سیاح نقاب، ہُڈی اور ٹراؤزر زیب تن کیے ایک شخص غزہ میں حماس کے القسام بریگیڈ کے دیگر جنگجوؤں کے ہجوم میں موجود ہے لیکن ایک مرتبہ دیکھنے پر شاید یہ آپ کی توجہ حاصل نہ کر پائے۔
یہ شخص کسی بھی موقع پر اپنا چہرہ عیاں نہیں کرتا، لیکن اسرائیلی یرغمالی خواتین میں سے ایک گاڑی سے اترتے ہوئے اسے تھپکی دیتی ہیں اور پھر ایک سائے کی طرح یہ شخص بھی یہاں سے غائب ہو جاتا ہے۔اسرائیل اور حماس کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کے دوران حماس کی جانب سے یرغمالیوں کی رہائی کی کوریج سوشل میڈیا پر زیرِ بحث ہے۔اس دوران جاری کی گئی ایک ویڈیو میں ایک پراسرار شخص کی موجودگی کو آغاز میں تو لوگوں کی جانب سے نظر انداز کیا گیا تھا کیونکہ تمام توجہ یرغمالی خواتین اور القسام بریگیڈ کے جنگجوؤں پر تھی، لیکن پھر یرغمالی خاتون کی گاڑی سے اترتے ہوئے اس شخص کو دی گئی تھپکی نے لوگوں کی توجہ اس پر مبذول کی۔
خیال کیا جاتا ہے کہ یہ شخص حماس کے القسام بریگیڈ کے انتہائی پراسرار اور خفیہ یونٹ ’وحدۃ الظل‘ یا ’شیڈو یونٹ‘ کا حصہ ہے جو یرغمالیوں کی حفاظت اور دیکھ بھال کا ذمہ دار ہے۔
پندرہ ماہ کی جنگ جس میں اسرائیل نے غزہ پر زمینی کارروائی کے علاوہ ان گنت فضائی حملے بھی کیے اس کے باوجود یرغمالیوں کی رہائی ممکن نہیں ہو سکی تھی۔ حماس کے اس پراسرار یونٹ نے یرغمالیوں کو کیسے اور کہاں رکھا، تاحال اس حوالے سے تو معلومات موجود نہیں ہیں، لیکن یرغمالیوں کو اس دوران محفوظ رکھنے اور اب ان کی بحفاظت واپسی یقینی بنانے پر اکثر ماہرین اس یونٹ کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کی تعریف کر رہے ہیں۔
لیکن یہ یونٹ کب بنایا گیا اور یہ حماس کے دیگر جنگجوؤں سے یہ کیسے مختلف ہیں؟ آئیے جانتے ہیں۔
**’روشنی سے دور، نظروں سے اوجھل’
اس گروہ کی پراسراریت اس قدر ہے کہ اس کے بارے میں کچھ زیادہ معلومات موجود نہیں ہیں تاہم حماس کی جانب سے پہلی بار سنہ 2016 میں اس یونٹ کو منظرِ عام پر لایا گیا تھا۔
اس سال حماس کی جانب سے ایک ویڈیو میں ان کا تعارف کروایا گیا تھا جس میں یہ کہا گیا تھا کہ یہ یونٹ یرغمالیوں کی دیکھ بھال اور حفاظت کے لیے مخصوص کیا گیا ہے اور اس وقت اس کی سربراہی حماس رہنما محمد الضیف کر رہے تھے جن کے بارے میں اسرائیل کی جانب سے گذشتہ برس یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ وہ اسرائیلی فضائی حملے میں ہلاک ہو گئے ہیں۔یہ یونٹ سنہ 2006 میں اسرائیلی فوجی جیلاد شالیت کو حماس کی جانب سے اغوا کیے جانے کے بعد بنایا گیا تھا۔ شالیت کو سنہ 2011 میں ایک ہزار سے زیادہ فلسطینی قیدیوں کے بدلے رہا کر دیا گیا تھا۔
سنہ 2016 میں جاری کردہ ویڈیو میں شیڈو یونٹس کی ذمہ داریاں بھی بتائی گئی ہیں جن میں یرغمالیوں کو دشمن سے محفوظ رکھنا، انھیں پوشیدہ رکھنا اور ان کی موجودگی کی جگہ کے بارے میں دشمن کو علم نہ ہونے دینے شامل ہے۔ویڈیو میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ یونٹ کی جانب سے ’یرغمالیوں کو باعزت طریقے سے رکھا جاتا ہے جو اسلامی عقائد کے عین مطابق ہوتا ہے اور ان کی ضروریات پوری کی جاتی ہیں یہ ذہن میں رکھتے ہوئے کہ حماس کے قیدیوں کے ساتھ دشمن کی جانب سے کیسا سلوک کیا جاتا ہے۔‘ویڈیو میں کہا گیا کہ یونٹ کے اراکین ’روشنی سے دور، نظروں سے اوجھل رہتے ہیں اور جب وہ گھر جاتے ہیں تو اپنے خاندان کے لوگوں کو کبھی کچھ نہیں بتاتے
اسرائیلی میڈیا میں شائع ہونے والی رپورٹس کے مطابق اس یونٹ میں شامل جنگجو حماس کے دیگر یونٹس سے ہی بھرتی ہوتے ہیں جنھیں سخت فوجی اور نفسیاتی ٹریننگ دی جاتی ہے اور چھپنے اور فوری طور ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے کی صلاحیت ان کو منفرد بناتی ہے۔تاہم اس کے بارے میں اکثر معلومات حماس کی جانب سے جاری اس یونٹ کے حوالے سے کئی سوالوں کے جواب اب بھی موجود نہیں ہیں جن میں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ ان کی جانب سے اسرائیلی قیدیوں کو کہاں اور کس حال میں رکھا گیا اور یہ دنیا کی طاقتور انٹیلیجنس ایجنسی کی نظروں سے اب تک کیسے اوجھل ہیں۔
اسرائیلی فوج کی میڈیکل کور کے ڈپٹی چیف کرنل ڈاکٹر اوی بانوو کا دعویٰ ہے کہ ’رہا کیے گئے کچھ یرغمالیوں کا کہنا ہے کہ انھوں نے کئی ماہ زیر زمین سرنگوں میں گزارے ہیں۔‘ مگر انھوں یہ نہیں بتایا کہ یرغمالیوں پر تشدد یا بدسلوکی کے آثار تھے یا نہیں۔
سرنگوں کے اس نیٹ ورک کے حجم کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہے، جسے اسرائیل نے ’غزہ میٹرو‘ کا نام دے رکھا ہے کیونکہ یہ ایک ایسے علاقے کے نیچے پھیلی ہوئی ہیں جو صرف 41 کلومیٹر طویل اور 10 کلومیٹر چوڑا ہے۔اس گروپ کے حوالے سے آزادانہ معلومات تاحال موجود نہیں ہیں کیونکہ حسام بریگیڈ اپنے آپریشنز کو انتہائی خفیہ رکھتا ہے۔ (سورس:بی بی سی)