تحریر: تولین سنگھ
صحافت کے طویل سفر میں میں نے کئی فسادات دیکھے ، کئی لاشیں بھی، لیکن انسانوں کو کچلتے ہوئے میں نے کبھی نہیں دیکھا۔ لکھیم پور کھیری کی تصاویر اتنی خوفناک تھیں کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی تشہیری مشین فوراً حرکت میں آگئی یہ ثابت کرنے کے لیے کہ قافلے پر حملہ پہلے کسانوں نے کیا تھا ۔
اس حملے کی وجہ سے ہی منتری جی کی گاڑیاں بے قابو ہوگئی تھیں اور اس لئے چار کسان مارے گئے جن میں دو 19 سال کے نوجوان تھے، مرکزی وزیر مملکت برائے داخلہ کے قافلے کی گاڑی سے ہوئے اس حادثہ کے باوجود اب تک وزیر اعظم نےمنھ نہیں کھولا ہے اور نہ ہی وزیر سے استعفیٰ مانگا گیا ہے ۔ وزیر نے قبول کیا ہے کہ قافلے میں ان کی گاڑیاں تھیں، لیکن یہ بھی کہاکہ ان کے بیٹے اس قافلے میں نہیں تھے ۔
مودی بھکت اور بی جے پی کی پروپیگنڈا مشینیں سوشل میڈیا پر اس قدر غالب ہو چکی ہیں کہ موضوع ہی بدل ڈالیں۔ خالصتانی اور سیاست سےمتاثر ہونے کے الزام سامنے آنے لگے۔ حراست میں پرینکا کی جھاڑو لگانے والی تصویر زیادہ دکھائی جانے لگی، لیکن میں پوچھتی ہو ں کہ اتنے اہم مسئلے پر سیاست کیو ں نہ ہو؟ وزیر اعلیٰ نے سوچا ہوگا کہ ہاتھرس کی طرح اس بار بھی وہ موضوع بدلنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ لکھنؤ میں وزیر اعظم ایسے پیش آئے جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ لکھیم پور کھیری کا ذکر تک نہیں ہوا۔ ہوسکتا ہے کہ اترپردیش کے انتخابات میں اس شرمناک واقعات کا کوئی اثر نہ ہو اور سیاسی مبصرین کے مطابق یوگی پھر وزیر اعلیٰ بن جائیں، مگر خود مجھے ایسا یقین نہیں ہو رہاہے ، یہ واقعہ اتنادرد ناک ہے کہ اسے فراموش نہیںجاسکتا۔
(یہ مضمون نگار کے اپنے خیالات ہیں)