تحریر: پونم کوشل
9 فروری 2016 کو جے این یو میں طلباء نے 2001 کے پارلیمنٹ حملے کے مجرم افضل گرو اور مقبول بھٹ کی سزائے موت کے خلاف احتجاج کیا۔ اس دوران مبینہ طور پر بھارت مخالف نعرے لگائے گئے۔ اس سلسلے میں دہلی پولیس نے اس وقت کے جے این یو طلبہ یونین کے صدر کنہیا کمار کو غداری کے الزام میں گرفتار کیا۔ کچھ دنوں بعد ، عمر خالد ، جو احتجاج میں شامل تھے ، اور دیگر طلباء نے بھی خودسپردگی کردی۔ حالانکہ آگے چل کر عدالت میں الزامات ثابت نہیں ہو سکے ۔
اس واقعہ کے بعد کنہیا کمار اور عمر خالد دونوں ملک بھر میں مشہور ہو گئے۔ حکومت مخالف چہرہ بن گئے۔ ان کی جتنی مخالفت ہوئی ،اتنا ہی حمایت بھی ملا۔ اب تقریباً 5 سال بعد 25 ستمبر کو کنہیا کمار زور شورسے کانگریس میں شامل ہوئےہیں ۔ اس سے پہلے وہ سی پی آئی کے ٹکٹ پر بہار کےبیگوسرائے سے لوک سبھا الیکشن لڑ چکے ہیں ۔ جبکہ عمر خالد دہلی فسادات کی سازش، غداری اور یو اے پی اے کے تحت جیل میں بند ہیں ۔
ایسی صورت حال میں یہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ ایک ساتھ ایک ہی واقعہ سے سرخیاں بٹورنے والے کنہیا کمار سے عمر خالد کیوں پیچھے رہ گئے؟ انہیں سرگرم سیاست میں جگہ کیوں نہیں ملی؟ کیا اس کے پیچھے ان کا مسلمان ہونا ہے؟
گزشتہ سال 23 فروری کو ہندوستان کے دارالحکومت دہلی میں فرقہ وارانہ فسادات ہوئے تھے۔ پولیس ریکارڈ کے مطابق اس میں 53 افراد ہلاک ہوئے۔ مرکزی حکومت کے شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کے خلاف ملک بھر میں مسلمانوں اور انسانی حقوق کے گروہوں نے احتجاج کیے تھے۔ عمر خالد اس تحریک میں سرگرم تھے اور انہوں نے لنچنگ کے واقعات کے خلاف یونائٹیڈ اگینسٹ ہیٹ مہم بھی شروع کی تھی ۔
اس سے قبل 17 فروری 2020 کو عمر خالد نے مہاراشٹر کے امراوتی میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا، ’جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھارت میں ہوں گے تو ہمیں سڑکوں پر اترنا چاہیے۔ 24 تاریخ کوٹرمپ آئیں گے تو ہم بتائیں گے کہ بھارتی حکومت ملک کو تقسیم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ مہاتما گاندھی کے اصولوں کی خلاف ورزی کی جارہی ہے ۔ ہم دنیا کو بتائیں گے کہ ہندوستان کے عوام ہندوستان کے حکمرانوں کے خلاف لڑ رہے ہیں۔
عمر خالد کی اسی تقریر کو ان کے خلاف مقدمات کی بنیاد بنایا گیا تھا۔ خالد کا نام لیے بغیر وزیر داخلہ امت شاہ نے دہلی فسادات پر پارلیمنٹ میں اپنے بیان میں اس تقریر کا بھی ذکر کیا تھا۔دہلی فسادات کی سازش کے ایک معاملے میں تو عمر خالد کو ضمانت مل چکی ہے، لیکن ایف آئی آر تعداد 59/60میں ابھی انہیں ضمانت نہیں ملی ہے ۔ ان کی ضمانت پر اگلی سماعت 9 اکتوبر کو ہوگی ۔
کنہیا اور عمر خالد کے درمیان موازنہ ہوتا رہا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہو رہا ہے کہ کنہیا کو توہندوستان کی سیاست نے قبول کر لیا ہے ، لیکن عمر خالد جیل میں بند ہیں۔ عمر خالد کے دوست اور مصنف دراب فاروقی کہتے ہیں – مجھے نہیں معلوم کہ پہلے حالات کیسے تھے ، لیکن آج ہم ہندوستان میں کہاں کھڑے ہیں ،وہاں نام ہی سب سے اہم ہو گیا ہے۔ آپ کا نام کیا ہے ، اسی سے طے ہوتا ہے کہ آپ کہاں تک جائیں گے۔ آپ کا نام آپ کا شناختی کارڈ بن گیا ہے۔
کنہیا اور عمر خالد کا موازنہ کرتے ہوئے فاروقی کہتے ہیں ، ’عمر کا راستہ اگنی پرکشا ہے۔ عمر کو ہر قدم پر اگنی پرکشا دینی ہوگی۔ کنہیا اور عمر خالد اگر ایک مقابلہ کے رنر ہیں اور ایک ہی دوڑ میں ہیں تو عمر کی دوڑ میں رکاوٹ ہے اور کنہیا تیزی دوڑ رہاہے ۔
وہیں عمر خالد کے والد قاسم رسول الیاس کا کہنا ہے کہ ‘بنیادی طور پر عمر ایک انسانی حقوق کا کارکن ہے اور اس نے کئی معاملات پر حکومت کے خلاف موقف اختیار کیا ہے۔ خاص طور پر سی سی اے کےخلاف مظاہروں میں عمر خالد سرگرم تھے ۔
انسانی حقوق کے کارکن اور عمر خالد کے دوست ذاکر علی تیاگی کا کہنا ہے کہ آج کنہیا مرکزی دھارے کی سیاست میں ہے اور عمر خالد جیل میں ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ بھارت کے مین اسٹریم میڈیا نے کنہیا کو تو جگہ دی ، لیکن عمر خالد کو نظر انداز کر دیا۔ ٹی وی میڈیا نے نہ ہی انہیں ڈبیٹ میں بلایا اور نہ ہی ان کے انٹرویو دکھائے ۔
وہیں کنہیا اور عمر کے دوست اور ٹی آئی ایس ایس ممبئی اسٹوڈنٹس یونین کے سابق جنرل سکریٹری فہد احمد کا کہنا ہے کہ ’مجھے نہیں لگتا کہ کنہیا اور عمر کے درمیان کوئی موازنہ ہونا چاہیے۔ ان دونوں کا موازنہ کرنا کوئی مدعا نہیں ہے ، مسئلہ یہ ہے کہ آج کی سیاسی جماعتیں مذہبی شناخت پر سمجھوتہ کر رہی ہیں ، یہ انتہائی بدقسمتی کی بات ہے۔
خالد کے والد کہتے ہیں ،’ سیاست میں جگہ دو وجوہات کی بنا پر ملتی ہے۔ پہلی یہ کہ آپ ایک محروم سماج کے تئیں کتنے پرعزم ہیں۔ اس کے مسائل کے ساتھ کب تک کھڑے رہتے ہیں۔ ایسے میں آپ کو آج نہیں توکل اپنی جگہ مل ہی جاتی ہے ۔ دوسری وجہ ہوتی ہے کہ آپ کے سیاسی عزائم ،جنہیں پورا کرنے کے لیے آپ سیاست کرتےہیں،جہاں موقع ملتا ہے وہاں چلے جاتے ہیں ۔ میںیہ مان کر چلتاہوں کہ بھارت میں ابھی بھی جگہ ہے۔ اگر کوئی شخص کسی ایک گروہ یا محروم طبقہ کےلیے شدت سے کام کرتاہے تو اس کے لیے جگہ ہی ختم ہو جائے، ایسا نہیں ہے ۔ عمر کے لیے بھلے ہی آج نہیں ہے ، لیکن کل موقع ضرور ملے گا ۔
وہیں ذاکر تیاگی کا کہنا ہے کہ ‘عمر خالد کو سیاست میں اس طرح قبول نہیں کیا جائے گا جس طرح کنہیا کمار کو کیا گیا ہے۔ جس طرح سے راہل گاندھی نے کنہیا کو خود اپنے ہاتھ سے تقریر لیٹر دیاہے ۔ اگر کل رہاہونے کےبعد عمر خالد کانگریس میں آنا چاہیں گے تو کیا کانگریس ان کااس طرح استقبال کرےگی؟ بھارت کی سیاست میں آج مسلمانوں کے لیے جگہ تو ہے،لیکن صرف دری بچھانے یا لیڈروں کے پیچھے کھڑا ہونے تک ۔
دوسری جانب دراب فاروقی کا کہنا ہے کہ سیاسی سفر عمر کے لیے آسان نہیں ہوگا۔ شناختی سیاست اس ملک میں اس قدر غالب ہوچکی ہے کہ آج ہر شخص کو اس کے نام کی بنیاد پر پرکھا جارہا ہے۔ آپ کا نام یہ طے کررہاہے کہ آپ کیاہے ؟
فہد کا خیال ہے کہ مسلم نوجوانوں کو سیاست میں آنے کے لیے جدوجہد جاری رکھنی چاہیے۔ وہ کہتا ہے کہ میں چاہتا ہوں کہ ہر وہ مسلم نوجوان جو آئین کی جنگ لڑ رہا ہے ، مساوات کی جنگ لڑ رہا ہے ، سیاست کو قبول کرے۔ عمر جیل میں ہے ، لیکن مجھے افسوس نہیں ہے کیونکہ وہ جمہوری حقوق کے لیے لڑ رہا ہے ، وہ ہماری جدوجہد کا چہرہ ہے۔ بھارت میں حقوق کی بات کرنے والے لوگ جیل جا تے رہے ہیں۔ نہرو ، گاندھی ، مولانا آزاد اور بھیم راؤ امبیڈکر جیسے رہنماؤں بھی جیل بھیجے گئے تھے۔
عمر خالد کے اہل خانہ اور دوستوں کا کہنا ہے کہ جیل میں ہونے کے باوجود اس نے اپنی ہمت نہیں ہاری۔ خالد جیل میں کتابیں پڑھتا ہے اور اب تک 70 سے زائد کتابیں پڑھ چکا ہے۔ وہ ہر ہفتے اپنے دوستوں اور اہل خانہ کے افراد سے ویڈیو کالز کے ذریعے بات کرتا ہے۔ دراب فاروقی کہتے ہیں ، ‘ویڈیو کال کے دوران ہم عمر کی حوصلہ افزائی کرنے کی کوشش کر رہے تھے ، لیکن حقیقت یہ تھی کہ وہ ہماری حوصلہ افزائی کر رہے تھے۔
عمر خالد کے والد نے کنہیا پر موقع پرستی کی سیاست کرنے کا الزام لگاتے ہوئے کہتے ہیں کہ کنہیا کمار کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے طلبہ ونگ کےرہنما تھے اور بعد میں سی پی آئی میں شامل ہوگئے تھے۔ ان کےسیاسی عزائم تھے۔ انہوں نے الیکشن بھی لڑا۔ کنہیا کے سی پی آئی چھوڑ کر کانگریس میں شامل ہونے کی وجہ ان کے سیاسی عزائم ہی ہیں۔ سی پی آئی میں انہیں اپنا مستقبل نظر نہیں آرہا تھا۔ انہیں یہ محسوس ہواہوگاکہ کانگریس میں ہی ان کا مستقبل بن سکتا ہے اور وہ کوئی انتخاب جیت سکتے ہیں
۔
(بشکریہ : دینک بھاسکر)