تحریر: مفتی محمد اطہر شمسی
تھنک ٹینک عام طور پر کسی قومی ، فکری یا گروہی ایجنڈا کے تحت قائم کیے جاتے ہیں جن کا مقصد کسی مخصوص بیانیہ کو فروغ دینا ، پبلک پالیسی پر اثر انداز ہونا اور کسی ملک ، قوم یا گروہ کے مفادات کا تحفظ کرنا ہوتا ہے . نیتی آیوگ ہندوستان کے قومی ترقی اور اقتصادی پالیسی ایجنڈا کے تحت قائم کیا گیا ہے ۔Carnegie Endowment for International Peace امریکہ کی عالمی قیادت اور لبرل جمہوری اقدار کے فروغ کے لیے قائم کیا گیا ہے ۔ سعودی عرب کا کنگ فیصل سینٹر فار ریسرچ اینڈ اسلامک اسٹڈیز اسلام کو سعودی مفادات کے تناظر میں پیش کرتا اور سعودی شہنشاہیت کو جواز بخشنے کی کوشش کرتا ہے ۔
مفادات کی اس دنیا میں اصولوں پر مبنی ایک تھنک ٹینک اس وقت دنیا کی بڑی ضرورتوں میں سے ایک ہے ۔
ہندوستان کی بڑی مسلم جماعتیں مثلا جماعت اسلامی ہند ، جمعیتہ علماء ہند ، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ، مسلم یونیورسٹی علی گڑھ وغیرہ مل کر اگر ایک ایسا تھنک ٹینک قائم کر سکیں جو گروہی مفادات سے بالا تر انصاف کی گواہی کے خالص قرآنی اصولوں پر قائم ہو تو یہ تھنک ٹینک سسکتی انسانیت کے لیے ایک مینارہ نور ثابت ہو سکتا ہے ۔
قرآن کا مطلوب تھنک ٹینک کسی قسم کےآئیڈیالوجیکل ایجنڈا یا گروہی مفادات سے بالا تر ہو کر کام کرے گا ۔ اس تھنک ٹینک سے ہماری مراد کسی فرقہ یا کمیونیٹی کا تھنک ٹینک نہیں ہے۔ گروہی تھنک ٹینک قرآن کی عالمگیر فکر سے ہم آہنگ نہیں ہے ۔ اس طرح کا کوئی تھنک ٹینک اگر وجود میں آ بھی جائے تو وہ ایک مخصوص طبقہ کا ادارہ بن کر مین اسٹریم سے الگ تھلگ پڑا رہے گا ۔قرآن اُمت مسلمہ کو مین اسٹریم سے الگ تھلگ ایک اقلیت کے طور پر نہیں دیکھتا۔ وہ حاملین قرآن کو خود ذمّہ دار مین اسٹریم کے طور دیکھتا ہے ۔ ( البقرۃ 2/143 ). قرآن کا مطلوب تھنک ٹینک وہ ہوگا جو قرآن کے عالمگیر اصولوں پر قائم ہو ۔جس پر کسی فرقہ یا قوم کی چھاپ نہ ہو ۔جسے ہر کوئی اپنا سمجھ سکے ۔ جوبلا امتیاز سماج کے ہر طبقہ کے لیے Justice, Equity, Fairness کی بات کرے ۔ قرآن خود کو هدى للناس کہتا ہے وہ ساری انسانیت کو یا ایھا الناس کہہ کر پکارتا ہے ۔ ظاہر ہے کہ اس کے تھنک ٹینک کی صدا یا ایھا المسلمون کیسے ہو سکتی ہے ۔ قرآن کا مطلوب تھنک ٹینک وہ ہوگا جو سب سے پہلے مسلمانوں کی مسلم رخی سوچ کو انسان رخی بنانے کا کام کرے گا ۔ یہ خود مسلم ذہن کو مسلم مسائل کی تنگنائیوں سے نکال کر وسیع تر قومی و بین الاقوامی ایشوز کی جانب متوجہ کرے گا ۔ کیونکہ دنیا میں عزت اپنے مسائل کا راگ پیٹنے سے نہیں بلکہ دوسروں کے ایشوز حل کرنے اور انہیں فائدہ پہنچانے سے حاصل ہوتی ہے ۔قرآن کا مطلوب تھنک ٹینک مسجد اور مدرسہ کے ڈسکورس کو محدود مذہبی و قومی موضوعات سے نکال کر مین سٹریم موضوعات کی جانب مرکوز کرے گا۔وہ اس مقصد کے لیے پالیسی پیپر ، کتابیں ، تجاویز وغیرہ بھی شائع کرے گا ۔
قرآن کا مطلوب تھنک ٹینک دراصل مظلوموں کا تھنک ٹینک ہوگا ۔جو ہر اس شخص کے ساتھ کھڑا ہوگا جس کے حقوق کو پامال کیا گیا ہو ۔ قرآن تھنک ٹینک ہر طبقہ کی Socioeconomic Conditions کو بہتر کرنے کے لیے کام کرے گا ۔
اس تھنک ٹینک کا محور قرآن کی ابدی اور عالمگیر اقدار ہوں گی۔قرآن کا یہ تھنک ٹینک ماحولیاتی تبدیلی کے حوالہ سے خلافت ارضی ، امانہ اور فساد فی الارض سے بچنے کے رہنما قرآنی اصولوں کو جدید دنیا میں متعارف کرانے کا ایک ذریعہ ہوگا ۔یہ ادارہ ماحولیاتی انصاف کے حوالہ سے قرآنی اقدار کے لیے علمی و فکری بنیادیں فراہم کرے گا ۔مثلا ان قرآنی اقدار کو فروغ دینے کے لیے کتابیں لکھی جائیں گی ، علمی ڈسکشن منعقد ہوں گے ، دلائل فراہم کیے جائیں گے وغیرہ ۔اس طرح فکر قرآن پر قائم یہ تھنک ٹینک دنیا بھر میں ماحولیاتی انصاف کو فروغ دینے اور ماحولیاتی تبدیلی کا مقابلہ کرنے میں دنیا کے لیے ایک بڑا سپورٹ ثابت ہوگا ۔
یہ تھنک ٹینک ایک یا ایہا الناس سمپوزیم کا انعقاد کرے گا۔ جس کا مقصد قرآنِ کے ان اصولوں کو فروغ دینا ہوگا جو انسانوں کو مذہب ،برادری ، مالی مفادات ، زبان جیسے محرکات کی بنیاد پر تقسیم ہونے کے بجائے ایک عالمگیر برادری بن کر رہنے کی دعوت دیتے ہیں ۔یہ تھنک ٹینک ان اصولوں کے لیے دنیا بھر میں ماحول تیار کرے گا ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ القران اکیڈمی کیرانہ اس موضوع پر ایک انٹرنیشنل کانفرنس مورخہ بیس مئی 2023 کو منعقد کر چکی ہے ۔ ہر مسلم و غیر مسلم جو جو قرآن کی عدل ، احسان ، اخوت جیسی مطلوبہ عالمگیر اقدار پر یقین رکھتا ہو ،بلا امتیاز مذہب و ملت اس ادارہ کا رکن ہو سکے گا ۔
ایڈورڈ سعید اپنی معروف کتاب Orientalism میں لکھتے ہیں کہ علمی ادارے عموما Power Structure کے طور پر کام کرتے ہیں۔ ان اداروں کا مقصد علم کے ذریعہ پاور کو متاثر کر کے اپنے گروہی یا قومی مفادات کو حاصل کرنا ہوتا ہے۔ مغرب نے اس کام کو بڑے پیمانہ پر انجام دیا ہے ۔ مغرب نے بلا شبہ مختلف علوم و فنون اور تہذیب انسانی کے باب میں عظیم خدمات انجام دیں مگر بد قسمتی سے انہوں نے علم ( Knowledge Production) کے ذریعہ مشرق کی ” غير کاری” بھی کی ۔ علم کے ذریعہ کچھ قوموں کو ” غیر” کے زمرہ میں کھڑا کر دیا گیا ۔ قرآن تھنک ٹینک ایک ایسا ادارہ ہوگا جو Knowledge Production کے ذریعہ Otherization کی ہر علمی اور فلسفیانہ بنیاد کو ڈھانے کا کام کرے گا ۔خواہ یہ نام نہاد علمی یا فلسفیانہ بنیادیں مغرب نے فراہم کی ہوں یا ہندوستان کے قوم پرستوں نے۔ قرآن تھنک ٹینک وہ خالص علمی و فلسفیانہ بنیادیں فراہم کرے گا جو تمام انسانیت کو ایک ایسی عالمی برادری کے طور پر ڈیویلپ کر سکیں جو مذہب ، ذات ، دولت ، زبان وغیرہ کی بنیاد پر منقسم نہ ہو بلکہ فلاح انسانی کے ایک ہی ایجنڈا پر متحد ہو ۔ایک ایسی برادری جس میں مشرق و مغرب کا امتیاز ہو نہ نسلی برتری کی کوئی جگہ ۔ جس میں عزت و مرتبہ کردار اور کنٹری بیوشن کی بنیاد پر طے ہو نہ کہ کسی اور بنیاد پر ۔
اس طرح کا تھنک ٹینک ہندوستان ہی نہیں بلکہ عالمی سطح بھی پر اپنے گہرے اثرات مرتب کرے گا ۔ یہ قومی سطح پر مسلمانوں کے خلاف پنپ رہی نفرتوں کو کم کرے گا تو دوسری جانب عالمی سطح پر ہر قسم کی تقسیم اور انسانی ٹوٹ پھوٹ میں کمی لانے کا فریضہ انجام دے گا۔ دنیا بھر کی سعید روحیں اس وقت ایک ایسے علمی ادارہ کے انتظار میں ہیں جو عالمی انسانی اتحاد اور انسانی برابری کے لیے خالص علمی و فلسفیانہ بنیادیں فراہم کر سکے ۔حاملین قرآن کے لیے یہ خلا ایک بہترین موقع کی حیثیت رکھتا ہے ۔
موجودہ دور میں ہر منفی آئیڈیا کے لیے علمی اور فلسفیانہ بنیادیں فراہم کرنے کی گہری کوششیں کی گئی ہیں۔مثلا اخلاقی نسبیت ( Moral relativism)، انفرادیت پسند ، مادہ پرستی ، فیمنزم وغیرہ میں در آئے انتہاپسند اور منفی آئیڈیاز ۔ان انتہا پسند آئیڈیاز کو فروغ و استحکام بخشنے کے پیچھے بڑے بڑے معروف مفکرین ، فلسفیوں ، بیسٹ سیلنگ مصنفین کی ایک فوج ہوتی ہے۔ان خیالات کو فروغ دینے کے لیے کتابیں لکھی جاتی ہیں ، تھیوریز اور آئیڈیالوجی وجود میں لائی جاتی ہیں ، علمی تحقیقات کی جاتی ہیں ۔اس کے علاوہ بھی بہت کچھ کیا جاتا ہے ۔اسی کے بعدہی کوئی نظریہ طاقت پکڑتا اور فروغ پاتا ہے۔
قرآن کے عالمگیر افکار و اقدار کو بھی ما بعد جدیدیت کے اس دور میں فروغ دینے کے لیے اسی نوعیت کے علمی و فکری کارناموں کی بڑے پیمانہ پر ایک مسلسل ضرورت ہے ۔قرآن تھنک ٹینک یہ فریضہ انجام دے سکتا ہے۔
(مضمون نگار القرآن اکیڈمی کیرانہ کے ڈائریکٹر ہیں)