تحریر:نازش ہما قاسمی
جی، معروف صحافی، این ڈی ٹی وی سے منسلک لکھنؤ زون کا بیورو، زمینی رپورٹر، حق گو، بے باک، حقیقت شناس، صادق القول، منفرد لب ولہجے کا مالک، لکھنوی تہذیب و تمدن کاپروردہ، گنگا جمنی سنسکرتی کا تربیت یافتہ، کمیونسٹ ذہن کا حامل، باکمال ، غیر جانبدار، دن کو دن اور رات کو رات کہنے والا، اردو ادب کا عاشق، میر وغالب کا شیدا، ماہر لسانیات، بین الاقوامی زبانوں کا مترجم، بااخلاق، باکردار، باادب، مہذب، شائستہ، خوش اخلاق، خوش وضع، خوش اطوار، تعلیم یافتہ، اہل قلم، صاحب علم، انشا پرداز، لکھاری، محرر، سخن ور، سخن شناس، سخن گو کمال راشد خان ہوں۔ میری پیدائش شیراز ہند جونپور میں ۱۹۶۰ میں شیعہ گھرانے میں ہوئی۔ آباواجداد ایرانی النسل شیعہ تھے، بچپن جونپور میں گزرا، پھر مشرقی تہذیب و تمدن کی آماجگاہ، گہوارہ علم وفن، مدفن شعراء وادباء، اردو شعر و ادب کے قدیم ترین دبستان لکھنو میں آمد ہوئی اور آخری سانس تک اسی شہر میں زندگی گزاری، ابتدائی تعلیم کے بعد اعلیٰ تعلیم کےلیے لکھنؤ یونیورسٹی ، جامعہ ملیہ اسلامیہ اورماسکو یونیورسٹی کا رخ کیا جہاں مختلف علوم وفنون کی اعلیٰ ڈگریاں حاصل کیں۔ میری شادی صحافی روچی کمار سے ہوئی جس سے ایک لڑکا امن ہے۔ اہلیہ روچی سے میری ملاقات ٹائمز آف انڈیا کے دفتر میں ہوئی تھی، شادی سے قبل ہم دونوں نے تقریباً دو سال تک ایک دوسرے کو سمجھا بوجھا، پھر شادی کے بندھن میں بندھے۔روچی ہندو مذہب سے تعلق رکھتی تھیں؛ اس لیے ہماری شادی اسپیشل میرج ایکٹ کے تحت عمل میں آئی۔ میری اہلیہ بھی نیوز چینل سے وابستہ ہیں اور لڑکا ابھی زیر تعلیم ہے۔
ہاں میں وہی کمال خان ہوں جسے بچپن سے ہی نیوز ، ا خبار، صحافت اور شعرو ادب میں دلچسپی تھی، جس کی وجہ سے میں نے جرنلسٹ بننے کا فیصلہ کیا، اپنے خوابوں کی تکمیل کےلئے1990میں صحافت میں قدم رکھا، مقامی نیوز چینل امرت پربھات سے رپورٹنگ کی ابتداء کی ، نوبھارت ٹائمز سمیت مختلف اخبارات و نیوز چینل میں کام کرنے کے بعد این ڈی ٹی وی سے منسلک ہوا، این ڈی ٹی وی میں اپنی خدمات کی ابتدا بطور رپورٹر شروع کی؛ لیکن دھیرے دھیرے قدم بقدم ترقی کے منازل طے کرتا ہوا، رپورٹر، اینکر کے زینے پر چڑھتے چڑھتے این ڈی ٹی وی یوپی ایڈیٹر کے عہدے پر فائز ہوگیا۔یہاں تقریباً تین دہائی تک اپنے ہنر، محنت و لگن ، جذبہ صداقت کے ساتھ جمہوریت کے چوتھے ستون ’میڈیا‘ کی حفاظت و بقاء کے لیے اہم کردار ادا کیا، اپنی صحافت کے ذریعے ظالم کو ظالم کہا، مظلوم کو مظلوم سمجھا اور اس کے حق کےلیے آواز اُٹھائی، سچ کو سچ کہا، جھوٹ کو بے نقاب کیا۔اپنے منفر لب ولہجے کی وجہ سے الگ شناخت پائی، لفظوں کے انتخاب، الفاظ میں ٹھہرائو، خبروں میں سنسنی کے بجائے حقائق پیش کرنے کی وجہ سے جہاں ایک طرف دوست تعریف کیا کرتے تھے تو وہیں دوسری جانب اپنے دشمنوں سے بھی دادا وصول کرلیتا تھا۔
ہاں میں وہی کمال خان ہوں جسے صحافت کی ’یونیورسٹی‘ کہاجاتا تھا، جس نے بابری مسجد اور ایودھیا مسئلے پر ’کمال کے رام‘ سے رپورٹنگ کی تھی جس کی ابتدا کے الفاظ مندرجہ ذیل ہیں’’یہاں سے صرف سو کلو میٹر دور مگھر میں وہ کبیر سو رہا ہے جس نے قریب ساڑھے پانچ سو برس پہلے کہہ دیا تھا، ’’تو ہی جگدیش کہاں تے آئے ، کہو کونے بھرمایا، اللہ ، رام، کریما کے سو حسرت نام گھر آیا‘‘یعنی میرا خدا، تمہارا خدا الگ کیسےہوسکتا ہے، یہ بھرم کس نے پیدا کیا، لیکن اس کے باوجود سن 1885سے اس زمین پر سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ یہاں کس کے خدا کی عبادت ہو، اس ایک مسئلے نے ملک میں بہت کچھ بدل دیا، رشتے بھی بدل گئے اور سیاست بھی بدل گئی، رشتے تو چاہتے تھے کہ بات چیت سے مسئلہ حل ہوجائے؛ لیکن سیاست نے حل نہیں ہونے دیا، 133سال تک سب اپنے اپنے خدا کےلیے عدالت میں لڑتے رہے‘‘ ۔ اس رپورٹنگ میں میں نے رام، بابر، مسجد، مندر ، ہندوئوں، شیعہ اور سنیوں کے اس جگہ پر دعوئوں کی تاریخیں پیش کیں اور عدالتی احکامات کے حقائق بتائے‘، اس تنازعے کی ابتدا سے انتہا تک پہلے دوسرے اور تیسرے دور کی مکمل تاریخیں، ضلع کورٹ، ہائی کورٹ، اور سپریم کورٹ کے احکامات سے روشناس کرایا۔
ہاں میں وہی کمال ہوں جس کی رپورٹنگ میں شعروشاعری، دوہے، کویتا شامل ہوتی تھی جس سے سامعین و ناظرین محضوظ ہوتے تھے۔ جس کی شستہ اور سادہ دلنشیں زبان کے لوگ شیدا تھے، میں جس لہجے میں بولنا شروع کرتا تھا اسی لہجے میں اختتام کرتا تھا، میری آواز میں ایسا جادو تھا جو لوگوں کو باندھ کر رکھتا تھا، لوگ شروع سے آخر تک تھم سے جاتے تھے، جب تک میں بولتا تھا لوگ ہمہ تن گوش رہتے تھے۔ ہاں میں وہی کمال خان ہوں جو اپنی صحافت کے ذریعے ، سیاسی، سماجی، ملی، تعلیمی مسائل اٹھاتا تھا، ملک کے زمینی مسائل اور سیاسی معاملات پر پر بڑی گہری نظراور مکمل دسترس رکھتا تھا، غیرجانبدار رپورٹنگ کرتے ہوئے عوام کو حقائق سے باخبر رکھتا تھا، موت سے چند گھنٹوں قبل اپنے آخری پرائم ٹائم میں بھی ملک میں ہونے والے پانچ ریاستوں میں اسمبلی الیکشن کے لیے رپورٹنگ کی تھی؛ لیکن صبح ۱۴ جنوری 2022کو قدرت نے مجھے ہمیشہ کے لیے اپنے پاس بلالیا، 14 جنوری کو ہی بعد نماز عصر کورونا پروٹوکول پر عملدر آمد کرتے ہوئے چند لواحقین اور قریبی اعزواقارب نے لکھنو کے مشہور قبرستان عیش باغ میں منوں مٹی تلے ہمیشہ کے لیے دفن کردیا۔ انتقال کے بعد دوست و دشمن سبھی نے تعزیت پیش کی، اہل خانہ اور این ڈی ٹی وی پریوار سے اپنے غم کا اظہار کیا، تعلیمی اداروں کے سرپرستوں نے تعزیتی بیانات جاری کیے، بنارس میں گنگا آرتی میرے نام کی گئی، یونیورسٹیوں میں افسوس ظاہر کیا گیا، صرف اندھ بھکتوں نے مسلم نام ہونے کی وجہ سے میری موت پر سوشل میڈیا پر جشن منایا اور خوشی کا اظہار کیا؛ لیکن ملک کے عوام کی اکثریت مغموم رہی اور اور اس بات پر افسوس کرتے ہوئے کہاکہ ’’این ڈی ٹی وی کے لیے لکھنو سے کمال خان‘‘ جیسی سریلی ، میٹھی، سہانی، آواز اب کانوں میں رس نہیں گھولےگی۔