مولانا ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی
سوال:
کیا شوہر کی اجازت کے بغیر بیوی کچھ دنوں کے لئے میکے جا سکتی ہے ؟
جواب : بیوی کو شادی کے بعد وقفہ وقفہ سے اپنے میکے ضرور جانا چاہیے _ وہاں اس کے ماں باپ ، بھائی ، بھتیجے بھتیجیاں ، رشتے دار اور پورا خاندان رہتا ہے _ شادی کا مطلب یہ نہیں کہ سب سے رشتہ منقطع کرلیا جائے اور پلٹ کر ان کی خیر خبر نہ لی جائے _ جدید ذرائع نے اس کی سہولیات پیدا کردی ہیں _ ہر ایک کے ہاتھ میں موبائل ہے _ بیوی کو چاہیے کہ اپنے میکے کے رشتے داروں سے موبائل پر رابطہ رکھے ، ان کی خیریت دریافت کرتی رہا کرے ، کبھی کوئی خوشی کا موقع ہو یا غم کا ، اس میں میکے جانے کی کوشش کرے _ ویسے بھی کچھ کچھ عرصے کے بعد میکے جاتے رہنا چاہیے _ اس سے تعلّقات میں خوش گواری قائم رہتی ہے اور ماحول بدل جانے سے صحت پر بھی اچھے اثرات پڑتے ہیں _۔
لیکن ضروری ہے کہ عورت جب اپنے میکے جانا چاہے تو شوہر سے اجازت لے _ محض اطلاع دینا کافی نہیں ہے _ اطلاع اور اجازت کے بغیر عورت کا گھر سے باہر نکلنا بالکل مناسب نہیں ہے _ اس سے ازدواجی زندگی میں خوش گواری باقی نہیں رہتی اور تعلقات میں دراڑیں پڑنے لگتی ہیں ، جنہیں اگر درست نہ کیا جائے تو بسا اوقات علیٰحدگی تک نوبت پہنچ جاتی ہے _۔
بعض لوگوں کو یہ عجیب لگتا ہے کہ بیوی اپنے میکے جانے کے لیے شوہر سے اجازت کیوں لے؟ وہ کہتے ہیں کہ عورت اپنی مرضی کی مالک ہے _ خاندان میں وہ شوہر کے مساوی حیثیت رکھتی ہے _ جب وہ شوہر کے ماتحت نہیں ہے تو اجازت کے کیا معنیٰ؟ اسلامی نقطۂ نظر سے یہ بات درست نہیں ہے _ اسلام نے مرد کو خاندان کا ‘قوّام یعنی نگراں بنایا ہے _ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
اَلرِّجَالُ قَوَّامُوۡنَ عَلَى النِّسَآءِ ( النساء :34)’’مرد عورتوں پر ‘قوّام ہیں _‘‘
مولانا سید ابو الاعلی مودودی رحمہ اللہ نے لکھا ہے :’’ قوام اس شخص کو کہتے ہیں جو کسی فرد یا ادارے یا نظام کے معاملات کو درست حالت میں چلانے اور اس کی حفاظت و نگہبانی کرنے اور اس کی ضروریات مہیا کرنے کا ذمہ دار ہو ۔ ‘‘
نظامِ خاندان میں مرد اور عورت کی حیثیت کو ایک مثال سے سمجھا جاسکتا ہے _ ایک کمپنی قائم کی جائے ، جس میں کچھ افراد کام کرنے والے ہوں تو ان میں سے ایک شخص کو ‘باس بنایا جاتا ہے اور دیگر تمام افراد کو اس کے ماتحت کرکے انہیں اس کا کہنا ماننے اور اس کی ہدایات کے مطابق کام کرنے کا پابند بنایا جاتا ہے _ اب اگر کسی ملازم کو کمپنی یا اپنے ذاتی کسی کام سے باہر جانا ہو ، یا کسی ضرورت سے رخصت لینی ہو تو وہ اپنے باس کو اس کی اطلاع دیتا ہے اور اس سے اجازت لیتا ہے _ اس سے نہ اس کی توہین ہوتی ہے نہ اس کی قدر گھٹتی ہے ، بلکہ یہ ایک ضابطہ کا عمل ہے ، جس سے کمپنی کو معمول کے مطابق چلانے میں مدد ملتی ہے _ ٹھیک یہی حال خاندان کا ہے کہ اس کا نظام درست طریقے سے چلانے کے لیے شوہر کو ‘باس بنایا گیا ہے اور بیوی بچوں کو اس کے ماتحت رکھا گیا ہے _ شوہر کو تاکید کی گئی ہے کہ بیوی کا خیال رکھے ، اس کی دل جوئی کرے اور اس کی تمام ضروریات پوری کرے اور بیوی کو حکم دیا گیا ہے کہ شوہر کی اطاعت کرے _ اس لیے بیوی کو گھر سے باہر کہیں بھی جانا ہو ، ضروری ہے کہ وہ شوہر سے اجازت لے _۔
بعض خواتین شکایت کرتی ہیں کہ ان کے شوہر انہیں میکے جانے نہیں دیتے _ یہی نہیں ، بلکہ وہ میکے والوں سے موبائل پر بات چیت کرنے پر بھی پابندی عائد کرتے ہیں _ یہ شکایت بجا ہے _ ایسے شوہروں کا رویّہ درست نہیں ، بلکہ سراسر قابلِ مذمّت ہے _ نکاح کے بعد بیوی کو اس کے میکے والوں سے کاٹنا غیر شرعی ہے _ ایسی پابندی بالکل ناروا ہے _ بیوی کوئی بکری یا گائے تو ہے نہیں ، کہ اسے خرید کر اپنے کھونٹے سے باندھ لیا ، اب سابق مالک سے اس کا کوئی تعلق باقی نہیں رہا _ بیوی کو نہ صرف اس کے میکے جانے کی اجازت دینی چاہیے ، بلکہ شوہرِ نام دار کو کبھی کبھی بیوی کے ساتھ اس کے میکے (اپنی سسرال) چلے جانا چاہیے _ جس طرح شوہر کے ماں باپ بیوی کے لیے اس کے ماں باپ کے درجے میں ہیں اسی طرح بیوی کے ماں باپ بھی شوہر کے لیے اس کے ماں باپ کے درجے میں ہیں _ صلہ رحمی کا حکم بیوی اور شوہر دونوں کے لیے ہے _ قرآن و حدیث میں اس پر بہت زور دیا گیا ہے اور قطع رحمی کرنے والوں کو وعید سنائی گئی ہے _۔