اشتیاق احمد ربانی
فلسطین اور اسرائیل جنگ کی بنیاد ، مسجد اقصیٰ کو سمجھنے والے حضرات کیلئے اطلاعاً عرض ہے کہ جس جگہ مسجد اقصیٰ ہے وہ پورا علاقہ یروشلم کا علاقہ کہلاتاہے ۔ اقوام متحدہ نے فلسطین کو تین حصوں میں تقسیم کیاتھا (1) اسرائیل (2) فلسطین (3) یروشلم یہ یروشلم (اسی علاقہ میں مسجد اقصی واقع ہے ) یہ یروشلم کا علاقہ تینوں مذاہب، یہودی، عیسائی اور مسلمانوں کے یہاں مقدس سمجھے جانے کی وجہ سے اس علاقہ کو اقوام متحدہ نے اپنے زیر نگرانی میں لے لیا اور اس کو ورلڈ ہیریٹیج قرار دے دیا یعنی اس علاقہ کو تمام مذاہب کے لوگوں کا ورثہ قرار دے دیا، چنانچہ جو لوگ فلسطین اور اسرائیل جنگ کی خبر سن کر فلسطینی معصوم بچوں کے درد کو سمجھنے کے بجائے ، صرف مسجد اقصیٰ کی حفاظت کے نعروں اور اس کی مسماری اور قبضہ کے لاجواب علم تک محدود ہوجاتے ہیں انہیں یہ معلوم ہو کہ آج بھی مسجد اقصیٰ کے باہری حصہ کی نگرانی اسرائیلی فوج کرتی ہے اور مسجد اقصی میں وہ لوگ بھی جہاں وہ لوگ اپنی عبادت کی جگہ اپنے لئے تصور کرتے ہیں وہاں عبادت کرتے ہیں، یہودی لوگ مسجد اقصیٰ کے اندر اس لئے نہیں جاتے ہیں کہ ان کا ماننا ہے کہ یہ مقدس جگہ ہے اور ہمارے لئے اپنی اس مقدس جگہ پر پاؤں رکھنا بے ادبی ہے، اس لئے وہ لوگ مسجد کے اندر داخل نہیں ہوتے ہیں ۔ مسجد اقصیٰ کے اندرونی حصہ کا انتظام مسلمانوں کے ہاتھوں میں ہوتا ہے اور وہ اپنی عبادت پنج وقتہ نماز وغیرہ عبادات انجام دیتے ہیں اور مسجد کے باہری حصہ کی دیکھ ریکھ اسرائیلی فوج کرتی ہے ۔
مظلوم فلسطینی عوام کے درد ، تڑپ ، کڑھن اور جنگ کی اصل وجہ مسجد اقصیٰ ہے ہی نہیں بلکہ اسرائیل کے ساتھ ان کی جنگ کی بنیاد ان کی شناخت کی بقاء اور اپنی زمین کی حفاظت کی ہے ، جوکہ غاصب اسرائیل اپنی طاقت اور قوت کے بل بوتے پر زبردستی انٹرنیشنل لاء، عالمی قوانین کی دھجیاں اڑاکر روز بروز نئے نئے قوانین بناکر فلسطینیوں کو زبردستی ان کے مکانوں پر بلڈوزر چلواکر ان کی زمینوں پر قبضہ کرتاچلاآرہاہے ۔
اور اب ایسا لگ رہاہے کہ کچھ ہی دنوں میں فلسطینی حکمرانوں کے اندرونی اسرائیلی حمایت سے پورے فلسطین پر اسرائیل کا قبضہ ہواچاہتاہے ۔۔۔۔۔ !
اور اس خدشہ میں قوت فلسطینی حکمرانوں کے ذریعہ ، اپنے دفاع کیلئے اپنی فوج اور آرمی کے قیام نہ کرنے کی وجہ سے ہے ۔۔۔ !!
حماس ، جس کو کچھ لوگ نہ جاننے کی وجہ سے دہشت گروپ کہنے لگے ہیں وہ دراصل فلسطین کا ایک دور دراز علاقہ ( جیسے ماضی میں پاکستان کا دوردراز علاقہ مشرقی بنگال ) ویسے ہی فلسطین کا اب بچاہوا چھوٹا سا دور دراز علاقہ غزہ میں وہیں کے عوام کی ایک جماعت اپنے ملک کی حفاظت اور دفاع اور آزادی کے نام پر تشکیل دی گئی ایک جماعت کا نام حماس ہے، جو لوگ عالمی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے حماس کو دہشت گرد گروپ کہہ رہے ہیں , وہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ان کی اس تھیوری کے حساب سے سارے ممالک کی فوج اور آرمی بھی دہشت گروپ کہلائے گی ۔۔۔۔ !
’اپنےملک کی دفاع کے نام پر قائم کی جانے والی فوج اور آرمی کا قیام درست قراردیاجاسکتاہے تو پھر غزہ کے شہریوں کے ذریعہ اپنی دفاع کیلئے تشکیل دینے والی مجاہدین کی جماعت حماس کا قیام کیوں نہیں۔۔۔۔۔ ‘
کیا اس لئے نہیں کہ اس نے اپنے دفاعی فوج کا نام’ آرمی ‘ رکھنے کے بجائے ’مجاہدین‘ رکھ دیا ۔۔۔ !
اسرائیل کو فوج، آرمی اور اسلحہ رکھنے اور بنانے کی پوری اجازت دی جاسکتی ہے لیکن فلسطین کو نہ فوج ، نہ آرمی اور نہ ایٹم بم اور اسلحہ رکھنے اور خریدنے کی اجازت دی جاسکتی ہے ۔۔۔۔۔ ! یہ انصاف سے پرے بات ہے !
فلسطین پہلے عثمانیہ سلطنت کے زیر اثر تھا، 1917/18 میں پہلی جنگ عظیم کے خاتمہ کے بعد یہ پورا فلسطین کا علاقہ برطانیہ نے اپنی دیکھ ریکھ میں لے لیا اوریہ علاقہ وہاں کے عوام کو سپرد کرنے کے بجائے یہودیوں کو بسانے اور قبضہ جمانے کی خطرناک اسی انگریز ملک برطانیہ نے شروع کی تھی، چنانچہ 1948 میں اس کو اقوام متحدہ کو سپرد کرکے یعنی معاملہ کو اقوام متحدہ لے جاکر اس کو تین حصوں میں تقسیم کروادیا ، جس کی تفصیل اوپر بیان کی جاچکی ہے۔
ہر ایک ملک کی ایک متعین سرحد اور باؤنڈری ہوتی ہے لیکن اسرائیل ایک ایسا ملک ہے جس کا اب تک کوئی فکس باؤنڈری نہیں ہے، وہ کہتاہے ہماری کوئی فکس باؤنڈری نہیں ہے اور دھیرے دھیرے پورے فلسطین پر قبضہ کرتاچلاجارہاہے ، یہاں تک کہ اسرائیل اس وقت پورے فلسطین لینڈ یعنی زمین کا 78 فیصد حصہ قبضہ کرچکاہے جبکہ 1948 کے اقوام متحدہ کے فیصلہ کے حساب سے55 فیصد زمین کا رقبہ اسرائیل کو اور 45 فیصد حصہ زمین کا رقبہ فلسطین کو دیا گیا تھا یہ الگ بات ہے کہ عرب ممالک نے اس فیصلہ کو تسلیم نہیں کیا تھا ، لیکن اسرائیل نے تو اس فیصلہ کو تسلیم کیا تھا ، اسے تو کم سے کم اپنے اسی اقوام متحدہ کے فیصلہ پر برقرار رہناچاہئے تھا ۔۔ !
اسرائیل اپنے خطرناک عظیم منصوبے گریٹر اسرائیل کے قیام کی طرف بڑھتا ہوادکھائی دےرہاہے جس کے مطابق سعودی عربیہ، کویت، دبئی، بحرین ، عراق، ترکی جارڈن ، شام اور مصر کے کچھ یا پورے علاقے پر قبضہ کر پورے مسلم ممالک کو عظیم تباہی کیلئے تیار رہنے کا اشارہ دیا جارہاہے ۔۔۔۔۔۔
ایم اے ،ڈپارٹمنٹ آف پولیٹکل سائنس ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ
[email protected]