تجزیہ قاسم سید
بظاہر یہ صاف ہوتا جارہا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی اتحادی جماعتوں کو مرکزی حکومت کے کسی ایجنڈے سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ چاہے وہ ’ون نیشن ون الیکشن ‘ کا ایجنڈا ہو یا یکساں سول کوڈ۔ حتی کہ وقف بورڈ میں ترمیم کے بل پر بھی بی جے پی کے اتحادی اس کی حمایت کریں گے۔ باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ ابتدائی بھوکال دکھانے کے بعد سب کا لب و لہجہ دھیما ہوگیا ہے۔ لوک جن شکتی پارٹی کے رہنما اور مرکزی وزیر چراغ پاسوان اب کسی بھی ایجنڈے میں رکاوٹیں پیدا نہیں کریں گے۔ بی جے پی کی طرف سے ان کو دو طرح سے پیغام دیا گیا ہے۔ پہلے خبر آئی کہ ان کی پارٹی کے پانچ میں سے تین ممبران بی جے پی سے رابطے میں ہیں۔ ان کی پارٹی پہلے بھی ٹوٹ چکی ہے۔ پچھلی لوک سبھا میں چھ میں سے پانچ ممبران پارلیمنٹ نے علیحدگی اختیار کر لی تھی۔ اس بار کہا جا رہا تھا کہ چراغ اور ان کے بہنوئی ارون بھارتی کو چھوڑ کر باقی تین بی جے پی میں شامل ہوں گے۔
کسی طرح یہ معاملہ حل ہوا اور اسی دوران بہار ریاستی بی جے پی صدر دلیپ جیسوال چراغ کے چچا اور سابق مرکزی وزیر پشوپتی پارس کے گھر گئے اور ان سے ملاقات کی۔ اس کے بعد پارس دہلی آئے اور امت شاہ سے ملاقات کی۔ قابل ذکر ہے کہ چراغ کا اپنے چچا کے ساتھ چھتیس کا آنکڑا ہے۔ لہذا، بی جے پی نے چراغ کو ان کی مدد کرنے کا اشارہ دے کر دو ٹوک پیغام دے دیا۔ بھر چراغ کی لو دھیمی ہوگئی
اسی طرح بہار میں بی جے پی کی بڑی حلیف جنتا دل (یو) ہے جو پہلے ہی بی جے پی کے پیج پر ہے۔ پارٹی کے سابق قومی صدر اور مرکزی وزیر للن سنگھ نے پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر وقف بورڈ بل کی حمایت کی۔ پارٹی لائن کے علاوہ آزاد لائن رکھنے والے قومی ترجمان کے سی تیاگی کو بھی گھر بٹھا دیا اس بات کا اشارہ ہے کہ جے ڈی یو کو اب بی جے پی سے کچھ اختلاف نہیں،مگر اس نے پارٹی کے بونے مسلم لیڈروں کو وقف بل پر اچھل کود کی اجازت دے دی ہے تاکہ مسلمانوں کو انگیج رکھا جائے۔ نائیڈو کی تشویش مرکز سے مالی مدد لینے اور جگن موہن کو ختم کرنے تک محدود ہے۔
اسی لیے بی جے پی اپنے تمام ایجنڈے کو بہت آسانی سے نافذ کر دے گی۔ بیک وقت تین ایجنڈوں پر کام شروع ہو چکا ہے۔ بہت جلد مردم شماری شروع ہونے جا رہی ہے۔ یہ طے ہے کہ مردم شماری کے ساتھ حد بندی کا کام شروع ہو جائے اس کے ساتھ ہی کووند کمیٹی کی طرف سے ‘ون نیشن ون الیکشن ‘ کے لیے دی گئی تجاویزپر عمل ہوگا کابینہ نے اسے پاس کردیا سرمائے اجلاس میں بل پیش ہوگا نیتیش،نائیڈو اس کی حمایت کرچکے ہیں ۔
مرکزی حکومت کا دوسرا ایجنڈا وقف بورڈ بل ہے جس پر مشترکہ پارلیمانی کمیٹی میں غور کیا جا رہا ہے اوراب تک کی ملنے والی اطلاعات کے مطابق کسی اتحادی پارٹی کے ممبر نے وہاں تاحال کوئی سوال نہیں اٹھایا ہے۔ اس لیے کچھ ترامیم کے ساتھ وہ بھی اگلے اجلاس میں منظور کر لیا جائے گا۔ جبکہ اپوزیشن ممبران کا بھی کوئی سنجیدہ رول سامنے نہیں آیا ہے جہاں تک یکساں سول کوڈ کا تعلق ہے، اس کا وقت مرکزی حکومت کو طے کرنا ہے۔ زیادہ سے زیادہ سیاسی فوائد کے مطابق بی جے پی اپنا وقت طے کرے گی اور ہمیشہ کی طرح اس کے اتحادی تھوڑا سا شور مچاکر خاموش ہو جائیں گے ان کی حکمت عملی یہ ہے کہ صیاد خوش رہے اور باغباں بھی ،باہر شور مچائیں گے اور جہاں قانون سازی کا عمل ہوتا ہے یعنی کیبنیٹ جو کسی قانون کا مسودہ پیش کرتی ہے سرکاری اسکیمیں اور منصوبے نافذ کرنے کی منظوری دی جاتی ہے اور پارلیمنٹ جو قانون بناتی ہے وہاں سرکار کے ساتھ ہوتے ہیں ۔سوچنے والی بات یہ ہے کہ وقف بل سے اتحادی جماعتوں کا نقصان کیا ہے ۔اور وہ کیون اس کی مخالفت کریں ٹی ڈی پی یہ احسان جتاتے نہیں تھکتی کہ ہم نے اسے جے پی سی میں بھجوا دیا ، آندھرا میں الیکشن ہوچکے ہیں ان کو پانچ سال تک ووٹوں کی ضرورت نہیں ہے رہا جے ڈی یو میں ب نیتیش اکیلے فیصلہ ساز نہیں رہے پارٹی کمان ایسے شخص کے ہاتھ میں ہے جس کا جھکاؤ بی جے پی کی طرف رہا ہے حالیہ گھر واپسی میں بھی انہی کا ہاتھ بتایا جاتا ہے نیتیش بوڑھے ہوگئے ہیں ۔کے سی تیاگی پہلے ہی ٹھکانے لگا دئے گئے ہیں -مسلمان سوچتا ہے ہمارے بغیر سرکار نہیں بنے گی کیونکہ ان کے لیڈروں نے یہی گھول کر پلا رکھا ہے سوچتے رہیے -سانپ نکل جائے گا سب لاٹھی پیٹتے رہیں گے -دوسروں کے سہارے جیتنے کی امیدیں کبھی منزل تک نہیں پہنچاتیں جمہوریت میں ووٹ کے وزن کا بھاؤ ہوتا ہے جو شئیر مارکیٹ کی طرح گھٹتا بڑھتا ہے اس وقت مسلمانوں کا ووٹوں کے شئیر مارکیٹ میں بھاؤ گرا ہوا ہے جب وہ مستحکم ہوگا سارے مسائل دھیرے دھیرے حل ہوتے رہیں گے -وقف بل کی کمان بورڈ نے اپنے ہاتھ میں لی ہے ۔اس نے اب تک یہ نہیں سوچا ہے کہ اگر بل پاس ہوگیا تو کیا کریں گے ۔وہ تو کروڑوں ای میلز بھیجنے پر جشن کے کیفیت میں ہے جن کی تکنیکی اور قانونی طور پر کوئی اہمیت نہیں ۔مایوسی کفر ہے لیکن آئینہ ضرور دیکھتے رہیں۔ ہم بی جے پی کے اتحادیوں پر سو فیصد تکیہ نہ کریں اور بھی متبادل ذہن میں رکھیں