نئی دہلی (ایجنسی)
سابق انڈین کرکٹر یوراج سنگھ کو دہلی سے ملحق ریاست ہریانہ کی حصار پولیس نے ذات پات پر مبنی تبصرہ کرنے پر گرفتار کر لیا تاہم کچھ ہی دیر میں انھیں ہائی کورٹ کے احکامات پر عبوری ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔ اتوار کی رات دیر گئے اُن کی گرفتاری کی خبر سامنے آئی تھی۔ یوراج سنگھ پر سوشل میڈیا پلیٹ فارم انسٹاگرام پر ذات پات پر مبنی تبصرے کرنے کا الزام ہے۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق ہریانہ میں ہانسی کے رہائشی رجت کلسن نامی ایک شخص نے کئی دفعات کے تحت پولیس میں یوراج سنگھ کے خلاف ایف آئی آر درج کروائی تھی۔ ہانسی کی ایس پی نکیتا گہلوت کے مطابق درخواست موصول ہونے کے بعد یوراج سنگھ عدالت کی ہدایت پر تحقیقات میں شامل ہوئے تھے۔ نکیتا گہلوت نے بتایا کہ پولیس نے مزید کارروائی کی غرض سے یوراج سنگھ کا فون ضبط کر لیا ہے۔
کلسن نے یوراج سنگھ پر الزام عائد کیا ہے کہ انھوں نے انسٹاگرام لائیو کے دوران ایک کھلاڑی کی ذات پات پر مبنی تبصرے کیے۔ جس وقت پہلی مرتبہ یہ معاملہ سامنے آیا تھا اس وقت یوراج سنگھ نے اس واقعے پر افسوس کا اظہار کیا تھا۔ تقریباً ایک سال قبل ساتھی کرکٹر روہت شرما کے ساتھ بات چیت کے دوران انھوں نے یوجویندر چہل کے ویڈیو کو مذاق کا نشانہ بنایااور ایک ایسے لفظ کا استعمال کیا جس سے بھارت کی ایک پسماندہ ذات کی نشاندہی ہوتی تھی۔
ان کے خلاف شہری کی جانب سے دائر درخواست کے بعد یوراج سنگھ نے اس معاملے میں چندی گڑھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا اور اپنے خلاف درج ایف آئی آر کو ختم کرنے کی اپیل کی ہے۔ یوراج سنگھ نے اپنی اپیل میں بے گناہی کا دعویٰ کیا ہے اور کہا ہے کہ دوستوں کے ساتھ ان کی گفتگو کی غلط تشریح کی گئی۔
گذشتہ سال انسٹاگرام لائیو پر ہونے والے اس تنازع کے بعد یوراج سنگھ نے اس پر افسوس کا اظہار بھی کیا اور پانچ جون 2020 کو ایک وضاحتی پوسٹ بھی کی۔ انھوں نے کہا: ’میں ایک بات واضح کرنا چاہتا ہوں کہ میں کسی قسم کے امتیازی سلوک پر یقین نہیں رکھتا۔ خواہ وہ ذات، رنگ، جنس یا مذہب کی بنیاد پر ہو۔‘
یوراج سنگھ نے کہا تھا: ’میں نے اپنی زندگی لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے وقف کر دی ہے اور آئندہ بھی ایسا کرتا رہوں گا۔ تاہم ایک ذمہ دار شہری ہونے کے ناطے اگر میں نے کسی کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی ہے تو میں اس کے لیے معذرت خواہ ہوں۔‘
سوشل میڈیا پر نکیتا نامی ایک صارف نے لکھا: ‘یوراج سنگھ کے ساتھ جو ہوا وہ سوشل میڈیا پر آنے والوں کے لیے ایک سبق ہے۔ ذات پات پر مبنی ہتک آمیز تبصرے اس قدر عام بنا دیے گئے ہیں کہ لوگوں یہ تمیز بھی نہیں کر پاتے کہ یہ کسی گروہ کو تکلیف پہنچا سکتے ہیں۔ یوراج نے دانستہ طور پر ایسا نہیں کیا اور زیادہ تر ہوش مند لوگ ایسا نہیں کرتے ہیں۔‘
جبکہ اننیا مشرا نامی صارف نے لکھا کہ چہل کے خلاف ذات پات پر منبی تبصرے کے بعد ’یو وی‘ (یوراج) کو ضمانت مل گئی۔ قانون سیلبریٹیز کے لیے دوسری طرح سے کام کرتا ہے۔ بہت سی اونچی ذات والے اس ایس سی/ ایس ٹی کے سخت قانون کی وجہ سے جیل میں ہیں حالانکہ انھوں نے جرم بھی نہیں کیا ہے۔ ان کی نہ کوئی ضمانت ہے اور نہ ان کے کیس کی سماعت ہے۔‘
بھارت میں ذات پات کی تفریق ایک مسئلہ رہا ہے اور پسماندہ طبقات کو مین سٹریم میں لانے کے لیے حکومت نے انھیں بہت سے شعبوں میں سیٹیں مخصوص کر رکھی ہیں۔ بہت سے لوگ اس کے حامی ہیں جبکہ بہت سے لوگ اس کے مخالف بھی ہیں۔ چنانچہ انڈین کرکٹ میں پسماندہ طبقات سے آنے والے افراد کی کمی کو شدت سے محسوس کیا جاتا رہا ہے اور اس پر وقتاً فوقتاً بحث ہوتی رہی ہے لیکن نمائندہ کرکٹرز کا کہنا ہے کہ انڈین کرکٹ میں ذات پات کو نہیں دیکھا جاتا ہے۔
ایک صارف نے لکھا کہ ’لوگ نوکریوں میں ریزرویشن حاصل کرنے کے لیے اپنے نام کے ساتھ ذات کا نام لگانے میں شرم محسوس نہیں کرتے لیکن یہی ان کے لیے دوسری جگہ ہتک آمیز ہو جاتا ہے۔‘
کرکٹ میں نسل پرستانہ رویوں کی تاریخ کافی پرانی ہے اور اس کی وجہ سے جنوبی افریقہ پر ایک زمانے تک کرکٹ کھیلنے پر پابندی رہی اور وقتاً فوقتاً نسل پرستانہ تبصروں کا سخت نوٹس لیتے ہوئے سخت کارروائیاں بھی کی گئی ہیں جیسے انڈین کرکٹر ہربھجن سنگھ پر آسٹریلوی کھلاڑی کے خلاف نسل پرستانہ تبصرے کے بعد تین میچوں کی پابندی عائد کر دی گئی تھی۔
صحافی کرن لوبو فرسٹ پوسٹ میں شائع اپنے ایک مضمون میں لکھتی ہیں کہ انڈین کرکٹ میں ذات کے نام پر جو مراعات ملتی ہیں اس سے لوگ انکار کرتے ہیں لیکن اس سے اس کے وسیع پیمانے پر موجود ہونے کی حقیقت کو چھپایا نہیں جا سکتا ہے۔ انھوں نے لکھا ہے کہ آخر انڈین ٹیم میں اب تک بڑی ذات کے برہمنوں کی اکثریت کیوں رہی ہے اور ابھی تک صرف چار لوگ (ناتھ سولکر، کرشن گھاوری، ونود کامبلی اور بھوونیشورکمار) ہی پسماندہ طبقے سے انڈین ٹیم میں نمائندگی حاصل کر پائے ہیں۔