میں دیر نہیں لگی۔
مبینہ سیکولر عہد میں جہاں سیکولر اقدار کی پاسداری میں دونوں طرف سے ایمانداری نہیں برتی گئی، وہیں عملاًاُس عہد کے خاتمے نے بھی ایسی کوئی راہ ہموار نہیں کی جو امکانات کے رُخ پر اتنی کشادہ ہو کہ اُس پرکسی تعصب کے بغیر بلا جھجھک آگے بڑھا جا سکے۔ ایسے میں یہ سوال اگر سرے سے غلط نہیں تو کچھ زیادہ ہی ”دوٹوک“ہو گا کہ کہاں اور کیسے غلطی ہوئی؟ غلطی کسی موڑ یا ایسے چوراہے پر نہیں ہوئی کہ اُن کی آسان نشاندہی کر کے ایک دم سے نیا نسخہ تجویز کر دیا جائے۔ غلطی پرورش اور تعلیم کی ایسی پناہ گاہوں میں ہوئی ہے جس میں گزرنے والی عمر سوچنے اور سمجھنے کی متحمل نہیں ہوتی۔سُننے اور ماننے والی عمر کے کسی بچے کومطلق یہ توفیق نہیں ہوتی کہ وہ سوال اور اعتراض قائم کرنے کی طاقت اور ہمت کا مظاہرہ کرسکے۔یہ اُسی عمر کی تعلیم کا نتیجہ ہے کہ ہندستان میں ہندو اکثریت اور پاکستان اور بنگلہ دیش میں مسلم اکثریت کی فرقہ پرستی ملک دشمنی نہیں کہلاتی۔ اِس صورتحال کے ذمہ دارہرگز عام ہندستانی ہندو یا ہمسایہ ملکوں کے مسلمان نہیں۔اس کی ذمہ داری دونوں ملکوں کی اُن سابقہ حکومتوں پر عائد ہوتی جنہوں نے اپنے سیکولر پرچم تلے فرقہ وارانہ صف بندی کی سیاست کی بنیاد ڈالی۔ایسا نہیں کہ انہیں انجام کا پتہ نہیں تھا لیکن وہ شایدیہ اندازہ نہیں کر پائے تھے کہ داخلی انتشار پورا سیاسی نصاب ہی بدل کر رکھ دے گا۔
زیادہ تر نفرت انگیز جرائم کو رنگ اور نسل، ذات اور مذہب سے تحریک ملتی ہے۔ لیکن آج نفرت کے کئی چہرے ہیں۔ تعصب کے واقعات نفرت کی اُس کوکھ سے جنم لیتے ہیں جس کے ساتھ عملاً کوئی زیادتی نہیں ہوتی لیکن اُس سے ناجائز طور پر کشید کردہ تعصب از خود اپنے اندر زبردست فرقہ وارانہ جنون رکھتا ہے جواصل جرائم میں زبردست اضافہ کر سکتا ہے۔ بہت سے نفرت انگیز جرائم کبھی خبر نہیں بنتے کیونکہ متاثرین کی پولیس یا میڈیا تک رسائی نہیں ہو پاتی۔ اس کے علاوہ بہت سے قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی نفرت انگیز جرائم کو پہچاننے کے متحمل یا ان کی تحقیقات کے لئے خاطر خواہ طور پر حساس اورتربیت یافتہ نہیں، کیونکہ وہ بھی متاثرہ سماج کا ہی حصہ ہیں۔
باوجودیکہ اچھی خبر یہ ہے کہ ان دنوں پورے ملک میں کچھ لوگ اُس نفرت کے خلاف بات کرنے لگے ہیں جس کی بالواسطہ آبیاری نام نہاد سیکولرعہد میں ہوئی تھی۔ آج یہ عفریت راست طور پر سڑ اٹھا کر کھڑا ہے۔ ہندو مسلم دونوں فرقوں کے باشعور حلقے حکومت وقت سے ملک میں برداشت اور ربط باہم کو فروغ دینے کی تائید اور سرپرستی کے طالب ہیں۔حکومت اور اُس کی نظریاتی سرپرستی کرنے والے ادارے بھی اس کوشش کی راست اور بالواسطہ تائید کر رہے ہیں۔ تاریخ ایسی دستاویزات سے بھری ہے کہ جب بھی کسی عہد کو نفرت سے پامال کرنے کی کوشش کی گئی ہے، اچھے لوگ اُس کے خلاف مضبوط آواز کے ساتھ اٹھے ہیں اور اکثران کی تعداد ہفتوں اور مہینوں میں کئی گنا بڑھی ہے۔
ملک کو حالات کے موجودہ موڑ پر جس انقلاب کی ضرورت ہے وہ انقلاب کسی ردعمل سے نہیں بلکہ تزویراتی عمل سے ہی آسکتا ہے۔قوموں کی زندگی میں کل بھی ایسا انقلاب حکمت کے ذریعہ برپا ہوا تھا اور آئندہ بھی سنجیدہ کوششیں ہی کسی خوشرنگ تبدیلی کی راہ ہموار کریں گی۔بہ الفاظ دیگر نفرت کا مقابلہ روایتی احتیاطی فاصلہ رکھنے کے بجائے محبت اور خیر کے جذبے سے آگے بڑھ کرکرنا ہوگا۔ اگر کوئی آمنا و صدقنا رٹنے یا بھگت قسم کی بھیڑ کو اپنی محدود سوچ کا قائل بنا کر بزعم خود اپنی تما م تر فضیلتوں کے ساتھ گھر بیٹھ کر یامحفل سجا کر صرف ردعمل دکھا رہا اور جوابی بیان بازی تک اپنی ذہانت کی دوڑ محدود رکھے ہوئے ہیں تو اس سے کوئی فائدہ نہیں۔
نفرت کی تعلیم ہمیشہ بالواسطہ دی جاتی ہے۔ جو قائدین یامدرسین ایسا کرتے ہیں وہ خود بھی اس قدر کنڈیشنڈ ہو چکے ہوتے ہیں کہ اُنہیں لگتا ہے کہ وہ تو پیروکاروں یاطالب علموں کو حق آشنا کر رہے ہیں۔ ایسے عناصر دونوں طرف پائے جاتے ہیں اور ان سے نمٹنا عام انتہاپسندوں اور ماب لنچروں سے نمٹنے سے زیادہ مشکل ہے۔ یہی وہ آزمائش ہے جو اس وقت دونوں طرف کے بیدار مغز لوگوں کو در پیش ہے۔
فرقہ وارانہ نفرت معاشرے کو رنگ اور نسل، ذات اور مذہب کی ایک سے زیادہ بنیادوں پر خون کے آنسو رُلاتی ہے۔ نفرت انگیز جرائم کسی بھی دوسرے جرم سے زیادہ فرقہ وارانہ تنازعات، سماجی عدم تحفظ یہاں تک کہ فسادات کو جنم دے سکتے ہیں۔ ہندستان میں آسام کے نیلی تشدد سے گجرات فساد تک فرقہ وارانہ جنون کو بھڑکانے میں صرف اور صرف اُس نفرت کا دخل رہا ہے جسے پنپنے اور پنپانے کیلئے اطلاعات کی کمی اور افواہوں کی بہتات والے ماحول میں جاننے اور سمجھنے کی جگہ ماننے اور منوانے والے جاہلوں کی بے ہنگم فوج کی ضرورت ہوتی ہے۔
وقت آگیا ہے کہ لوگوں کورابطے کی ہر سطح پر یہ بتایا جائے کہ اکثریت اور اقلیت کی فرقہ پرستیاں دونوں اجتماعی طور پر جہاں ملک کی سالمیت کیلئے تباہ کن ہیں وہیں اقلیت کو فطری طور پر اپنے ہر شدید ردعمل کی بھاری قیمت چکانا پڑتی ہے۔ ایسے میں حالات اُس وقت اور بھی خطرناک موڑ سے گزرنے لگتے ہیں جب وطن دوستی کے نعروں تک کا استحصال شروع ہوجاتا ہے۔ یہ صورتحال انتہائی طور پر جمہوریت مخالف ہے کیونکہ اس میں سب سے پہلے وطن دوستی کی اصل پہچان گم ہو جاتی ہے۔سچے محب وطن نفرت سے لڑتے ہیں نظریاتی اختلاف رکھنے والے ہم وطنوں سے نہیں۔
(یہ مضمون نگار کے اپنے خیالات ہیں)