تحریر:ڈاکٹر عقیل عباس جعفری
(محقق و مؤرخ)
19 رمضان کی صبح مسجدِ کوفہ میں نمازِ فجر کا وقت تھا جب عبدالرحمان ابن ملجم نے دورانِ نماز مسلمانوں کے چوتھے خلیفہ اور پیغمبرِ اسلام کے چچازاد بھائی حضرت علی ابن ابی طالب کے سر پر زہر میں بجھی تلوار کا وار کیا۔
یہ وار مہلک ثابت ہوا اور دو دن بعد یعنی 21 رمضان کو حضرت علی وفات پا گئے۔
حضرت علی کے دور خلافت میں جہاں کئی ایسے واقعات رونما ہوئے جن کے دور رس اثرات اسلامی دنیا پر مختلف صورتوں میں نظر آئے، وہیں اُن کے دور خلافت کا ایک اہم فیصلہ اسلامی ریاست کا دارالخلافہ مدینہ سے عراق کے شہر کوفہ منتقل کرنے کا بھی تھا، جس کی وجوہات اور نتائج پر آج تک بحث ہوتی ہے۔
کوفہ کہاں واقع ہے؟
دریائے فرات کے کنارے واقع کوفہ کا شہر عراق کے دارالحکومت بغداد سے تقریباً 170 کلومیٹر جنوب میں موجود ہے۔ اگرچہ اس شہر کی تاریخ زمانہ قدیم سے ثابت ہوتی ہے تاہم اس کی اہمیت میں اُس وقت اضافہ ہوا جب اس علاقے میں فتوحات کے باعث مسلمانوں کو رسائی حاصل ہوئی۔
کوفہ کو دارالخلافہ بنانے کی کیا وجوہات تھیں؟
اسلام میں مدینہ کو خصوصی اہمیت حاصل ہے جہاں پہلی باقاعدہ اسلامی ریاست کا آغاز ہوا اور یہاں واقع مسجدِ نبوی آج بھی دنیا میں مسلمانوں کا دوسرا مقدس ترین مقام ہے اور اسے پیغمبرِ اسلام کی زندگی میں اُن کے ہیڈکوارٹر کی حیثیت حاصل تھی
کوفہ کو دارالخلافہ بنانے کی کیا وجوہات تھیں؟
اسلام میں مدینہ کو خصوصی اہمیت حاصل ہے جہاں پہلی باقاعدہ اسلامی ریاست کا آغاز ہوا اور یہاں واقع مسجدِ نبوی آج بھی دنیا میں مسلمانوں کا دوسرا مقدس ترین مقام ہے اور اسے پیغمبرِ اسلام کی زندگی میں اُن کے ہیڈکوارٹر کی حیثیت حاصل تھی۔
تاہم جس دور میں مدینہ کی بجائے کوفہ کو دارالخلافہ بنانے کا فیصلہ کیا گیا، اس دور کے واقعات کو دیکھا جائے تو مختلف وجوہات سامنے آتی ہیں۔ تاہم یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ اس کے بعد خلافت کا مرکز مدینہ واپس نہیں لوٹا۔
حضرت علی کی خلافت کے آغاز سے قبل ہی اسلامی دنیا تقسیم کا شکار ہو چکی تھی اور جنگِ جمل کے بعد 36 ہجری میں اسلام کے چوتھے خلیفہ نے فیصلہ کیا کہ وہ دارالخلافہ حجاز سے عراق منتقل کر لیں۔مؤرخین کی نظر میں اس فیصلے کی سب سے اہم وجہ یہ تھی کہ حضرت علی مکہ اور مدینے کی حرمت کو قائم رکھنا چاہتے تھے اور چونکہ کوفہ میں ان کے حامیوں کی تعداد زیادہ تھی، اس لیے انھوں نے اس شہر کو دارالخلافہ بنانے کو ترجیح دی
سیاسی و عسکری وجوہات
اس زمانے میں اسلامی ریاست کے اہم مراکز میں شام میں دمشق، حجاز میں مکہ اور مدینہ اور عراق میں بصرہ اور کوفہ شامل تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب ایک جانب دمشق میں معاویہ بن ابی سفیان گورنر تھے اور وہ حضرت علی کے خلافت سنبھالنے کے بعد شام کے لیے ان کے مقرر کردہ گورنر سہیل بن حنیف کو عہدہ سونپنے سے انکار کر چکے تھے تو دوسری جانب مکہ بھی حضرت علی کے مخالفین کے زیر اثر آیا ہوا تھا۔
پروفیسر سید عبدالقادر اور محمد شجاع الدین کی کتاب ’تاریخ اسلام‘ کے مطابق اس فیصلے کی سب سے اہم وجوہات میں سے ایک یہ تھی کہ حضرت علی مدینہ کو مزید خانہ جنگی سے بچانا چاہتے تھے۔
کوئیل کارمائیکل کی کتاب ’دی شیپنگ آف عربز‘ کے مطابق اسلامی فتوحات کا دائرہ پھیلا تو اس دین کا سامنا روم اور یونانی تہذیبوں کے ساتھ ساتھ ایرانی خیالات سے ہوا اور نئی روایات اور اقدار کا اسلامی سوچ میں امتزاج ہونا شروع ہوا لیکن اسلام کے مرکز کو مدینے سے دور لے جا کر حضرت علی نے اسلامی طرز زندگی کو کم از کم حجاز کی حد تک اس ملاوٹ سے بچایا اور ان شہروں میں اسلام بہت دیر تک اسی شکل میں زندہ رہا جیسا کہ پیغمبر اسلام کی زمانے میں تھا۔
ایک اہم وجہ یہ بھی تھی کہ اسلامی ریاست کی وسعت کے ساتھ ساتھ اس زمانے میں کوفہ جغرافیائی لحاظ سے تقریباً اس زمانے کے عالم اسلام کے مرکز میں واقع ہوا تھا جہاں سے ایران، حجاز، شام اور مصر پر نظر رکھی جا سکتی تھی اور ریاستی امور کو چلانے کے لیے بھی یہ مقام بہتر تھا۔
کوفہ پانچ برس تک اسلامی ریاست کا دارالخلافہ رہا۔ 40 ہجری میں معاویہ بن ابو سفیان نے جب مکہ اور مدینہ پر قبضہ کیا اور یمن کی جانب پیش قدمی شروع کی تو یمن کے گورنر عبیداللہ بن عباس نے مقابلے کے بجائے کوفہ کا رخ کیا۔
حضرت علی کو ان بغاوتوں کی خبر ملی تو انھوں نے بھی مقابلے کے لیے لشکر روانہ کرنا چاہا مگر ابھی یہ لشکر روانہ نہیں ہوا تھا کہ 19 رمضان کو ان پر اپنے ہی منتخب کردہ دارالحکومت کی مسجد میں جان لیوا وار کیا گیا اور ان کی وفات کے بعد کوفہ سے بھی اسلامی حکومت کے دارالخلافہ ہونے کا اعزاز جاتا رہا اور مرکز حکومت شام منتقل ہو گیا۔