دوٹوک :قاسم سید
بھارت کے مسلمانوں کا سب سے معتبر مشترکہ پلیٹ فارم مسلم پرسنل لا بورڈ کم وبیش دوماہ سے اوقاف بچاؤ تحریک چلارہا ہے ـاس کے سامنے بلاشبہ شدید مشکلات اور چیلنج ہیں ،گرمی کی آزمائش الگ جو لگاتار بڑھ رہی ہے -اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ اسے مسلم کمیونٹی کا بھرپور تعاون مل ریا ہے – بزرگی میں علمی اعتکاف اور عمرے کو ملتوی کرکے شہر شہر جاکر وقف تحریک میں زندگی پیدا کرنا وقت کی قربانی دینا ہے – یہ بھی حیرت انگیز ہے کہ بعض مسلم تنظیموں نے وعدوں کے باوجود خودکو بظاہر اس اجتماعی تحریک سے خاموشی کے ساتھ الگ کرلیا ہے یا وہ اپنی تنظیم کے بینر سے خانہ پری کررہی ہیں ، وہیں امارت شرعیہ باہم دست وگریباں ہے –
بورڈ نے آپریشن سندور کے دوران ملک،سرکار اور فوج کے ساتھ اظہار یک جہتی کے لیے اپنے پروگرام ایک ہفتے کے لیے ملتوی کردیے تھے جو جنگبندی کے بعد بھی ملتوی رہے ،اب کچھ دن قبل یعنی 18مئی کو بورڈ نے تحریک کا روڈ میپ پیش کیا کہ پروگرام کہاں کہاں ہوں گے اس میں زیادہ تر وہ ریاستیں ہیں جہاں اپوزیشن کی حکومت ہے ،وہ پہلے سے ہی مسلم موقف کے ساتھ ہیں جس کا مظاہرہ پارلیمنٹ میں بھی دیکھا گیا – بورڈ کی بھی یہی رایے تھی کہ ایسی ریاستوں میں زیادہ محنت نہیں کی جائے گی بلکہ بی جے پی والی ریاستوں میں افہام وتفہیم کی زیادہ ضرورت ہے ، البتہ مسلمانوں کے خلاف جارحانہ پالیسیوں کو دیکھتے ہویے انڈور میٹنگیں کی جائیں گی -یہ فیصلہ بھی درست تھا گزشتہ دنوں صرف کالی پٹی باندھنے پر یوپی کے کچھ ضلعوں سے "قصورواروں” پر لاکھوں کا جرمانہ عائد کرنے اور پابند مچلکہ کرنے کی خبر آئی تھی،لیکن اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ اترپردیش میں قدم ہی نہ رکھا جائے،اسے ممنوعہ ریاست سمجھ لیا جائے ،اس کے بیس فیصد مسلم ووٹروں کو نظر انداز کردیا جائے ـ نیے روڈ میپ میں بھی اترپردیش کا نام تک نہیں ہے – یہ خوف ہے یا مصلحت ،یہ ڈر ہے یا راہ فرار،اخر ملک کی سب سے بڑی ریاست جہاں سب سے زیادہ مسلم ابادی ہے اور سب سے زیادہ اوقاف ہیں( تقریباً ایک لاکھ چوبیس ہزار) سب سے زیادہ بلڈوزر چل رہا ہے حالیہ مہینوں میں سیکڑوں مزارات ،مساجد اور مدارس غیر قانونی کہہ کر مسمار کردیے گیے ہیں ، بورڈ کی قیادت نے اسے یکسر نظر انداز کردیا ہے حتی کہ بورڈ میں شریک مذہبی جماعتوں نے بھی یوپی کا رخ نہیں کیا ہے ،وہاں کی مسلم ابادی کو سرکار کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا ہے؟جو چاہے سلوک کرو!یہی اتراکھنڈ کا حال ہے وہاں کے مسلمان اپنے اداروں اور وجود کی لڑائی تن تنہا لڑ رہے ہیں ،بات ماضی کی نہیں حالیہ اوقاف تحریک کی ہے
بورڈ کے ترجمان اور بورڈ کی تحفظ اوقاف کمیٹی کے کنوینر ڈاکٹر قاسم رسول الیاس اس بارے میں فرماتے ہیں کہ یوپی کے کنوینر مولانا خالد رشید فرنگی محلی ہیں ان سے بات کریں گے ،اور پروگرام ترتیب دیا جایے گا ،سوال یہ ہے کہ دو ماہ ہوگیے ابھی تک یوپی کا خیال تک نہیں آیا جہاں تک فرنگی محلی کا معاملہ ہے وہ ہمیشہ سے سرکار دوست رہے ہیں وہ بیلینس بناکر چلتے ہیں تحریکوں کے تعلق سے ان کا ٹریک ریکارڈ بہت اچھا نہیں ہے ،وہ کبھی آنکھ ملاکر بات نہیں کرتے ،دوسرے اگر کوئی متوقع نتائج نہیں دے رہا ہے تو باصلاحیت آدمیوں کی کمی نہیں ہے ،یوپی میں بورڈ کے ایک اور سکریٹری مولانا یاسین عثمانی ( سماجوادی کے لیڈر )ہیں ان کو ذمہ داری دی جاسکتی ہے مولانا کلب جواد ہیں ،سوال نتائج کا ہے گڈے سجانے کا نہیں
وقت بہت کم رہ گیا ہے سپریم کورٹ میں بحث کے تیور ،عدلیہ کا موڈ اور رخ بہت حوصلہ افزا نہیں ،بورڈ کی قیادت کے ماتھے ہر تشویش کی لکیریں صاف دیکھی جاسکتی ہیں اور اس نے پلان B بھی تیار کیا ہوگا- اس کی گونج یوپی میں ضرور سنی جانی چاہیے
جس طرح دہلی کا راستہ یوپی سے ہوکر گزرتا ہے اسی طرح کسی تحریک کی جیت کا دروازہ اترپردیش کو ہی مانا جاتا ہے- -یوپی کو نظر انداز کرنا بھلے ہی عزیمت کے مقابلے رخصت کے راستے پر چلنا ہو مگر اس کا میسیج اچھا نہیں گیا ہے ،یوپی کے مسلمانوں کو سرکار کے رحم وکرم پر چھوڑ دینا کسی بھی لحاظ سے قابل قبول نہیں ہوسکتا ہمارے علمابڑے فخر کے ساتھ آزادی کی جنگ میں علما کی بے نظیر قربانیوں کا تذکرہ کرتے ہیں مگر وہ آنے والی نسلوں کو سنانے کے لیے کونسی قربانیاں دے کر جائیں گے کہ آپ کی بھی مثالیں دی جائیں ،جس کمیونٹی نے آپ کو ہر لمحہ سنہری مسندوں پر بٹھایا،اپنی نوک مژگاں ہر آپ کے قدم رکھ لیے ،اپ کی ہر اپیل پر لبیک کہا ،اب وہ مصیبت میں ہیں اور آپ کی راہ دیکھ رہے ہیں ،یوپی کے ساتھ بے رخی کیوں ہے بورڈ اس کا جواب دے گا یوپی کے کروڑوں مسلمان اضطراب کے ساتھ انتظارِ کرہے ہیں