تحریر: سروج سنگھ
طالبان نے جس رفتار سے افغانستان کے دارالحکومت کابل پر قبضہ کیا ہے شاید اس کی توقع ديگر ممالک کیا بلکہ خود افغانستان کی حکومت نے بھی نہیں کی تھی۔
اگر انھیں کوئی ایسی توقع ہوتی تو افغانستان کے صدر اشرف غنی ایک ویڈیو پیغام کے ذریعے اپنے ملک کے لوگوں سے خطاب کے اگلے ہی دن ملک چھوڑ کر نہ جاتےاور نہ ہی امریکہ ہنگامی حالت میں اپنا سفارتخانہ بند کرتا اور اپنے شہریوں کو اتنی جلدی افغانستان سے نکالنے کا آپریشن کرتا۔
اشرف غنی کی حکومت اور امریکہ کے علاوہ آج بھارت بھی عجیب پوزیشن میں ہے۔ ایک طرف جہاں چین اور پاکستان طالبان سے ’بہتر تعلقات‘ کی وجہ سے کابل میں ہونے والی نئی پیش رفت کے بارے میں پُراعتماد دکھائی دیتے ہیں، دوسری طرف بھارت اس وقت اپنے شہریوں کو جلد از جلد کابل سے نکالنے میں مصروف ہے۔ بھارت نے آج (منگل) کابل سے اپنا سفارتی عملہ نکالنے کا اعلان بھی کیا ہے۔
بھارت نے کبھی بھی باضابطہ طور پر طالبان کو تسلیم نہیں کیا، لیکن رواں برس جون میں طالبان اور بھارت کے درمیان ’بیک چینل بات چیت‘ کی اطلاعات ہندوستانی میڈیا میں نمایاں رہیں۔ حکومت ہند نے ’مختلف سٹیک ہولڈرز‘ سے بات چیت کرنے سے متعلق بیان بھی جاری کیا۔
لیکن کس کو معلوم تھا کہ دو مہینوں میں صورتحال یکسر بدل جائے گی۔ تو اب بھارت کی حکمت عملی کیا ہو گی؟ یہ ایک اہم سوال ہے۔
بھارت اور افغان طالبان کا تعلق
بھارت کی جانب سے اب تک طالبان کے ساتھ براہ راست مذاکرات شروع نہ کرنے کی بڑی وجہ یہ تھی کہ بھارت- افغانستان میں اپنے مشنز پر ماضی میں ہونے والی حملوں کے لیے طالبان کو ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔
بھارتمیں1999 میں آئی سی 814 طیارے کی ہائی جیکنگ اور اس کے بدلے میں جیش محمد کے سربراہ مولانا مسعود اظہر، احمد زرگر اور شیخ احمد عمر سعید کی رہائی کی یادیں آج بھی تازہ ہیں۔
اس کے علاوہ اس کی ایک اور بڑی وجہ یہ ہے کہ طالبان کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے بھارت کے صدر غنی کی افغان حکومت کے ساتھ تعلقات خراب ہو سکتے تھے جو تاریخی طور پر کافی خوشگوار رہے ہیں، لیکن اب صورتحال بدل چکی ہے۔
گذشتہ چند برسوں میں حکومت ہند نے افغانستان میں تعمیر نو کے منصوبوں میں تقریباً تین ارب امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔ پارلیمان کی عمارت سے لے کر سڑکیں اور ڈیم بنانے تک کے کئی منصوبوں میں سیکڑوں بھارتیہ ملازمین کام کر رہے ہیں۔
افغانستان میں تقریباً 1700 ہندوستانی شہری رہتے ہیں۔ گذشتہ کچھ دنوں میں بہت سے لوگوں کے افغانستان چھوڑنے کی اطلاعات آئی ہیں۔ اس کے علاوہ ایئر انڈیا کا ایک طیارہ تقریباً 130 مسافروں کے ساتھ اتوار کو دلی واپس آیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق اب کابل ایئرپورٹ سے تمام کمرشل پروازیں منسوخ کر دی گئی ہیں۔
طالبان سے متعلق بھارت کا مستقبل کا لائحہ عمل کیا ہو گا؟
شانتی میریٹ ڈی سوزا بھارت کی کوٹلیہ اسکول آف پبلک پالیسی میں پروفیسر ہیں۔ انھوں نے افغانستان میں بھی کام کیا ہے۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’بھارت کو اس حقیقت کو سمجھنا چاہیے کہ اب طالبان نے کابل پر قبضہ کر لیا ہے اور جلد ہی وہ افغانستان میں اقتدار سنبھالنے والے ہیں۔‘
’ایسی صورتحال میں بھارت کے پاس دو راستے ہیں۔ یا تو بھارت افغانستان میں رہے یا پھر سب کچھ بند کر کے 90 کی دہائی کے کردار میں واپس آ جائے۔ اگر بھارت نے دوسرا راستہ اختیار کیا تو اس نے گزشتہ دو دہائیوں میں جو کچھ حاصل کیا ہے وہ ختم ہو جائے گا۔‘ ’میں سمجھتی ہوں کہ پہلے قدم کے طور پر بھارت کو درمیانی راستہ اختیار کرتے ہوئے طالبان کے ساتھ بات چیت کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ بھارت افغانستان کی ترقی کے لیے جو کچھ کر رہا ہے وہ یہ کردار (علامتی یا کم سطح پر ہی صحیح) جاری رکھ سکے۔‘ ان کا کہنا ہے کہ تمام ہندوستانی شہریوں کو وہاں سے نکالنا بھارت کے لیے بہت زیادہ فائدہ مند بات نہیں ہو گی اور جلد بازی میں کوئی بھی فیصلہ اچھا نہیں ہو گا۔
وہ اپنے اس مؤقف کے حوالے سے دلیل بھی دیتی ہے۔ ’اس کی وجہ یہ ہے کہ 15 اگست سے پہلے یہ خیال کیا جاتا تھا کہ ایک عبوری حکومت افغانستان میں اقتدار حاصل کرسکتی ہے لیکن اتوار کے بعد وہاں کے حالات مکمل طور پر بدل چکے ہیں۔ طالبان کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔‘
’1990 میں جب افغانستان میں طالبان کا راج تھا تو بھارت نے کابل میں اپنے سفارتخانے کو بند کر دیا تھا۔ اس کے بعد بھارت نے قندھار میں طیارہ ہائی جیکنگ کا واقعہ دیکھا اور یہ بھی دیکھا کہ انڈین مخالف دھڑوں میں کتنا اضافہ ہوا ہے۔‘
’2011 میں بھارت نے افغانستان کے ساتھ اسٹریٹیجک پارٹنرشپ سے متعلق معاہدہ کیا جس میں بھارت نے وعدہ کیا کہ وہ ہر طرح سے افغانستان کی حمایت کرے گا۔‘
بھارت سے متعلق طالبان کے رویے میں تبدیل
حالیہ دنوں میں طالبان کی طرف سے کوئی بھی ہندوستان مخالف بیان سامنے نہیں آیا۔ طالبان نے کبھی بھی افغانستان کی ترقی میں بھارت کے کردار کو غلط نہیں ٹھہرایا۔ طالبان میں ایک گروہ وہ بھی ہے جو بھارت کے ساتھ تعاون کا حامی ہے۔ جب آرٹیکل 370 کا خاتمہ کیا گیا تو طالبان نے کہا تھا کہ انھیں اس بات کی پرواہ نہیں کہ بھارت کشمیر میں کیا کرتا ہے۔
کابل پر قبضے کے بعد سے اب تک کسی بھی طرح کے تشدد کی کوئی اطلاع سامنے نہیں آئی۔ تاہم بین الاقوامی سطح پر یہ تشویش پائی جاتی ہے کہ طالبان کی حکومت آنے کے بعد افغانستان میں خواتین کی زندگی بد سے بدتر ہو سکتی ہے۔ لیکن بی بی سی کے ساتھ بات کرتے ہوئے طالبان کے ترجمان نے واضح طور پر کہا ہے کہ خواتین کو تعلیم حاصل کرنے اور کام کرنے کی اجازت دی جائے گی۔ ایسا ہوسکتا ہے کہ طالبان ماضی سے قدرے مختلف ہوں۔ تو کیا طالبان نے چہرہ بدلا ہے یا آئینہ، اس پر ماہرین کی رائے منقسم ہے۔
’بھارت جلد بازی نہیں کرے گا‘
پروفیسر ہرش وی پنت دہلی میں واقع آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن میں اسٹریٹیجک سٹڈیز پروگرام کے سربراہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ فی الحال بھارت کی ترجیح اپنے شہریوں کو باحفاظت افغانستان سے نکالنا ہے۔ ’اس کے بعد بھارت دیکھے گا کہ آنے والے دنوں میں طالبان کا رویہ کیسا ہے۔ دنیا کے دوسرے ممالک کب اور کیسے طالبان کو تسلیم کرتے ہیں اور طالبان بین الاقوامی سطح پر اپنی کیا ساکھ بناتے ہیں۔‘
پروفیسر پنت مزید کہتے ہیں کہ میڈیا میں طالبان سے بات کرنے کی بات اس لیے کہی جا رہی ہے کہ طالبان کو اب بھی عالمی سطح پر قبولیت کی ضرورت ہے۔ پروفیسر ہرش وی پنت کہتے ہیں کہ بھارت طالبان سے بات چیت اسی وقت شروع کر سکتا ہے جب طالبان بھی مذاکرات پر راضی ہوں۔
’میڈیا میں طالبان کے بیان اور زمین پر ان کی کارروائی میں کوئی فرق نہیں ہونا چاہیے۔ طالبان بھلے ہی کہہ رہے ہوں کہ وہ کسی سے انتقام نہیں لیں گے، کوئی خون ریزی نہیں کریں گے لیکن کئی صوبوں سے خبریں آ رہی ہیں کہ انھوں نے لوگوں کو پکڑا ہے، ان کے کہنے اور کرنے میں فرق ہے۔‘
’طالبان کے نمائندے ماضی میں چین گئے تھے۔ وہاں انھیں یہ مشورہ ضرور ملا ہو گا کہ بین الاقوامی سطح پر اپنا امیج صحیح کریں لیکن برطانیہ امریکہ اور دیگر ممالک کی جانب سے جس طرح کے ابتدائی اشارے ملے ہیں وہ یہ بتاتے ہیں کہ مغربی ممالک طالبان کی حوصلہ افزائی نہیں کر رہے ہیں۔
’جس طرح امریکہ کے صدر کو افغانستان کے حالات کے لیے ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا ہے، اس سے یہ واضح ہے کہ مغربی ممالک طالبان کو اتنی جلد تسلیم کرنے والے نہیں۔‘
’جہاں تک بھارت کا سوال ہے جب بھی پڑوسی ملک میں حکومت تبدیل ہوتی ہے تو بھارت ان سے بات کرتا ہے۔ افغانستان میں بھی وہ ایسا ہی کرے گا لیکن تب جب صحیح وقت آئے گا۔ وہ صحیح وقت تب آئے گا جب بھارت کے ہم فکر ممالک بھی کوئی پیش رفت کریں اور طالبان کو تسلیم کریں۔‘
پروفیسر پنت مزید کہتے ہیں کہ ’بھارت طالبان سے مذاکرات کے لیے روس کی مدد لے سکتا ہے تاکہ افغانستان میں بھارت کے مفادات کے تحفظ کو یقینی بنایا جاسکے۔ اس کے علاوہ بھارت کی نظریں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات پر بھی ہیں کہ مستقبل میں ان کی حکمت عملی کیا ہو گی۔ 1990 میں پاکستان، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب نے سب سے پہلے طالبان کو تسلیم کیا تھا۔‘
بھارت کے لیے چیلنجز
طالبان کا عروج 90 کی دہائی میں ہوا جب سوویت یونین کے فوجی افغانستان سے نکل رہے تھے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ طالبان کی تحریک پہلے دینی مدارس میں شروع ہوئی تھی۔ اس تحریک میں سنی اسلام کے بنیاد پرست عقائد کی تشہیر کی گئی۔ بعد میں انھوں نے پشتون علاقے میں امن و سلامتی کے قیام کے ساتھ ساتھ شریعت کے بنیادی اصولوں کو نافذ کرنے کا وعدہ کیا۔
پروفیسر پنت کا خیال ہے کہ افغانستان میں حکمرانی کے لیے طالبان کے لیے کوئی ماڈل نہیں۔ ’ان کا اپنا ایک بنیاد پرست نظریہ ہے جسے وہ نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ اب تک ان کا ایجنڈا امریکہ کو افغانستان سے نکالنا تھا جس میں وہ کامیاب رہے ہیں۔ لیکن اس کے بعد بھی ان کے تمام دھڑوں میں اتحاد رہے گا، ابھی یہ کہنا مشکل ہے۔‘
’جب تک افغانستان میں کسی نئے سیاسی عمل کا آغاز نہیں ہوتا اس وقت تک کچھ بھی کہنا مشکل ہے۔ طالبان کی ترجیح وہاں شرعی قانون نافذ کرنا ہو گی نہ کہ اپنے پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات قائم کرنا۔ ایسی صورتحال میں بھارت اور طالبان کے درمیان نظریاتی اختلاف ہوں گے۔‘
ڈاکٹر ڈی سوزا کا کہنا ہے کہ طالبان کے کابل پر قبضے کے ساتھ بھارت کو تین سطحوں پر اہم چیلنجز کا سامنا ہے۔
’پہلا سیکورٹی سے متعلق، طالبان سے وابستگی رکھنے والے جیش محمد، لشکر طیبہ اور حقانی نیٹ ورک کی شبیہ بھارت مخالف گروہوں کی ہے۔
’دوسرا بڑا چیلنج تجارت ہے، بھارت کو وسطی ایشیا میں تجارتی رابطے اور اقتصادی ترقی کے معاملات میں مشکلات ہو سکتی ہیں۔ افغانستان کی لوکیشن ہی کچھ ایسی ہے کہ وسطی ایشیا کے ساتھ تجارت کے لیے اسے افغانستان کا ساتھ ضروری ہے۔‘
’تیسرا مسئلہ چین اور پاکستان سے متعلق ہو گا جن کے طالبان سے تو اچھے تعلقات ہیں لیکن بھارت سے ان کے رشتے تاریخی طور پر تلخ ہیں۔‘
(بشکریہ: بی سی سی )