دوٹوک:قاسم سید
ملک کے مسلمانوں کے سب سے بڑے مشترکہ پلیٹ فارم مسلم پرسنل لا بورڈ کے زیر اہتمام ملک کے سب سے بڑے صوبہ اترپردیش کو چھوڑ کر وقف ایکٹ کے خلاف تحریک چلائی جارہی ہے -خاص طور سے اس کا زور ان ریاستوں میں زیادہ ہے جہاں بی جے پی حکومت میں ہے اور اگر بی جے پی والی ریاستوں جیسے راجستھان ، میں کچھ پروگرام ہوئے ہیں تو ان کی تعداد نہ کے برابر ہے ،البتہ مہاراشٹرمیں اس کی موجودگی کا احساس ضرور ہوتا ہے
یوپی آبادی کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہیں یہاں بیس فیصد مسلم ووٹر ہے اور اوقاف کی سب سے زیادہ املاک تقریباً ایک لاکھ چوبیس ہزار صرف اسی صوبہ میں ہیں ،حیرت انگیز بات یہ ہے کہ بورڈ یا اس میں شریک اہم بڑی قابل ذکر جماعتوں نے بھی یوپی میں وقف تحریک کے حوالہ سے قدم رکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی یا وہ ہمت نہیں کر پارہی ہیں ،بورڈ کی اعلی قیادت نے دسیوں بار عوامی جلسوں میں وقف کی خاطر جان دینے،سر کا نذرانہ پیش کرنے اور گولیوں کے سامنے سینے کھول دینے کا عہد کیا ہے جس میں بورڈ کے صدر مد ظلہ العالی سے لے کر بورڈ کے ایک کم عمر سکریٹری اور ابو طالب رحمانی جیسے جنرل سکریٹری کے منظور نظر کے نام آتے ہیں اور یہ ریکارڈ پر موجود ہےـ مگر اسی قیادت نے اترپردیش میں سخت آزمائش کی ‘ممکنہ بارش’ کے خوف سے پاجامے اوپر کرلیے ہیں، اس گریز کی کوئی معقول وجہ بھی نہیں بتائی جاتی جب اس بارے میں بورڈ کے بالغ نظر ،بیدار مغز , متحرک ترجمان ڈاکٹر قاسم رسول الیاس سے بات کی گئی تو انہوں نے ہمیشہ کی طرح بتایا کہ جلد ہی اس سلسلہ میں یوپی کے لوگوں سے بات کی جائے گی ـ مگر ہرنالہ وہیں پر گررہا ہے ,ہاں انہوں نے یہ ضرور کہا کہ یوپی اور اترا کھنڈ سرکاروں کے بے جا سخت رویے کی وجہ سے بورڈ یہاں کے مسلمانو۔ کو آزمائش میں نہیں ڈالنا چاہتا -تو پھر قربانی کے لیے تیار رہنے کی اپیلوں کے کیا معنی ،قیادت کے دل کا یہ ڈر اسے یوپی آنے سے روک رہا ہے تو پھر ایسی بابرکت معزز قیادت کے بارے میں کیا کیا جائے؟ ـ اب کوئی یہ کہے گا کہ ہمارے بزرگوں پر تنقید کی جارہی ہے،یہ صریحاً گستاخی ہے تو ازراہ کرم وہ ہی کوئی معقول توجیہ کردیں بڑی مہر بانی ہوگی اور ہم اکابر کی شان مقدس میں گستاخی سے بچ جائیں گے کیونکہ وہ تو مقدس گائے کا درجہ اور رتبہ رکھتے ہیں ـان پر کیوں کر سوال اٹھائے جاسکتے ہیں ـ
لکھنؤ کے معروف بزرگ رہنما اور تمام سیاسی پارٹیوں بشمول بی جے پی یکساں مقبول مولانا خالد رشید فرنگی محلی یوپی میں بورڈ کی وقف تحریک کے کنوینر اور روح رواں ہیں ـان کے ہاتھ پیر بہت لمبے ہیں پھر بھی ذرائع کے مطابق وہ کوئی پروگرام کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں – بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے صاف انکار کردیاہے ،خبر تو یہ بھی ہے کہ وہ موجودہ ریاستی سرکار سے کوئی چھڑچھاڑ کرکے آزمائش میں مبتلا نہیں ہونا چاہتے ،ان کے اپنے بھی کچھ مسائل ہیں – اب بورڈ کی کیامجبوری ہے کہ وہ یوپی میں ایک دوسرا فعال کنوینر تلاش نہیں کر پاریا ہے ـاورحضرت فرنگی محلی کے سامنے بے بس نظر آرہا ہےـ
اب یہ سوال ہر زبان پر ہے کہ بین الاقوامی سطح پر شہرت یافتہ دامت برکاتہم ارکان قیادت کو یوپی میں قدم رکھنے اور یہاں کے مسلمانوں کی الجھنوں کو دور کرنے میں کیا حکمت یا مصلحت آڑے آرہی ہے؟ -یوپی کے لوگ جاں نثاری کا جذبہ رکھنے والی بورڈ کی معزز قیادت کو سر آنکھوں پر بٹھانے کو تیار ہیں ،یوپی نے ہمیشہ قربانی دی ہے وہ بہت سخت جان ہے – این آر سی تحریک میں سب سے زیادہ قربانیاں یوپی کے نام ہیں ـ آخر بورڈ کے سامنے کون سا خوف ی، سبب یا عذر مانع ہے ؟قوم ان پر اعتماد کرتی ہے وہ بھی قوم پر اعتماد کریں اور بتائیں ان کی تشریف مقدس کب رونق افروز ہو گی ؟اور کب تک دلاسے دیتے رہیں گےـ ان کے انتظار میں دروازے پر آنکھیں رکھ دی ہیں ـیہ اترپردیش کے مسلمانوں سے بہت بڑی تفریق اور امتیازی سلوک ہے جس نے بورڈ کو دو اہم صدر دیے ہیں – یقیناً بورڈ سے یوپی نے کبھی نہیں کہا کہ وہ یہاں نہ آئے ـ کوئی تحریک نہ چلائے،ہمیں آزمائش میں نہ ڈالے ـ یوپی کی شرکت کے بغیر کوئی تحریک نہ ماضی میں کامیاب ہوئی تھی نہ مستقبل میں کامیاب ہوگی ـ بھلے ہی کتنا زور لگالیں ـاگر واقعی کنوینر کا مسئلہ ہے تو اسے بدل کیوں نہیں دیتے ـایسے عافیت پسندوں اور سیف زون تلاش کرنے والوں کو ڈھونے کی کیا ضرورت ہے؟ کیا یہ عاجزانہ درخواست معززین بورڈ کے دربار تک پہنچے گی، یوپی بڑا شکر گزار ہوگاـ
توصاحبو! پدھارو ہمارے دیس ،دیر نہ ہو جائے کہیں